"DLK" (space) message & send to 7575

جام ساقی اور کمیونزم

ہمارے ہردلعزیز انقلابی ساتھی اور دوست جام ساقی طویل علالت کے بعد 74 سال کی عمر میں سوموار کو انتقال کر گئے۔ وہ اپنی آخری سانسوں تک ایک پکے کمیونسٹ تھے اور سوشلسٹ انقلاب پر اُن کا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا۔ کامریڈ کی آخری سیاسی سرگرمی ایک تقریب میں شرکت تھی‘ جس میں انہوں نے نسل انسان کے روشن مستقبل کی خاطر مرتے دم تک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور انقلابی مارکسزم کے نظریات کو ہی محنت کش طبقے کی راہِ نجات قرار دیا۔ 26 نومبر 2017ء کو طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین نے لیون ٹراٹسکی کی شاہکار تصنیف 'انقلابِ روس کی تاریخ‘ کے اردو ترجمے کی تقریب رونمائی حیدرآباد پریس کلب میں منعقد کی تھی جس کے مہمان خصوصی کامریڈ جام ساقی تھے۔
کامریڈ جام ساقی سندھ کے ضلع تھرپارکر کے گائوں جانجھی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمد سچل شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور مشہور سماجی کارکن تھے۔ جام ساقی ان سے بڑے متاثر تھے اور انہوں نے بچپن میں اپنے والد کے کام اور تجربات سے سرمایہ دارانہ استحصال اور جاگیردارانہ جبر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک ان واقعات اور جدوجہد کا ذکر جذبات سے بھرپور تاثرات اور دمکتی آنکھوں سے کیا کرتے تھے۔ کامریڈ نے 1962ء میں چھاچھرو سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے سچل سرمست آرٹس کالج حیدرآباد سے تعلیم حاصل کی اور پھر سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ماسٹرز کیا۔ کامریڈ جام ساقی انتہائی پرجوش انداز میں ایک ریٹائرڈ پرائمری ٹیچر عنایت اللہ دھمچر کا ذکر کیا کرتے تھے‘ جس نے ان کو زیرِ زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے روشناس کرایا۔
کامریڈ ساقی اُن طوفانی ادوار میں ایک پرجوش طلبہ رہنما بن گئے‘ جب اس سیارے کے مختلف حصوں میں تحریکیں پھوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے 3 نومبر 1968ء کو سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی جو کمیونسٹ پارٹی کا سٹوڈنٹ ونگ تھا اور خود اس انقلابی طلبہ تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔ دہائیوں بعد اپنے ایک انٹرویو میں ان ادوار کو یاد کرتے ہوئے کہا ''اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پنجاب اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور سرحد (پختونخوا) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی جیت گئی۔ سب کا جھکائو سوشلسٹ نظریات کی طرف تھا‘‘؛ تاہم اسی انٹرویو میں جام ساقی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ بھٹو اور مولانا بھاشانی کھلے عام سوشلزم کی بات کرتے تھے لیکن کمیونسٹ کارکنوں کو انقلابی سوشلزم سے دور رہنے اور صرف قومی جمہوری انقلاب کے نعروں تک محدود رہنے کو کہا گیا۔ یہ انٹرویو کامریڈ جام ساقی کی ماسکو اور پیکنگ نواز کمیونسٹ پارٹیوں، جو طلبہ، مزدوروں اور سیاسی کارکنان میں اچھی خاصی حمایت رکھتی تھیں، کے نظریاتی مؤقف پر پہلی کھلی تنقید تھی۔ 
1971ء میں جب مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو انہوں نے نواب شاہ اور حیدرآباد میں ریلیاں منظم کیں۔ کامریڈ جام ساقی بائیں بازو کے اُن گنے چنے رہنمائوں میں شامل تھے جو ریاستوں کے مسلط کردہ قومی شائونزم کو یکسر مسترد کرتے تھے۔ ریاست کے پالیسی ساز ان عوامی تحریکوں سے خوفزدہ ہو گئے جو اُس وقت برصغیر میں پھیل رہی تھیں اور سامراجی پشت پناہی سے طبقاتی جدوجہد کو کچلنے کے لئے جنگ کا راستہ اختیار کیا۔
1983ء میں کامریڈ جام ساقی اور ان کی تنظیم کے دیگر ساتھیوں پر نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرنے کی پاداش میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ فوجی عدالت میں جام ساقی کے اس مقدمے کو اس وقت تاریخی اہمیت حاصل ہوئی جب بڑے بڑے نام جیسے کہ بے نظیر بھٹو، بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی خان، طاہرہ مظہر علی خان، معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، مولانا شاہ محمد امروٹی، منہاج برنا، شیخ علی محمد، شیخ عزیز اور کئی مشہور صحافی بطور گواہانِ صفائی پیش ہوئے۔ یہ مقدمہ 'کمیونسٹ کیس‘ یا 'جام ساقی کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ جام ساقی کو نو سال بامشقت قید کی سزا ہوئی۔ انہیں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا اور اس حد تک بنایا گیا کہ اس کے بعد پوری زندگی کے لیے وہ جسمانی معذوریوں کا شکار ہو گئے لیکن انہوں نے ضیاء آمریت اوران رجعتی نظریات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا‘ جنہیں سماج پر مسلط کیا جا رہا تھا۔یہ ملا ریاستی مشینری کی بی ٹیم کا کردار ادا کرتے تھے۔ 1980ء کی دہائی میں کامریڈ جام ساقی‘ ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد میں نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے مشعل راہ بن چکے تھے۔ وہ تحریک کی ایسی عوامی شخصیت بن چکے تھے جس نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں جبر کو للکارا۔ وہ ہندوستان میں بھی اسی طرح ہر دلعزیز اور مقبول تھے‘ ایشیا کے دوسرے ملکوں سے کمیونسٹ پارٹیاں انہیں اپنی کانگریسوں میں شرکت کی دعوت دیتی تھیں۔
جام ساقی ایک لکھاری بھی تھے۔ انہوں نے سندھ کی طلبہ تحریک کے بارے میں ایک ناول ''کاھوری کجن‘‘ لکھا جو ''سندھ جی شاگرد تحریک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ فوجی عدالت میں مقدمے کے دوران تمام تر دبائو کے باوجود انہوں نے باغیانہ اور دلیرانہ بیانات دیئے جن کو اکٹھا کرکے دو کتابوں (تاریخ مونکھے نا وسریندی یعنی تاریخ مجھے کبھی نہیں بھلائے گی اور ضمیر کا قیدی) کی شکل میں سندھی اور اُردو میں شائع کیا گیا۔ قید کے دوران جام ساقی نے ریاست اور کچھ اداروں کی ساخت اور کردار کے بارے میں گہرا تجزیہ تحریر کیا۔
وہ پولیس کے عام سپاہیوں کی طرف ایک ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے اور انہیں وردی والے محنت کش ہی گردانتے تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ ''یہ لوگ وردی والے پرولتاری ہیں جو ہمارے طبقے سے ہیں اور انقلاب کے وقت بالآخر ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے‘‘۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے، سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے واقعات نے بائیں بازو کے کارکنوں اور رہنمائوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ بلاشبہ کامریڈ ساقی ان واقعات سے متاثر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے انہیں اصلاح پسندی کی سیاست کی طرف لانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کبھی بھی ''سوشلزم کی ناکامی‘‘ کے پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا۔
1990ء کی دہائی کے اواخر میں کامریڈ جام ساقی 'طبقاتی جدوجہد‘ کے کامریڈوں کے ساتھ رابطے میں آئے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کے انہدام سے پہلے مارکسی تناظر میں اس کی ٹوٹ پھوٹ کی پیش گوئی کی تھی بلکہ سندھ سمیت پورے پاکستان میں سرگرم بھی تھے۔ کامریڈ جام ساقی نے 'طبقاتی جدوجہد‘ میں شمولیت اختیار کی اور ایک مرتبہ پھر مارکسزم کے نظریات کی ترویج اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل میں سرگرم ہو گئے۔ بڑھاپے کے باوجود وہ ہمیشہ چست نظر آتے تھے اور انقلابی سیاست میں مگن رہتے تھے۔ تمام تر شہرت اور سیاسی ساکھ کے باجود وہ انتہائی عاجز انسان تھے۔ 
26 نومبر 2017ء کو 'انقلاب روس کی تاریخ‘ کی تقریب رونمائی میں کامریڈ جام ساقی نے اپنی آخری تقریر میں کہا ''تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے میں کمیونسٹوں نے ہمیشہ ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ جب کبھی بھی میں کامریڈوں سے ملتا ہوں تو میری ساری تھکن اور درد ختم ہو جاتا ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کی طبقاتی جدوجہد کی فتح سے ہی اس استحصال اور جبر کا خاتمہ ہوگا‘‘۔
اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے سارنگ سے کہا کہ ''اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں دوبارہ اسی راستے پر چلوں گا کیونکہ زندگی میں سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا عظیم مقصد ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں