سینیٹ کے انتخابات میں کالے دھن کا بازار جس طرح گرم ہوا ہے‘ اس سے سرمائے کی سیاست کی رہی سہی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کی طرح بھائو پر دائو لگ رہے تھے۔ ذہانت میں خود کفیل تجزیہ نگار اور اینکر پرسن اتنا تو ضرور جانتے ہوں گے کہ کس نے کتنا دھن لگایا اور کتنی نشستیں حاصل کیں؛ تاہم سننے میں یہی آ رہا ہے کہ سب سے زیادہ پیسہ لگانے والی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہو سکی۔ اتنا اندھیر بھی نہیں ہے کہ عوام کے لیے سب سے زیادہ قابل نفرت لیڈر پیسے سے اپنی حقارت کو مقبولیت میں یکسر تبدیل کروا لیتا۔ پیسے تو سب پارٹیوں نے ہی لگائے۔ بکنے والے کروڑوں میں بکے۔ خریدنے والے اربوں کمائیں گے۔ ویسے یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ اس ادارے میں آخر ایسا کونسا قارون کا خزانہ چھپا ہے کہ اتنی بھاری سرمایہ کاری کی جاتی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ ''تاریخی فیصلوں‘‘ کے باوجود ان انتخابات میں مالیاتی سرمائے کی دیو ہیکل حرکیات سے یہ اندازہ تو ضرور ہوتا ہے کہ کرپشن کے خلاف شور مچانے اور ساری سیاست اسی ایشو (بلکہ نان ایشو) پر کرنے والے یہ سیاستدان ان سزائوں کے فیصلوں کو کس قدر سنجیدہ لیتے ہیں۔ ان اداروں کی رکنیت خرید کر لوٹ مار اور کرپشن کے جو غیر علانیہ اختیارات اور مراعات حاصل ہوتی ہیں انہیں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے کوئی دھچکا نہیں لگا۔ لہٰذا لوگوں کی اکثریت اس جوڈیشل ایکٹوزم کو حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی چپقلش کا شاخشانہ ہی سمجھتی ہے۔
سیاسی اقتدار کے اس کلیدی اور غیر منتخب ایوان کی رکنیت دولت سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس کے معتبر اور مقدس ہونے کا جو تاثر کارپویٹ میڈیا اور سرکاری ادارے دیتے ہیں اس سے عوام کو مالیاتی سیاست کے ڈھانچوں کے فریب اور پیچیدگیوں میں الجھانا مقصود ہوتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے بعض اوقات 'نچلے طبقات‘ کے کچھ نمائشی افراد کو بھی ان ایوانوں میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن بالعموم پہلے سے کہیں بڑی رقوم لگانے والے یہ سیاستدان پہلے سے کہیں زیادہ لوٹ مار بھی کریں گے۔ انہوں نے اتنا پیسہ اپنی کرپشن اور کالے دھن کے تحفظ کے لیے درکار یہ سیاسی ڈھال خریدنے کو ہی پھینکا ہے۔ جب سیاست سے نظریات کو خارج کر دیا جائے تو یہ دھنوانوں کی ایسی ہی مقابلہ بازی کی شکل اختیار کر جاتی ہے جیسے مختلف کمپنیاں منڈی پر اجارہ داری کے لیے زیادہ بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں لیکن کم از کم عوام کے سامنے یہ ضرور عیاں ہو گیا ہے کہ ''جمہوریت‘‘ کی اس سیاست میں ضمیر کیسے بکتے ہیں‘ اور انسانوں کے ضمیر جب منڈی میں نیلامی کی مصنوعات بن جائیں تو انسان‘ انسان نہیں رہتے۔
سرمائے کی دھونس اور آمریت سے صرف وہی سیاست اور پارٹی آزاد ہو سکتی ہے جس کے نظریات سرمائے کے نظام سے بلند تر ہوں۔ جس کی فکر اور جستجو استحصالی نظام کے خاتمہ پر مبنی ہو اور جس کے کارکنان کو کوئی غرض نہ ہو کہ جدوجہد کے عوض ان کو اپنی زندگیوں میںکوئی شان و شوکت ملے گی۔ دوسری طرف اِس نظام کی حدود میں مقید ہر نظریہ ناگزیر طور پر بک جاتا ہے کیونکہ دریا میں رہ کر مگرمچھوں سے بیر نہیں لیا جا سکتا۔ اِس نظام میں سیکولر، لبرل، مذہبی، قومی و لسانی سیاست کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ سیاست کی یہ طرزیں مختلف شکلوں میں سرمایہ داری کو ہی حتمی و آخری سمجھتی اور سہارا دیتی ہیں۔ مروجہ سیاست کی تمام پارٹیوں کی سوچیں اور ''نظریات‘‘ انہی بنیادوں تک محدود ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا اور مروجہ سیاست میں اِس نظام کی حدود سے باہر کی بات کو کم و بیش ممنوع اور مضحکہ خیز بنا دیا گیا ہے۔ سبھی پیسے بھی لگا رہے ہیں۔ بِک بھی رہے اور خریدے بھی جا رہے ہیں۔ اور پھر احتجاج بھی رجسٹرکروا رہے ہیں۔ لیکن کیا عام لوگ نہیں جانتے کہ حکمران طبقات کے لیے وفاداری، خلوص اور احترام کے جذبات بھی منڈی کی اجناس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہاں سیاست کا ہر ایوان کالے دھن سے سیاہ ہے۔ بلوچستان کی تو ساری اسمبلی کی ہی بولی لگ گئی۔ یہ وہی بلوچستان ہے کہ 'یونیسف‘ کے مطابق جس کی 90 فیصد دیہی آبادی بدترین غربت کا شکار ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے یہ امرا بھلا اِن غریبوں کے نمائندے ہو سکتے ہیں؟ بلوچستان کے یہ محروم اور مظلوم باسی بھلا اس حکومت، اسمبلی اور جمہوریت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے۔ بلوچستان کے عام انسانوں کی طرف اسلام آباد کے حکمرانوں کا رویہ دوسرے علاقوں کے درمیانے طبقات، سیاست دانوں اور ریاستی اہلکاروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ دہائیوں سے بلوچستان کے عوام کو ''سیاسی دھارے‘‘ میں لانے کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن اِس نظام میں سیاسی نمائندگی کی جو حیثیت اور اصلیت ہے اس کے پیش نظر عام لوگوں کی بیگانگی کیا شدت اختیار نہیں کرے گی؟ اس کنٹرولڈ جمہوریت یا نام نہاد پیکجوں سے ان کے حالات زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ وہ بد سے بدتر ہی ہوتے چلے گئے ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ایک ہمسایہ ملک کے ریاستی اہلکار اب بلوچستان کے باغیوں سے براہِ راست مذاکرات کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ اور بھارت سمیت کسی بھی عالمی یا علاقائی طاقت کی مداخلت کے اپنے سامراجی مفادات ہیں۔ ان سامراجی طاقتوں کا مقصد لوٹ مار اور بربادی ہی ہے۔ امریکی سامراج نے جو آزادی عراق اور افغانستان کو دلوائی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اِن انتخابات میں پیسے کی واردات اگرچہ بلوچستان میں زیادہ عریاں ہو کر سامنے آئی ہے لیکن یہ ہوتی ہر جگہ ہے۔ کراچی میں جس طرح ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کر بکی ہے اس سے لسانی سیاست کی اصلیت بھی بے نقاب ہوئی ہے۔ عوام کو مختلف تعصبات کے ذریعے تقسیم کرنے کی کوشش میں اِس حاکمیت کے تمام ادارے سرگرم ہیں لیکن جوں جوں یہ واردات بے نقاب ہو رہی ہے، مالیاتی سیاست سے عام لوگوں کو جس طرح بے دخل کیا جا رہا ہے اس سے ان کے دل و دماغ میں بھی ایک بغاوت اور شورش ابھر رہی ہے۔ پورے پاکستان میں سینیٹ کے ان انتخابات نے جس واضح انداز میں بالادست طبقات کی اصلیت کو بے نقاب کیا ہے ا س سے حاوی سیاسی پارٹیوں کی ساکھ اور حمایت مزید زوال پذیری کا شکار ہو گی۔ حکمرانوں کی آپسی لڑائی بھی شدید ہے اور عوام میں محرومی کی اذیت بھی شدت اختیار کر رہی ہے۔ حکمران طبقات کی اتنی شدید کشمکش ا ن کے نظام کے گہرے بحران اور اس کے تاریخی زوال و متروکیت کی غمازی کرتی ہے لیکن استحصال اور ظلم کا یہ نظام خود بخود کبھی ختم نہیں ہو گا۔ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے مختلف دھڑوں کی لڑائیاں ایک انارکی تو پیدا کر سکتی ہیں، کسی انقلابی تحریک کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہیں لیکن معاشرے کو اس نظام کی جکڑ سے آزاد کروانے کا فریضہ صرف محنت کش طبقے ہی یکجا، منظم اور متحرک ہو کر ادا کر سکتے ہیں۔
جب سیاست سے نظریات کو خارج کر دیا جائے تو یہ دھنوانوں کی ایسی ہی مقابلہ بازی کی شکل اختیار کر جاتی ہے جیسے مختلف کمپنیاں منڈی پر اجارہ داری کے لیے زیادہ بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں لیکن کم از کم عوام کے سامنے یہ ضرور عیاں ہو گیا ہے کہ ''جمہوریت‘‘ کی اس سیاست میں ضمیر کیسے بکتے ہیں‘ اور انسانوں کے ضمیر جب منڈی میں نیلامی کی مصنوعات بن جائیں تو انسان‘ انسان نہیں رہتے۔