"DLK" (space) message & send to 7575

افغانستان : مذاکرات یا اعترافِ شکست؟

چند روز قبل افغان صدر اشرف غنی نے ایک کانفرنس کے دوران طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کی ایک پیش کش کر ڈالی۔ انہوں نے طالبان کو ایک سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرنے اور ملک بچانے کے لئے امن مذاکرات میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ پچھلے 17 سال سے چلنے والی سامراجی جارحیت ، قبضے اور طالبان کی دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا گیا ہے ۔ چند ہفتے قبل اشرف غنی نے نیو یارک ٹائمز کو یہ بیان بھی دیا تھا کہ اگر امریکی فوجیں افغانستان سے چلی گئیں تو یہ مسلط کردہ جمہوری حکومت چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی ۔ اب افغان بحران کے حل کی 25 ممالک کی کانفرنس میں اشرف غنی نے طالبان کو یہ پیش کش بھی کی ہے کہ ان کے تمام قیدی رہا کر دیئے جائیں گے ۔ طالبان دہشت گردوں کے نام بین الاقوامی پابندیوں اور سفر کی رکاوٹوں سے آزاد کر دیئے جائیں گے اور ان کو اقتدار میں شامل بھی کرایا جائے گا ۔ یہ کوئی تبدیلی نہیں ہے بلکہ اس امر کا اعتراف ہے کہ2001ء میں جب امریکی اور مغربی سامراجیوں نے افغانستان پر جارحیت کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کیا تو اس کے بعد سے اب تک وہ اپنی پروردہ کابل حکومت کو افغانستان کے وسیع تر علاقے پر دسترس دلانے‘ اس کی رٹ قائم کرنے اور افغانستان میں امن اور استحکام لانے میں ناکام رہے ہیں۔ 
اشرف غنی نے بالواسطہ طور پر اس خطاب میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پر ریاستی مداخلت اور طالبان کے کچھ دھڑوں کی پشت پناہی کا الزام بھی دھرایا ہے۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کا بیان اگرچہ کچھ مختلف تھا۔ جہاں انہوں نے پاکستان کی روایتی پالیسی کو دہرایا اور ان مذاکرات میں مصالحتی کردار ادا کرنے کا عندیہ پیش کیا‘ وہاں خواجہ آصف نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ پاکستان کے کچھ ادارے جو اپنے مفادات کو قومی مفادات قرار دیتے ہیں وہ اب ایسا نہیں کریں گے۔ بیان کا یہ حصہ پاکستان میں چلنے والی چپقلش کا حصہ معلوم ہوتا ہے‘ لیکن الجزیرہ کے مطابق طالبان کے گروپ امریکہ سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان کی کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کے دو دن بعد طالبان کا یہ جواب عملاً ثابت ہوا‘ جب افغانستان میں قندھار اور ادزگان کے صوبوں میں سفر کرنے والے تیس پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا اور چھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس لڑائی کی شدت کا اندازہ امریکی کانگریس کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق 2017ء میں 2,531 افغان فوجیوں کو مارا گیا اور 4,238 زخمی ہوئے تھے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے مختلف گروپ افغانستان کے 70 فیصد علاقے میں متحرک ہیں اور کافی حد تک یہاں ان کا غلبہ بھی موجود ہے۔ قطر (جہاں افغان طالبان کا سرکاری دفتر بھی ہے) سے طالبان کے جاری کردہ بیان میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان کا مذاکرات میں شریک ہونا‘ تمام امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ 
لیکن افغانستان میں امن مذاکرات اور خانہ جنگی کا خاتمہ کوئی سیدھا سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی سب سے اہم پیچیدگی تو یہ ہے کہ طالبان کوئی متحد اور منظم گروپ یا عسکری قوت نہیں ہیں۔ دوسرا یہ متحارب دھڑے جہاں بہت سے مقامات پر آپس میں برسر پیکار ہیں وہاں وہ اپنے بیرونی حلیف اور فنانسر بھی بدلتے رہتے ہیں۔ القاعدہ کے بعد داعش کا افغانستان میں ابھار اس پیچیدگی اور خونریزی کو زیادہ گمبھیر کر دیتا ہے۔ اسی طرح مغربی سامراجی بھی اپنے اپنے دھڑے رکھتے ہیں۔ فرانس اور جرمنی کے ''شمالی اتحاد‘‘ سے پرانے مراسم موجود ہیں‘ جبکہ تیل کے ذخائر اور تانبے اور دوسری معدنیات کے حامل مشرقی افغانستان کے علاقوں کے طالبان کے چین کی اشرافیہ سے مالیاتی مفادات وابستہ ہیں۔ اسی طرح روس نے بھی مداخلت بڑھا دی ہے۔ ہرات اور جنوب مغربی افغانستان میں اپنے طالبان گروپوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور براہ راست رابطے بھی موجود ہیں۔ ایک ملک‘ جو 1980ء میں افغان جہاد کے آغاز میں بڑے فنانسروں میں شامل تھا‘ ابھی تک براہ راست یا بالواسطہ اپنے گروپوں کی عسکری اور مالیاتی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ گو بھارتی ریاست کے کابل حکومتوں سے زیادہ قریبی مراسم رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی اپنے مالیاتی سیاسی اور سٹریٹیجک مفادات کے لئے کئی دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ان مختلف خارجی اور داخلی قوتوںکی مذاکرات کی کتنی بھی دیانت داری پر مبنی خواہش کیوں نہ ہو‘ عملی طور پر ممکن اس لئے نہیں ہے کہ افغانستان کے معدنیاتی وسائل اور اس ملک کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ان کی مداخلت کے مقاصد ایک دوسرے سے ٹکرائو کا باعث بنتے ہیں۔ ریاست پاکستان کی مداخلت میں سب سے کلیدی پہلو خطے میں عسکری اور مالیاتی مفادات کی بقا کی لڑائی ہے۔ امریکی سامراج نے اگر ترقی کے لئے 12 ارب صرف کیے ہیں تو جنگی بربادی اور عسکری اخراجات کے لئے80 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کر چکا ہے۔ وہ اتنی آسانی سے افغانستان کو اپنے خلاف نئی ابھرنے والی سامراجی ریاستوں کے حوالے کرکے جانے والا نہیں ہے۔ ہزاروں امریکی فوجی ان 17 سالوں میں مارے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں واپس جانے کے بعد ذہنی توازن بھی کھو چکے ہیں۔ اس لئے امریکہ کا افغانستان چھوڑ کر جانے کا فوری ارادہ نظر نہیں آتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو امریکی فوجوں کے انخلا کا انتخابی وعدہ کیا تھا‘ اس کے برعکس اس نے اقتدار میں آنے کے بعد مزید فوجیں افغانستان روانہ کی ہیں۔ جبکہ امریکہ اپنی زوال پذیر سامراجی اقتصادی اور عسکری بنیادوں پر اس مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے ان سامراجیوں کی مجبوریاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اب اسی کٹھنائی کو حل کرنے کے لئے انہوں نے اشر ف غنی سے یہ پیغام بھجوایا ہے۔ جبکہ طالبان کے بڑے گروہوں کے پیشوائوں اور جنگجو سرداروں کو بھی اچھی طرح پتہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت ان کی بہت بڑی پسپائی کا باعث بنے گی۔ 
افغانستان میں تاریخی طور پر ''گریٹ گیمز‘‘ میں بیرونی طاقتوں نے جوآگ اور خون کا کھلواڑ صدیوں سے جاری رکھا ہوا ہے‘ اس سے یہاں کے عام انسان تمام بیرونی قوتوں اور خصوصاً سامراجی مداخلت کے خلاف شدید نفرت رکھتے ہیں۔ یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے تاریخی مزاحمت اور جرات کی مثالیں رقم کی ہیں‘ جبکہ ان کے حکمران ہر دور میں مختلف خارجی قوتوں کی گماشتگی کرتے رہے ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اس لوٹ مار والے کھلواڑ میں افغانستان اور پاکستان کے مغربی علاقوں کے عام لوگ برباد ہوتے آئے ہیں۔ لاکھوں بے گھر اور مہاجر کیمپوں میں در بدر ہو کر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سامراجیوں نے ہمیشہ افغانستان کو لوٹا ہے۔ ان تمام بیرونی طاقتوں اور ان کے پروردہ مقامی لیڈروں اور جنگجوئوں میں افغان عوام کا کوئی سجن نہیں ہے۔ سامراجی غلامی میں جمہوریت کیسی‘ ترقی کون سی اور استحکام کیسا! سامراجی سنگینوں کے سائے میں عوام کی جمہوریت اور آزادی کبھی رائج نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی نے نسلوں کی زندگیاں اجاڑ دی ہیں۔ ایسے میں صرف ایک ہی راستہ نجات کی طرف جاتا ہے۔ افغانستان کے جرأت مند نوجوان اور بھرپور محنت کرنے والے مزدوروں کو ایک ایسی طبقاتی جڑت اور دلیرانہ تحریک میں منظم ہو کر آگے بڑھنا ہو گا‘ جو اس متروک اور منافع خوری کے نظام کا خاتمہ کر سکے جس کے تحت یہاں کے باسیوں کی نسلیں برباد ہوئی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں