"DLK" (space) message & send to 7575

بجٹوں کا گورکھ دھندا

بجٹ کے سینکڑوں صفحات اور کاغذوں کے ڈھیر پارلیمانی ممبران بھی نہیں پڑھتے‘ عام انسان ان کی تفصیلات میں بھلا کیا دلچسپی رکھتے ہوں گے! پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں درجنوں بجٹ پیش کیے گئے لیکن صرف 1972-73ء کے بجٹ کی وجہ سے محنت کشوں کی زندگیوں میں معمولی سی بہتری محسوس ہوئی تھی‘ جب ایک انقلابی تحریک کی پسپائی کے باوجود اس کی حرارت اور خوف سے پرانے ضابطوں اور ترجیہات سے ہٹ کر اصلاحات کی کچھ گنجائش پیدا کی گئی تھی۔ جہاں تعلیم اور علاج کے شعبوں کے لیے تیس فیصد تک بجٹ مختص کرنے کا ہدف لیا گیا تھا وہاں معیشت کے بڑے حصوں کو قومی تحویل میں لیا گیا‘ جس سے محنت کشوں کی اجرتوں سے لے کر دوسرے بنیادی حقوق تک کئی معاملات میں کچھ بہتری آئی تھی۔ لیکن اقتصادی اور سماجی نظام کی تواتر کے ساتھ تنزلی کی وجہ سے اس کے بعد کے بجٹ صرف تقاریر، سرکاری اعداد و شمار اور کاغذی اصلاحات و ''بہتریوں‘‘ تک ہی محدود رہے ہیں۔
تازہ بجٹ سے پہلے ایک وسیع معاشی جائزے میں بڑے بڑے دعوے کیے گئے لیکن کچھ سوالات انتہائی کلیدی اور بنیادی نوعیت کے ہیں جن پر نہ اسمبلی نہ سیاست اور نہ ہی میڈیا میں بحث سامنے آئی ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ حکومتیں ہر سال جو بجٹ پیش کرتی ہیں ان میں نہ تو یہ بتایا جاتا ہے اور نہ کوئی پوچھنے کی جرات کرتا ہے کہ یہ بجٹ پاکستان کی کل معیشت کے کتنے حصے پر مبنی ہے؟ کیونکہ حقیقی بجٹ تو صرف اس معیشت کا ہی پیش ہو سکتا ہے جس کا حساب کتاب حکومت، عوام اور میڈیا کو پتا ہو۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں متوازی معیشت (Parllel Economy) یا غیر درج شدہ معیشت (Undocumented) کئی سالوں سے عمومی معیشت کا بڑا حصہ بن چکی ہے۔ چونکہ ظاہراً یہ لگتا ہے کہ اس کا کہیں کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے، یہ کہیں درج بھی نہیں ہے اس لئے اس کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں۔ لیکن سماجی اور اقتصادی شعبہ جات میں جدید ٹیکنالوجی کی نت نئی ایجادات اور طریقہ کار کی وجہ سے ماضی میں نہ ملنے والے اعداد و شمار اور ثبوت اب حاصل کیے جا سکتے ہیں۔1980ء کی دہائی میں لندن سکول آف اکنامکس کے ایک ترقی پسند ماہر معاشیات فریڈ ہالیڈے کے جائزے کے مطابق 1978ء میں افغان جہاد کے شروع ہونے سے پاکستان میں متوازی معیشت دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھ رہی تھی۔1978ء میں یہ تقریباً 5 فیصد تھی جبکہ 2017ء میں معاشی اعداد و شمار کی تحقیق کے مختلف اداروں نے اس کا کل تخمینہ معیشت کا تقریباً 73 فیصد لگایا۔ ان اعداد و شمار کی تصدیق جہاں سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بالواسطہ کر چکے ہیں وہاں برطانیہ کے تحقیقی ادارے ''چیلسی ہائوس‘‘ اور سوئٹزرلینڈ کے بینک UBS کے شعبہ مالیاتی تحقیق نے بھی کی ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں روزگار اور دوسری سہولیات کی فراہمی براہ راست اس متوازی یا کالے دھن کی معیشت سے منسلک ہے۔ یہ بذات خود کتنا بڑا تضاد ہے کہ جس معیشت پر یہ بجٹ بنایا جا رہا ہے وہ ایک تہائی ہے جبکہ جس دولت پر ملک چل رہا ہے اس کا نہ اندراج ہے اور نہ ہی یہ کسی حکومت کی دسترس میں ہے۔ حکومت کی حالیہ ''ایمنسٹی سکیم‘‘ میں کھل کر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ 2 فیصد ٹیکس دے کر آپ اپنا کالا دھن سفید کر سکتے ہیں۔ جس کا مطلب کالے دھن کے اس دیوہیکل حجم کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ کالا دھن تعمیرات سے لے کر ٹرانسپورٹ تک اور نجی شعبے کے سیون سٹار ہسپتالوں سے لے کر براڈکاسٹنگ سمیت متعدد شعبوں تک میں مکمل طور پر حاوی ہے۔ جبکہ اس کالے دھن کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری سروسز سیکٹر یعنی ''خدمات‘‘ کے شعبے میں ہے‘ جس میں ٹیلی کمیونی کیشنز اور دوسرے بہت سے شعبے ہیں۔ ''معاشی سروے‘‘ کے مطابق اس وقت اگر کسی شعبے نے اپنے اہداف پورے کیے ہیں تو یہ وہی شعبہ ہے۔ بجٹ میں ان اعداد و شمار کا دیا جانا اس لئے بھی ممکن ہوا کہ بہت سے درج شدہ کاروباری حضرات کی کالے دھن کے کاروباریوں سے سب زیادہ شراکت اسی شعبہ میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا ''غیر قانونی‘‘ پیسہ صرف ان شعبوں میں لگایا جاتا ہے جہاں دور رس سرمایہ کاری درکار نہ ہو۔ فوری لگائو اور فوری پائو کے اصول کے تحت اس کالے دھن کا معیشت میں کردار ابھرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاری اور پیداواری صنعت میں ایک نسبتاً لمبے عرصے تک پہلے سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے اور پھر کہیں دو چار سال بعد اس کا منافع شروع ہوتا ہے۔ کالے دھن والے تو اتنے انتظار کے عادی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس دھن کے کردار کی وجہ سے وہ اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق بھی سروسز سیکٹر‘ زراعت اور بھاری صنعتی پیداوار دونوں کو شرح نمو میں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ جہاں اس کالے دھن کی سرمایہ کاری ہوتی ہے وہاں مزدوروں کی حالت سرکاری اور نجی شعبوں کے محنت کشوں سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔ کم اجرت، دیہاڑی اور پنشن سمیت مزدوروں کو کوئی سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ اس وقت تمام نجی شعبے میں ٹھیکیداری نظام رائج ہو چکا ہے اور مستقل ملازمتیں کچھ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں تک کسی حد تک محدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سامراجی ماہرین اور ان کے مقامی پیروکار معیشت دان معیشت کو ترقی دینے کا واحد نسخہ تمام سرکاری اداروں کی نجکاری بناتے تھکتے نہیں ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں سرکاری اداروں کا دم گھٹ جاتا ہے۔ یہاں بدعنوانی لاکھوں کی تنخواہیں لینے والی افسر شاہی کرتی ہے‘ مگر بدنام مزدوروں کو کیا جاتا ہے۔ کالے دھن کی کم مدتی سرمایہ کاری میں مزدوروں کے حقوق وغیرہ کا ذکر کرنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے کیونکہ کالے دھن کے دھنوان وہ غنڈہ اور دہشت گرد عناصر ہیں جن کی دہشت سے ہر کوئی اس جمود کے دور میں خوف زدہ رہتا ہے۔ وہ سیاست اور ہر شعبے کے حکمرانوں کو پہلے ہی خرید کر اپنے تحفظ کا پورا انتظام کر چکے ہوتے ہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جدید ترین تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ شرح نمو میں اضافے سے عام انسانوں اور معاشرے کے حالات زندگی میںکوئی بہتری نہیں آیا کرتی بلکہ بھارت جیسے ممالک میں جب شرح نمو 10 فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی تو اس دوران عام انسانوں کا معیار زندگی بڑھنے کی بجائے گراوٹ کا شکار ہوا، غربت کم ہونے کی بجائے زیادہ پھیل گئی۔ اب جو 6 فیصد کے قریب شرح نمو بتائی جا رہی ہے وہ درست ہو گی‘ لیکن اس سے عام لوگوں کے معیارِ زندگی میں کسی بہتری کا کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے حالات مزید تلخ ہی ہوئے ہیں۔ بجٹ تقریر کے مطابق سامراجی قرضوں اور سود کی ادائیگی پر 1620 ارب روپے اور عسکری اخراجات پر 1100 ارب روپے جو کہ کل 5200 ارب روپے کا 52 فیصد ہے‘ صرف کیے جانے ہیں جبکہ باقی ملکی امور کے لیے 48 فیصد ہی بچتا ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو رقوم مختص کی بھی جاتی ہیں‘ وہ اتنی قلیل ہوتی ہیں کہ ان سے کوئی سماجی مفاد حاصل نہیں ہو سکتا (تعلیم 2.2 فیصد اور علاج1.3 فیصد)۔ دوسری جانب ان دونوں شعبوں کی نجکاری بھی ہو رہی ہے اور نہ صرف کالا دھن بلکہ سامراجی اجارہ داریاں بھی براہ راست یا بالواسطہ ان شعبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہی ہیں‘ کیونکہ یہ ایسی سلگتی ہوئی اجتماعی ضروریات ہیں کہ انسان اپنے بچے یا بزرگ کے علاج کے لئے اپنی ساری پونجی لٹا دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ خرابی بجٹوں میں نہیں ہے۔ خرابی اس اقتصادی اور سماجی نظام میں ہے جس میں یہ معاشرہ جکڑا ہوا ہے۔ امیر اس ترقی سے مزید امیر ہو رہے ہیں اور غریب مزید غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ جب تک دولت اور وسائل کی طبقاتی تقسیم موجود ہے ثقافت سے لے کر تعلیم اور علاج تک سب کچھ دو قوموں میں تقسیم رہے گا۔ ایک قوم دولت مندوں کی ہے اور دوسری محروموں کی۔ محنت کش اکثریت میں ہیں لیکن عزت و تکریم ان کو لوٹنے والے سیٹھوں کی ہے‘ سیاست اور حاکمیت جن کی لونڈی بن جاتی ہے۔ جب تک صنعت، پیداوار، زراعت اور مادی اقتصادی شعبے نجی ملکیت میں ہیں‘ محنت کشوں اور غریبوں کا کوئی بجٹ بن ہی نہیں سکتا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں