"DLK" (space) message & send to 7575

فلسطین: معصوموں کا قتلِ عام اور سامراجیوں کے جشن

پیر 14 مئی کو اسرائیل کی صہیونی ریاست غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا‘ اس کا شوہر جیرڈ کشنر‘ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی سامراج کی دوسری گماشتہ ریاستوں کے سفیروں کے ساتھ مل کر یروشلم میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کا جشن منا رہے تھے۔ 2014ء کے بعد سے یہ سوموار فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر سب سے خونیں دن تھا۔ منگل کے روز 63 فلسطینیوں کے جنازے اٹھائے گئے۔ اسی روز فلسطینیوں نے 'یومِ نکبہ‘ یا 'بربادی کا دن‘ بھی منایا۔ یہ وہ دن ہے جب 15 مئی 1948ء کو عالمی طاقتوں کی آشیر باد سے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائواجداد کی سرزمین سے نکال کے در بدر کر دیا گیا تھا۔ ستر سال بعد بھی فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور ان کی زمینوں پر قبضوں کا یہ سلسلہ سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے جاری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے جسم پر اسرائیلی ریاست کا وجود کسی کینسر سے کم نہیں ہے‘ جس نے کئی دہائیوں سے پورے خطے کو مسلسل عدم استحکام اور خون ریزی کا شکار کیا ہوا ہے۔ 
امسال 30 مارچ کو ان مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اسرائیلی ریاست کم از کم 114 فلسطینیوں کو قتل اور 12 ہزار کو زخمی کر چکی ہے۔ ہر ہفتے جمعہ کے دن غزہ کی پٹی کے محصورین بارڈر کی طرف مارچ کرتے ہیں اور اسرائیلی ریاست کے جبر اور قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ہر بار صہیونی ریاست کے نشانچی چن چن کر اِن فلسطینیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس تحریک میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا اِن فلسطینیوں نے موت کے خوف کو مسخر کر لیا ہو۔ اسرائیل کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ''اسرائیلی سپاہی، جن میں سنائپرز بھی شامل تھے، کئی گھنٹوں تک مظاہرین پر گولیاں چلاتے رہے... میں نے آج تک ایسی بربادی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘ صہیونی ریاست کی بربریت اور جابرانہ ذہنیت کا اندازہ اسرائیل کے وزیر دفاع کے اِس تازہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ''غزہ میں کوئی بھی بے گناہ اور معصوم نہیں ہے‘‘۔ 
امریکی سامراجیوں اور ان کے قریب ترین کاسہ لیسوں کے علاوہ یورپ سمیت دنیا بھر کی حکومتیں حسب روایت اِس قتل عام کی ''مذمت‘‘ کر رہی ہیں۔ ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے ہیں۔ تاہم رجعتی بادشاہتوں سمیت زیادہ تر حکومتیں مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یوں ان حکمرانوں کی جانب سے امریکی سامراج کی چاپلوسی اور اس کی پالتو صہیونی ریاست کی خاموش حمایت ایک بار پھر عیاں ہوئی ہے۔ در حقیقت ماضی کے برعکس آج ''عرب اسرائیل تنازعے‘‘ کی لفاظی بھی دم توڑ چکی ہے۔ اس خطے کی کچھ حکومتیں اپنے عوام کی مخالفت کے باوجود پچھلے لمبے عرصے سے اسرائیل کا وجود تسلیم کر چکی ہیں اور پس پردہ یا کھلے عام صہیونی ریاست کے ساتھ کئی طرح کے معاہدے اور تعلقات استوار کر چکی ہیں۔ اگرچہ ایران کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا خطرہ بدستور موجود ہے تاہم اب کی بار قوی امکان ہے کہ ایسے کسی ٹکرائو میں خطے کی بہت سی ریاستیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی نظر آئیں گی۔ 
ماضی میں 'فلسطینی تنظیمِ آزادی (PLO) کی چھتری تلے 'PFLP‘ اور 'DLFP ‘ جیسی بائیں بازو کی تنظیمیں اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں شام، عراق اور مصر میں قائم بائیں بازو کی حکومتوں اور اسرائیل کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں‘ لیکن 1980ء کی دہائی تک مسلح جدوجہد کی تحریک بڑی حد تک تھکاوٹ کا شکار ہو چکی تھی۔ جہاں اِس حکمت عملی کی اپنی حدود اور کمزوریاں تھیں وہاں سوویت یونین اور مشرقِ وسطیٰ میں بائیں بازو کی حکومتوں کے بحران اور ٹوٹ پھوٹ جیسے عوامل بھی کار فرما تھے۔ ان حالات میں یاسر عرفات کی قیادت میں 'پی ایل او‘ نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ لیکن مالی، سفارتی اور عسکری امداد سے مشرق وسطیٰ میں اپنی 'آئوٹ پوسٹ‘ کے طور پر اسرائیل کو قائم رکھنے والے سامراجیوں کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات فلسطینیوں کو بھلا کیسے آزادی دلا سکتے تھے۔ بہرحال 'پی ایل او‘ کی قیادت نے مذاکرات میں بہت رعایات دیں اور اپنے حقیقی مؤقف سے بڑی حد تک پسپائی اختیار کی۔ یوں ''تنازعے کے حل‘‘ کی کوششیں فلسطینی قیادت کو 1988ء میں غیر معمولی مصالحت کی طرف لے گئیں۔ ان معاہدوں کے تحت 1948ء کی جغرافیائی حدود میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا‘ اور بدلے میں فلسطینیوں کی حقیقی سرزمین کے صرف ایک چوتھائی حصے پر فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دستاویزات پر دستخط ہوئے۔ وائٹ ہائوس کے سبزہ زار میں یاسر عرفات اور یتزاک رابن نے مشہور زمانہ مصافحہ کیا۔ لیکن اسرائیلی ریاست مسلسل ڈھٹائی اور ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔ اُلٹا اِس عمل نے فلسطینی علاقوں کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر کے فلسطینیوں کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا اور غزہ کا علاقہ دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے میں تبدیل ہو گیا۔ نام نہاد 'دو ریاستی حل‘ کے تحت فلسطین کی آزادی کبھی ممکن تھی نہ ہو سکتی ہے۔ 
یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ کسی امریکی صدر نے اسرائیل پر کبھی کوئی بامعنی دبائو نہیں ڈالا۔ اوباما انتظامیہ نے جاتے جاتے امن کے کچھ اشارے دئیے تھے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ تو صہیونی شدت پسندوں سے بھری ہوئی ہے اور اسرائیل کو خوب شہ دے رہی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی موجودگی کے لئے لفظ 'قبضے‘ کا استعمال تک ترک کر دیا گیا ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد میں تیزی سے کمی لائی جا رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آزادی کی امنگ اور بقا کی جبلت کسی بھی دیوہیکل فوج اور ریاست سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال کا جبر بھی فلسطینیوں کے عزم کو توڑ نہیں پایا ہے۔ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بیس سالہ فلسطینی لڑکی نوران عباسی کا کہنا تھا، ''آزادی کی جدوجہد کا آغاز آگاہی سے ہوتا ہے، ماضی کے تجربات، جیسے کہ انتفادہ کی دو تحریکوں اور 1936ء کی بغاوت سے سیکھنے سے ہوتا ہے ، تاریخ کو درست انداز سے پڑھنے سے ہوتا ہے، کسی متاثرہ فرد کے طور پر نہیں بلکہ فریڈم فائٹر کے طور پر... ایسے انصاف کے لئے فلسطینی جدوجہد جاری رہے گی جو تمام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی فلاح اور برابری کو مدِ نظر رکھے۔ دہائیوں پر مشتمل 'نکبہ‘ (بربادی) کے مستقل خاتمے تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ اسرائیلی قبضہ ہمیں تقسیم کرنے اور آزادی کی بجائے مطالبات کے لئے جدوجہد پر مجبور کرنے کے لئے سرگرم ہے... حل یہ ہے کہ مطالبات کی جدوجہد کو ایک طرف رکھ کے آزادی کی جدوجہد کی جائے‘‘۔ 
فلسطینیوں کی نئی نسل کے یہ جذبات ایک بلند تر سیاسی شعور کی عکاسی کرتے ہیں اور آگے کا راستہ دکھاتے ہیں۔ 'اُمّہ‘ اور عرب ریاستوں کی حمایت ایک سراب ہی ثابت ہوئی ہے۔ مغربی ریاستوں اور ان کے اقوام متحدہ جیسے اداروں کا ہر معیار دوہرا اور منافقانہ ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی 'حکومتوں‘ کی اپنی مراعات اور ترجیحات ہیں۔ محکوم فلسطینی عوام کو خود ہی جدوجہد کرنا ہو گی۔ لیکن یہ جدوجہد تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اسے اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ اور پوری دنیا کے محکوم اور محنت کش طبقات کے ساتھ جوڑا جائے۔ یہی وہ طبقاتی جڑت اور یکجہتی ہے جس پر تکیہ کیا جا سکتا ہے اور جو اُن تمام تر مذہبی، قومی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو مٹا سکتی ہے جو حکمران طبقات کا سب سے بڑا اوزار ہیں۔ جابر اور استحصالی نظام سے آزادی حاصل کئے بغیر اس کی نمائندہ ریاستوں سے بھی نجات ممکن نہیں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں