گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میںجب متعلقہ وزارت سے پاک چین اقتصادی راہداری کے ٹھیکوں میں حصہ داری اور حساب کتاب کی نوعیت سے متعلق سوال کیا گیا تو جواب کچھ چونکا دینے والا تھا۔ بتایا گیا کہ گوادر کی بندرگارہ کی کل آمدن میں سے چین کی حصہ داری 91 فیصد ہو گی جبکہ پاکستان کے ٹھیکیداروں کو کل 9 فیصد حصہ ملے گا۔ یہی صورتحال باقی ماندہ پراجیکٹس کی بھی ہو گی۔ المیہ لیکن یہ ہے کہ ان پراجیکٹوں کی ''ملکیت‘‘ پاکستانی ہونے کے ناتے ان پر ہونے والی سرمایہ کاری کے قرضوں پر سود کی شرح آئی ایم ایف یا دوسرے سامراجی ادارو ں اور مغربی ممالک سے لئے گئے قرضوں پر سود سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہو گی۔ جب سے چین میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری ہوئی ہے اور چین نے اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے خود سرکاری بینکوں سے قرضے لے کر‘ پراجیکٹ لگا کر معیشت کو ''کک سٹارٹ‘‘ کرنے کی شروعات کی ہے‘ اس کی دی گئی رقم میں ایک پیسہ بھی امداد کی صورت میں نہیں ہے بلکہ بھاری سود والے قرضوں کی صورت میں ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ڈینگ ژیاؤ پنگ کی چینی سرمایہ داری کی بحالی سے پیشتر مائوزے تنگ اور چو این لائی کے ادوار میں ٹیکسلا ہیوی مکینکل کمپلیکس جیسے درجنوں اداروں اور صنعتوں کی امداد‘ گرانٹس کی صورت میں تھی یعنی ان پر کوئی سود نہیں لیا گیا تھا۔ حالانکہ بقول سامراجی تجزیہ کاروں کے‘ اُس دور میں چین ایک ''غریب‘‘ ملک تھا۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اور معیشت دانوں کی اکثریت CPEC کو اس طرح پیش کر رہی ہے جیسے چین صرف پاکستان میں ہی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان کی ڈیپ سٹیٹ کے امریکہ سے تنازعات کی بدولت جھکائو بھی واضح طور پر چین کی جانب ہو گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی اور مغربی سامراجی حکمرانوں نے پچھلے 70 سالوں سے پاکستان کو بے دردی سے لوٹا اور اب بھی ان کے عزائم وہی ہیں بلکہ بحران کی وجہ سے اس لوٹ مار کی ہوس مزید بڑھ گئی ہے۔ ان کی لبرل ازم اور سیکولرازم کے نام پر سیاسی مداخلت اور قومی مسئلہ کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی روش بھی نئی نہیں ہے۔
پاکستان میں جو 62 ارب ڈالر کے قریب CPEC کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے وہ چین کی وسیع تر ''ایک خطہ‘ ایک سڑک‘‘ (One Belt One Road) کی پالیسی پر صرف کیے جانے والے‘ 900 ارب سے ایک ہزار ارب ڈالر تک کے منصوبے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ چینی اشرافیہ اس قسم کے منصوبے تقریباً 65 ممالک میں لگا رہی ہے۔ افریقہ، وسطی ایشیا، یورپ، مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں ''پرانے سلک روٹ‘‘ کی بحالی کے نام پر بھاری سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ چین کی''کمیونسٹ پارٹی‘‘ نے ڈینگ ژیائو پنگ کی حاکمیت میں ایک بتدریج انداز میںسرمایہ دارانہ استواری کا عمل شروع کیا۔ انہوں نے روسی افسر شاہی کے انجام سے بہت سے اسباق بھی سیکھے‘ جہاں نشے میں دھت روسی صدر بورس یلسٹن نے 1992ء کے بعد فوری طور پر سرمایہ داری کو روس میں لاگو کر دیا۔ کچھ ''کمیونسٹ‘‘ تو بڑے بڑے ارب پتی بن گئے لیکن روس اور مشرقی یورپ میں اکثریتی سرمایہ دار طبقہ ان غنڈوں اور چوروں پر مشتمل تھا جن کے جرائم کا دنیا میں بڑا نام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں روس میں جو سرمایہ داری استوار ہوئی وہ زیادہ تر مجرمانہ اور مافیا طرز کی تھی۔ پیوٹن اسی کا تسلسل ہے۔ لیکن چینی افسر شاہی نے کمیونسٹ پارٹی کے سخت گیر کنٹرول اور ریاست کی مکمل گرفت قائم رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ منڈی کھولی، تجارت و سرمایہ کاری پر سرکاری کنٹرول بہت حد تک موجود تھا۔ چین کے کمیونسٹ، جو اب دنیا میں سب سے بڑے ارب پتیوں میں شمار ہوتے ہیں، نے پارٹی اور ریاست کے بل بوتے پر مغربی سرمایہ کاروں کی ایک حد تک منافع خوری کو محدود رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں سرمایہ دارانہ استواری کے بعد مغربی سامراجی اور ان کے ماہرین‘ چینی حکمرانوں سے نالاں ہیں۔ چین میں اس وقت جو ریاستی سرمایہ داری ہے وہ کسی حد تک 1950ء میں ہندوستان کے نہروین (سوشلزم) یعنی ریاستی سرمایہ داری سے ملتی جلتی ہے لیکن چین میں بھارت جیسی جزوی جمہوریت بھی نہیں ہے جو کسی حد تک‘ کم از کم نہرو کے وقت موجود تھی۔ اس لئے کچھ دوستوں کو چین کے سرمایہ دارانہ ہونے پر ابھی بھی کچھ شکوک ہیں۔ لیکن جہاں سٹاک مارکیٹ موجود ہو، جہاں امارت اور غربت کی خلیج دنیا کی بدترین تفریق میں شامل ہو‘ وہ کبھی بھی کوئی سوشلسٹ ریاست نہیں ہو سکتی۔
2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد مغربی منڈیوں میں شدید گراوٹ آئی۔ جس کے نتیجے میں چین کی تقریباً 68 فیصد برآمدات‘ جو ان ممالک کو جاتی تھیں، کا بڑا انہدام شروع ہوا۔ اس سے چین کی شرح نمو 2011ء کی14 فیصد کی نسبت 2017ء میں 6.8 فیصد تک گر گئی۔ چین میں فیکٹریوںکی بندش اور بیروزگاری میں اضافے نے بیجنگ کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ انہوں نے چین کے مزدوروں کی تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی ہوئی ہڑتالوں سے خوفزدہ ہونا شروع کر دیا۔ اسی سنگین صورتحال میںشی جن پنگ نے ریاستی جبر کو زیادہ کرخت کرایا اور بڑھتے بڑھتے اب اس نے اپنے آپ کو تاحیات صدر منوا لیا ہے۔ دوسری جانب معیشت کو دوبارہ ابھارنے کے لئے انہوں نے بڑے پیمانے پر چین کے''سرکاری‘‘ بینکوں سے قرضے لے کر ایسے دیوہیکل پراجیکٹ شروع کیے جن کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً دنیا کی سب سے اونچی ریلوے لائن وغیرہ۔ اسی طرح چین نے بڑے پیمانے پر ''سرمایہ برآمد‘‘ کرنا شروع کیا جو لینن کے مطابق کسی سرمایہ دارانہ ریاست کے سامراجی کردار اختیار کرنے کی پہلی نشانی ہوتی ہے۔ ''ایک خطہ‘ ایک سڑک‘‘ کے منصوبے اسی مقصد کے تحت بنائے جا رہے ہیں‘ جن میں چینی سرمایہ داروں کا بڑا حصہ ہے۔ اس سے چین کا داخلی قرضہ اس کی قومی پیداوار (GNP) کے 250 فیصد تک ہو گیا ہے جو دنیا کے کسی ملک کا سب سے زیادہ قرضہ ہے لیکن اس سے بھی شاید مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ جتنا کوئی ریاست انفراسٹرکچر اور دوسرے پراجیکٹوں پر خرچ کرتی ہے‘ اتنا اس سرمایہ کاری کو پھر تحفظ دینے کی ضرورت بھی آن پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے بحر ہند میں پہلا فوجی اڈہ جبوتی میں بنایا ہے۔ پاکستان میں CPEC کے منصوبوں کیلئے 13,700 کی ابتدائی فورس کھڑی کی گئی ہے۔ مالدیپ میں دوسرے نیول اڈے کی تیاری ہے۔ ان غریب ممالک میں جہاں یہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے‘ بجلی اور دوسرا انفراسٹرکچر ملے گا لیکن بہت مہنگے اور اذیت ناک داموں پر! مثلاً سری لنکا میں مہندر راجا پکسا‘ چینی سرمایہ کاری کے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے ٹیکسوں میں اضافہ سے الیکشن ہی ہار گیا۔ چین کے ان قرضوں کے خلاف مہم چلانے والا سری سینا جب صدر بنا تو اس نظام میں اس کے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور اس نے ہمبنتوتا (Humbantota) کی پوری بندر گاہ اور آس پاس کا علاقہ چین کے آگے گروی رکھ دیا۔ آئندہ چند برسوں میں جن ممالک کے چین کے قرضوں کے بوجھ تلے معاشی انہدام کا خطرہ ہے‘ ان میں مالدیپ، پاکستان، جبوتی، منگولیا وغیرہ شامل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ملکوں کی دوستیاں حکمرانوں کے کاروباری رشتے ہوتے ہیں۔ انہی کاروباری تضادات سے یہ پھر دشمنیوں میں بھی بدل جاتے ہیں۔ یہ دوستی صرف اسی صورت ممکن ہے جب وسائل، صنعت، زراعت ان ممالک کے عوام کی اشتراکی ملکیت ہو۔ پھر یہ کاروبار کے رشتے نہیں رہیں گے، انسانی بھائی چارے کے مفادات اور مطلب سے ہٹ کر مخلصی اور سچی دوستی پر مبنی ہوں گے۔