مغربی کنارے کی فلسطینی عملداری کی حکومت کے وزیر اعظم 'حمداللہ‘ پر حماس کے زیر کنٹرول غزہ کے دورے کے دوران بم دھماکے سے حملہ کیا گیا۔ اس واقعہ نے ایک دفعہ پھر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطینیوں کی سماجی‘ معاشی آزادی کی جدوجہد کی پیچیدگی کو عیاں کر دیا ہے۔ مسئلہ صرف صہیونی ریاست اور اس کے سامراجی حمایتیوں کا نہیں ہے بلکہ نام نہاد عالمی برادری، اقوام متحدہ، مسلم ریاستوں کے حکمران بھی فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم اور جبر میں برابر کے شریک ہیں۔ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی جماعتوں اور ان کی آپسی کشمکش بھی جدوجہدِ آزادی کے راستے میں کم رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ بم دھماکہ 13 مارچ کو اس وقت ہوا جب حمداللہ کا قافلہ اسرائیل کے زیر کنٹرول 'ایریز چیک پوائنٹ‘ سے گزرا۔
حملے سے بچنے کے بعد حمداللہ نے کہا، ''یہ کوئی حب الوطنی نہیں ہے۔ یہ بزدلانہ عمل نہ ہمارے عوام اور نہ غزہ کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی اس کی 'فتح پارٹی‘ نے اسے ایک ''دہشت گردانہ‘‘ حملہ قرار دیا اور اس کا الزام حماس پر لگایا۔ الفتح کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے بیان میں کہا گیا ''یہ حملہ مصالحتی کوششوں کو ناکام کرنے کا حربہ ہے۔ یہ ایک خطرناک اقدام ہے جس کا مقصد انتشار پھیلانا اور عوام کو لڑانا ہے۔ حماس غزہ میں لوگوں کو ایک باعزت زندگی اور سکیورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔‘‘ 13 اکتوبر 2017ء کو قاہرہ میں حماس اور الفتح نے ایک مصالحتی معاہدے پر دستخط کیے تاکہ ایک دہائی کی چپقلش کا خاتمہ کرکے ایک اتحادی حکومت تشکیل دی جا سکے۔ یہ مصالحتی کوششوں کی ایک اور ناکامی ہے۔
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے حماس کی وزارت داخلہ کے ترجمان ایادالبزم نے کہا، ''اس الزام تراشی کے سیاسی پہلو ہیں۔ ہم تمام تر قافلوں، مندوبین اور بالخصوص وزیر اعظم کے غزہ میں داخلے کے وقت تمام تر سکیورٹی اقدامات کرتے ہیں۔ متعدد مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس دھماکے کے پیچھے کارفرما لوگوں کی تلاش کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔‘‘ غزہ میں موجود ایک سیاسی تجزیہ نگار مصطفی ابراہیم نے کہا، ''مختلف لوگ اس واقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ فتح کہے گی کہ حماس کے کچھ لوگ مصالحت نہیں چاہتے اور اسی طرح حماس کہے گی کہ یہ حملہ فتح کی سکیورٹی سروسز کا کارنامہ ہے۔‘‘
تلخ حقیقت یہ ہے کہ فتح اور حماس دونوں دراصل فلسطینی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فلسطین کی اپنی کوئی خاص معیشت نہیں ہے اور مکمل طور پر اسرائیل پر منحصر ہے۔ تاہم ان کے حکمران دھڑوں کو مختلف علاقائی اور عالمی طاقتیں فنڈنگ کرتی ہیں اور مسئلہ فلسطین کو اپنے ریاستی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک حد تک حماس اور فتح کی لڑائی مشرق وسطیٰ کی بعض ریاستوں کے درمیان شدید تضادات اور چپقلش کا اظہار ہے۔
لیکن پچھلے ستر سالوں کی فلسطینی جدوجہد نے ثابت کر دیا ہے کہ مذاکراتی عمل یا مسلح جدوجہد کی شہری گوریلا حکمت عملی‘ دونوں ہی فلسطینی آزادی کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ دہشت گردی کے اقدامات نے فلسطینی جدوجہد کو اُلٹا نقصان پہنچایا ہے۔ درحقیقت آج ستر سال بعد منزل کہیں زیادہ دور ہے۔ محمود عباس اور فلسطینی عملداری کے دوسرے رہنمائوں کی سامراجیوں کی موقع پرستانہ چاپلوسی سے صہیونی قابض ریاست کو اپنی بالا دستی کو مستحکم کرنے کا مزید موقع ملا ہے۔
صہیونی نوآبادکاروں کی خفیہ یا بعض اوقات واضح حمایت کے بغیر ان فلسطینی حکمرانوں کا وجود مشکل میں پڑ جائے گا۔ اسرائیلی ریاست دہشت گردوں کو ویران اسرائیلی علاقوں میں بے اثر راکٹ داغنے پر اکساتی ہے اور پھر اسی کو جواز بنا کر وحشیانہ انداز میں فلسطینی عوام کا قتل عام کرتی ہے۔ یہ فلسطینی حکومتیں اگرچہ ظاہری طور پر اسرائیلی قبضے کی شدید مذمت کرتی ہیں لیکن جب نوجوانوں اور عوام کی انتفادہ تحریک ان کی حاکمیت کو خطرے میں ڈالتی ہے تو صہیونی ریاست بعض اوقات ان کے ساتھ مل کر فلسطینی نوجوانوں اور عوام کو منتشرکرتی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے امریکی سامراجیت کے ہولناک کردار کو مزید واضح کیا ہے لیکن مختلف امریکی حکومتیں صہیونی ریاست کی قتل و غارت اور قبضہ گیری کی وارداتوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر 'عالمی ادارے‘ سامراجی طاقتوں کے گماشتہ ثابت ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لاتعداد قراردادیں پاس ہوئیں لیکن یہ فلسطینی عوام پر ہونے والے قومی اور طبقاتی جبر کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔
فلسطین پر اسرائیلی قبضہ حالیہ تاریخ کی سب سے طویل قبضہ گیریت ہے۔ بدقسمتی سے ظاہری طور پر اس کا کوئی انت نظر نہیں آتا۔ غزہ کی 80 فیصد آبادی کی خوراک خیرات سے پوری ہوتی ہے، آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، صرف 10 فیصد کو صاف پانی کی سپلائی میسر ہے۔ 2017ء میں غزہ میں 20 گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی۔ غزہ کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 60 فیصد ہے جبکہ 25 فیصد فلسطینی مطلق غربت کا شکار ہیں۔ کھلی فضا کا سب سے بڑا قید خانہ غزہ کو کہا جاتا ہے۔ صہیونی ریاست کی دیوہیکل 'قبضے کی دیواروں‘ کے ذریعے مغربی کنارے کے باسیوں کو‘ رشتہ داروں اور دوستوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔
یورپی سامراجیوں کی فلسطینیوں کے لیے ہمدردی سراسر منافقت پر مبنی ہے اور درحقیقت انہوں نے صہیونی ریاست کی خاموش حمایت کی ہے۔ روسی اور چینی حکمرانوں کی پالیسیاں بھی معاشی مفادات اور مغربی سامراجیوں سے سٹریٹجک مقابلے بازی اور خطے میں بالا دستی کے مطابق ہیں۔ ان کی 'حمایت‘ فلسطینیوں کی زندگیوں میں کوئی سکون نہیں لا سکی۔ علاقے کی کچھ ریاستوں کا رویہ سب سے زیادہ افسوسناک ہے۔ ان حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین کو اپنی داخلی دکانداری کے لیے ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ ان کی مذمتیں اور فلسطینیوں کی حمایت محض داخلی سیاست کی دکانداری چمکانے کے لیے ہے۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے کو اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا ہے اور فلسطینیوں کے لیے وسیع ہمدردی کو استعمال کرتے ہوئے بغاوتوں کو کچلا ہے۔ اب تو صہیونی ریاست کے ساتھ ان کے خفیہ تعلقات بھی واضح ہو چکے ہیں۔ غزہ میں حماس کی بنیاد پرست حکومت اور مغربی کنارے میں فلسطینی عملداری کے بدعنوان حکمرانوں کی جانب سے فلسطینی عوام پر وحشیانہ جبر کیا جاتا ہے۔ غزہ اور مغربی کنارے میں آزادیٔ اظہار کو سختی سے کچلا جاتا ہے۔ حماس اور فتح کی حکومتوںکی بدعنوانی اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے ان پر شدید تشدد کیا جاتا ہے۔
فلسطینی نوجوانوں اور عوام نے ان تمام تر مشکلات اور جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ 1980ء کے بعد ہونے والے دو وسیع انتفادہ کی وجہ سے ہی سامراجیوں اور صہیونی ریاست کو کچھ رعایتیں دینی پڑیں۔ لیکن جیسے ہی یہ عوامی تحریکیں پسپا ہوئیں تو رجعتی صہیونی ریاست زیادہ معاشی اور فوجی جبر کرنے لگی۔ جب فلسطین کی جدوجہدِ آزادی پر تنگ نظری اور مصالحت حاوی نہیں تھی اور اس کا جھکائو بائیں بازو کی طرف تھا تو علاقائی اور عالمی سطح پر اس کی زیادہ وسیع حمایت موجود تھی۔ مضحکہ خیزی یہ ہے کہ ستر اور اَسی کی دہائیوں میں موساد نے ہی بعض تنظیموں کی پرورش کی تاکہ اس جدوجہد کو کاٹا جا سکے۔ آج یہی تنظیمیں خطے کی سیاست پر حاوی ہیں۔ جدوجہد کی کامیابی کے لیے فلسطینی عوام صرف خطے کے محکوم طبقات اور عوام پر ہی انحصار کر سکتے ہیں۔ حکمران طبقات اس مسئلے کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک وسیع فلسطینی بغاوت پورے خطے میں طبقاتی جدوجہد کو بھڑکا سکتی ہے۔ اس طرح کی تحریک تمام تر مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی اور تنگ نظر قوم پرستی کے تعصبات کو چیرتے ہوئے محکوم طبقات کو ایک انقلابی طبقاتی جدوجہد میں متحد کرتے ہوئے قبضہ گیریت، جبر اور استحصال کے نظام کا خاتمہ کر سکتی ہے۔