"DLK" (space) message & send to 7575

جنوبی افریقہ: حاکمیت کے رنگ بدلے‘ جبر جاری!

جنوبی افریقہ معدنیات، اقتصادیات، سیاست اور ریاستی اعتبار سے سیاہ فام براعظم افریقہ کا سب سے بڑا اور اہم ترین ملک ہے۔ 14 فروری کو رات گئے جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے ایک نشری تقریر میں استعفیٰ دے دیا۔ تقریر کے دوران وہ لڑکھڑا رہا تھا اور ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح شکست خوردہ نظر آرہا تھا۔ پچھلے چند ماہ سے زوما پر صدارت سے دستبردار ہونے کا دبائو شدت اختیار کر گیا تھا۔ آخر کار اِس نے اُس وقت استعفیٰ دے دیا‘ جب اس کی اپنی پارٹی 'افریقن نیشنل کانگریس‘ (ANC) کی اکثریت نے حزب اختلاف کی جانب سے پارلیمان میں اس کو برطرف کرنے کی قرارداد کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ رسوائی سے بچنے کے لئے اس کو اپنی تمام اکڑ اور رعونت کو ایک طرف رکھ کر مستعفی ہونا پڑا۔ دستبرداری کے ساتھ ہی اس کے سامنے جنسی جبر، بدعنوانی‘کاروباری ہیرا پھیری اور لوٹ مار کے 738 مقدمات کا انبار لگا پڑا ہے۔ 2009ء سے اقتدار میں رہتے ہوئے زوما نے جنوبی افریقہ کے مزدوروں، نوجوانوں اور محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے۔ صنعتوں اور معیشتوں کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا گیا۔ درجنوں کارکنوں کا چند برس قبل پولیس کی فائرنگ سے قتل عام ہوا۔
یہ صورتحال زیادہ المناک اس لئے بھی ہے کہ 1994ء میں سفید فام نسل پرست اقتدار کے خاتمے اور سیاہ فام نیلسن منڈیلا کے صدر بننے کے بعد کے 24 سالوں میں حاکمیت کا رنگ تو بدلا، سفید فام حکمرانوں کے خاتمے کے بعد سیاہ فام حکمران ایک جمہوری انداز میں برسر اقتدار تو آ گئے لیکن یہاں سیاہ فام محنت کشوں اور غریبوں کے حالات بد سے بدتر ہی ہوتے چلے گئے۔ پچھلے سال جنوبی افریقہ کی دیوہیکل معیشت کی شرح نمو منفی ہو گئی تھی۔ منافعوں کی لوٹ مار میں حکمران خونخوار کرپشن میں دھنس چکے ہیں۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کے مطابق جنوبی افریقہ میں سب سے وسیع امارت اور غربت کی خلیج پیدا ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی نظام سے متعلق سروے کے مطابق 76 ممالک میں سے جنوبی افریقہ بد تر تعلیمی نظام کے اعتبار سے 75ویں نمبر پر آتا ہے۔ صحت کے نظام کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ حال ہی میں 143 ذہنی مریضوں کی موت کی خبر نے دنیا بھر کے عوام دوست انسانوں کے دل لرزا کر رکھ دیئے۔ علاج اور تعلیم پر حکومتی کٹوتیوں کی پالیسی کی وجہ سے ہسپتال بند کرکے ان مریضوں کو کم خرچے کے عارضی گھروندوں میں منتقل کیا گیا۔ یہاں ان کی نگہداشت کی صورتحال اتنی ابتر تھی کہ یہ ذہنی مریض بھوک اور پیاس سے مر گئے۔ کوئی ان کی خبر لینے والا نہیں تھا۔ اس وقت بیروزگاری کی شرح 36 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے‘ جو جنوبی افریقہ کو دنیا کی بلند ترین بیروزگاری والا ملک بنا دیتی ہے۔ اس بیروزگاری، غربت اور محرومی سے میلوں تک پھیلی ہوئی کچی آبادیوں اور جھونپڑ پٹیوں میں جرم، تشدد اور خونریزی کا اندھا راج چلتا ہے۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی معاشرے میں عروج پر پہنچ چکی ہے۔ وہاں کے عام لوگ نہ صرف معاشی بدحالی، مہنگائی، بنیادی ضروریات کی قلت اور زندگی کی مختلف محرومیوں کا شکار ہیں بلکہ معاشرے میں پھیلے ہوئے جبروتشدد سے ان کی زندگیاں مسلسل خطرات اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔
سیاہ فام اور سفید فام جنوب افریقی سرمایہ دار تیزی سے منافع خوری کر رہے ہیں۔ لوٹ مار اور محنت کے جبری استحصال کا بازار گرم ہے۔ جنوبی افریقہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا شعبہ پرائیویٹ سکیورٹی فرموںکا ہے۔ یہ بڑے بڑے کالے اور گورے سیٹھ اپنی عالیشان کوٹھیوں اور محلات میں معاشرے میں پھیلتے ہوئے تشدد اور جرم کے سیلاب سے خوفزدہ ہو کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے سکیورٹی گارڈوں کو بھرتی کر رہے ہیں اور اپنی جائیدادوں اور دولت کے تحفظ پر بھی بے پناہ پیسہ لٹا رہے ہیں۔ لیکن عوام جہاں ریاستی تشدد کا شکار ہیں وہاں ایسے جرائم اور کرائے کے قاتلوں کے گروہوں کے سامنے بے یارومددگار بھی ہیں۔ جس پارٹی کی جدوجہد میں انہوں نے اپنے پرکھوں کے وقت سے نسل در نسل قربانیاں اور جانیں دیں اسی پارٹی کی قیادت نے سرمائے کی دلالی میں ان مظلوموں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
جنوبی افریقہ ایک مملکت کے طور پر 1909ء میں برطانوی سامراج کی سرپرستی میں معرضِ وجود میں لایا گیا تھا۔ برطانوی سامراج کے براہِ راست حاکمیت سے دستبردار ہونے کے بعد جس آئین اور قانون کے تحت جنوبی افریقہ کو چلایا گیا‘ اس کو ''افریکانر‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس کے معنی نسلی تقسیم کے ہیں۔ 1961ء میں یہ ایک ریپبلک بنی۔ 1984ء سے 1994ء تک اس میں سفید فام حاکمیت کے خلاف جدوجہد تیز ہوتی گئی۔ اس کی قیادت افریقن نیشنل کانگریس کے پاس تھی جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف سائوتھ افریقہ (CPSA) اور کانگریس آف سائوتھ افریقن ٹریڈ یونینز (COSATU) کا کلیدی کردار تھا‘ جنہوں نے اس جدوجہد میں کہیں مسلح اور کہیں صنعتی ہڑتالوں کے ذریعے سفید فام آمریت کا خاتمہ کیا تھا‘ لیکن یہ تبدیلی مغربی سامراجیوں خصوصاً ولندیزیوں اور انگریزوں کی سربراہی میں مذاکرات کے ذریعے اس لئے لائی گئی کہ یہاں اب اس جدوجہد کے کسی جمہوری مرحلے کو چیر کر ایک سوشلسٹ مرحلے میں داخل ہونے اور انقلاب کے برپا ہونے کا خطرہ سامراجی محسوس کر رہے تھے۔ جہاں بھی سامراجی مذاکرات کے ذریعے آزادیاں حاصل کی گئیں وہاں آزادیاں صرف سامراجیوں کے پروردہ مقامی طبقات کو ہی حاصل ہوئیں۔ سامراجیوں کا مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام محنت کشوں کے آنسوئوں اور لہو کو نچوڑتا ہی رہا ہے۔ برصغیر میں بٹوارے والی آزادی سے لے کر روڈیشیا (زمبابوے) کے لینکاسٹر ہائوس معاہدے تک‘ بہت سے معاملات ہمارے سامنے ایک ہی منظر کشی کرتے ہیں۔ ان آزادیوں سے محنت کش عوام کے حالات زندگی بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ برصغیر اور جنوبی افریقہ کی آزادی کی داستانوں میں دو کردار بہت ہی مماثلت رکھتے ہیں۔ کرم چند گاندھی اور نیلسن منڈیلا‘ دونوں نے سامراجی جبر کے دوران متعدد بار جیلیں کاٹیں اور معاہدوں کے ذریعے آزادی کا پرچار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آزادیوں سے سامراجی بہت خوش تھے۔ ایک طرف ممکنہ سوشلسٹ انقلابات ٹل گئے اور دوسری جانب ان کا لوٹ مار کا نظام آزادیوں کے بعد بھی ان ممالک میں جاری رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سامراجی یونیوسٹیوں، اداروں اور ذرائع ابلاغ نے ان 'قائدین‘ کو بہت ہی سراہا‘ اور ان کی عظمت کے گیت گائے، بے پناہ ایوارڈز سے نوازا اور عام شعور میں ان کو عظیم انسانوں کے طور پر رائج کروانے کی کاوش کی‘ لیکن ان آزادیوں کی بربادیاں ہمارے سامنے ہیں۔
جیکب زوما کا تعلق ذولو قبیلے سے ہے۔ ذولو اپنی درندگی کے لئے مشہور ہیں۔ اس کے درمیان کا نام گیدلے لیکیسا ہے۔ ذولو زبان میں اس کے معنی ایک ایسے شخص کے ہیں جو دوسروں کو نقصان اور ضرب لگا کر مسکراتا ہے۔ یہ نام جنوبی افریقہ کے بیشتر حکمرانوں کے کردار کی بہت واضح تعریف بنتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جیکب زوما کی جگہ نیا صدر سرل راما پھوسا بنا ہے‘ جو اے این سی کے ساتھ ساتھ کوساٹو (COSATU) کا بھی سربراہ رہا ہے۔ اس سارے کھیل میں وہ ایک بہت بڑا کاروباری اور سرمایہ دار بھی بن گیا ہے۔ محنت کش اور غریب طبقے کا جو بھی فرد بالا دست طبقات کا حصہ بنتا ہے‘ وہ اپنے طبقے سے غداری میں زہریلا وار محنت کش طبقے پر ہی کرتا ہے۔ سرل راما پھوسا ہیرے اور پلاٹینم کی ان کانوںکے مالکان میں شامل ہے‘ جہاں ہڑتالی کارکنوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اگر ایک ظالم حکمران کی جگہ نیا صدر دوسرا ظالم اور محنت کش طبقے کا غدار بنتا ہے‘ تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نظام میں جنوبی افریقہ کے محنت کشوں کا مستقبل کتنا بھیانک ہو گا۔ حکمرانوں کی نسلیں، رنگ، قومیں اور مذہب ان کے کردار کا تعین نہیں کرتے۔ بلکہ صرف نظریاتی سوچ اور انقلاب پر یقین کرنے والی پارٹی اور قیادت ہی اس ظالم نظام کو بدل کر عام انسانوں کی زندگیوں کو ان جبر و استحصال کی زنجیروں سے آزادی دلوا سکتی ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں