ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی کی قلابازیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک وقت میں شمالی کوریا کو مٹا دینے کی دھمکیاں دے کر للکارا اور ڈرایا جا رہا تھا تو پھر یکدم یُو ٹرن لے کر سنگاپور میں ''راکٹ مین‘‘ (کم جونگ ان) کی تعظیم میں قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔ سامراجی میڈیا اور اُجڈ اور پسماندہ ٹھہرائے جانے والے کِم نے سفارتی مذاکرات اور مقدمات کی کارروائیوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو چاروں شانے چت کر دیا تھا۔ پہلے امریکہ نے معاہدے، جن میں چین، روس، فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی بھی شامل تھے، سے دستبرداری اختیار کر کے ایران کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ کر لیا۔ پھر ایران کے صدر روحانی سے کِم کی طرز پر ہی ٹرمپ نے سربراہی ملاقات کا عندیہ دے دیا۔اس کے بعد ایرانی ذرائع کے جواب میں تاخیر اور ان کی سرد مہری کو ٹرمپ کی پیشکش ٹھکرانے کے مترادف قرار دیا گیا۔
پچھلے ہفتے ٹرمپ نے ایران پر نئی معاشی و تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔ چند سال پہلے ایران کے ساتھ روس، چین اور مغربی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے پر مذاکرات مسلسل دو سال جاری رہے تھے۔ ان طویل مذاکرات کے بعد 2015ء میں صدر اوبامہ کے دور میں ان تمام ممالک کے ویانا میں ہوئے اُس ایٹمی اسلحہ کے کنٹرول کے معاہدے پر دستخط کی سخت مخالفت کی گئی۔ اس کی بھرپور مخالفت میں کئی حکمران اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں کے شانہ بشانہ ایران دشمنی میں سرگرم تھے اور ان کا امریکہ سے بھی تعلقات میں تنائو شروع ہو گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ہی اس معاہدے کے مواخذے کا اعلان کر دیا تھا۔ ویسے بیشتر سنجیدہ مغربی تجزیہ کار اس کی بہت سی نعرے بازی اور انتخابی معاہدوں کے بارے میں یہ بیانیہ دے رہے تھے کہ یہ محض انتخابی نعرے بازی ہے، صدر بننے کے بعد ریاستی امور میں سنجیدگی اور اس عہدے کے لوازمات کے تحت ٹرمپ شاید ان وعدوں پر عملدرآمد نہیں کر پائے گا‘ لیکن ٹرمپ نے خارجہ محاذ پر پاکستان کی امداد بند کی، ایران سے ایٹمی معاہدے سے دستبردار ہوا اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے چھوڑا۔ اسی طرح مختلف بین الاقوامی تجارتی معاہدوں‘ یہاں تک کہ پرانے حلیف نیٹو کے ممالک پر بھی تیر برسائے۔ گو ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ ہلڑ بازی ظاہری طور پر نظام کے لیے خطرناک قرار دی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی یہ قلابازیاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اس موضوعی انتشار کی ہی غمازی کرتی ہیں‘ جس نے اس کو بحرانوں میں جھونک دیا ہے۔
ٹرمپ کی ایران پر ان پابندیوں سے ایران کی پہلے سے بحران زدہ معیشت اور سماجی کیفیت مزید خلفشار کا شکار ہو رہی ہے۔ 5 نومبر سے ٹرمپ تیل‘ گیس اور دوسری فوسل مصنوعات کی برآمد پرجو پابندیاں لگانے والا ہے‘ اس سے تیل کا ایک عالمی بحران کسی حد تک مزید ابھر سکتا ہے‘ جس کے بہت سے ممالک کی معیشتوں پر انتہائی مضر اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ سوچا جا رہا تھا‘ اور یورپی لیڈروں کے بیانات بھی کچھ ایسے ہی تھے کہ اگر ٹرمپ نے معاہدے سے یک طرفہ دست برداری اختیار کر لی تو باقی پانچ ممالک‘ جن میں چین‘ روس اور یورپ کی بڑی طاقتیں شامل ہیں‘ اس معاہدے کو قائم رکھنے کے لئے ایران کے ساتھ تجارت اور دوسرے اقتصادی تعلقات قائم رکھیں گے۔ لیکن اب ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کے بالواسطہ تابع ہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جو ملک یا کمپنیاں ایران کے ساتھ تجارتی و کاروباری تعلقات رکھیں گی‘ امریکہ میں پھر ان کے کاروبار پر بھی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ امریکہ کے دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے یورپی کمپنیاں ایران سے فرار حاصل کر رہی ہیں۔ فرانس کی تیل کی ایک اجارہ داری نے ایران کے جنوب فارس میں تیل کی تلاش کا 2 ارب ڈالر کا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔ یورپی ہوائی جہازوںکی بڑی اجارہ داری ''ایئر بیس‘‘ نے ایران کو 100 نئے جہازوں کی فروخت روکنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ امریکی جہاز ساز کمپنی 'بوئنگ‘ پہلے ہی 20 ارب ڈالر کے معاہدے چھوڑ چکی ہے۔ ان پابندیوں سے ''سرمائے کی پرواز‘‘ شروع ہو گئی ہے‘ جس سے ایرانی کرنسی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ پچھلے سال ایک امریکی ڈالر 38000 ایرانی ریال کے برابر تھا۔ اس سال پابندیوں کے اعلان کے بعد یہ 19000 1 ریال کا ہو گیا ہے۔ اس سے بعض اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ سامراجی پابندیوں کا جبر ایران کے خستہ حال عام انسانوں کی زندگیوں کو تلخ بنا رہا ہے۔ ایران کچھ داخل مسائل کا بھی شکار ہے۔ ایران کے سرکاری بینک میں اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے پہلے ہی ایرانی کرنسی اور معیشت کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ روحانی نے بے شمار بینکاروں کو جیل میں بھی بھیجا ہے لیکن لگتا ہے کہ بڑی سرمایہ دارانہ قوتیں ان کے اختیارات سے بالا تر ہیں۔ بعض قوتیں مختلف پراجیکٹوں کے ٹھیکوں سے لے کر مختلف صنعتوں اور تجارتی فرموں کے کاروبار تک کی مالک اور منتظم ہیں۔ اس لیے جب ایٹمی معاہدے کے بعد پابندیاں ختم بھی ہوئیں تو تجارت میں اضافے اور سرمایہ کاری سے زیادہ فائدہ اشرافیہ نے اٹھایا اور عوام کی محرومی بدستور قائم رہی۔ مایوسی ختم ہونا شروع ہوئی تھی کہ پھر سے پابندیاں لگ گئیں۔ امریکی اشرافیہ کے زیادہ جارحانہ حصے، اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ میں ایران دشمن حاکمیتوں کی شہ پر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو معاہدے کی ایسی شرائط پیش کر رہا ہے‘ جن کے پورا ہونے سے ایرانی ریاست اور اس کی نظریاتی اور سماجی بنیادیں ہی ٹوٹ سکتی ہیں۔ مثلاً امریکی نہ صرف ایران کو ایٹمی پروگرام کی سخت گیریت کو محدود کرنے کی شرط رکھ رہے ہیں، جس سے یہ ایٹمی پروگرام ہی بیکار ہو جائے گا، بلکہ ٹرمپ ایرانی حکمرانوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ لبنان‘ عراق اور دوسرے ممالک میں اپنی حمایت یافتہ ملیشیاکی امداد بند کرے اور ان پر پابندیاں لگائے۔ اب یہ تو نہ کرنے والی باتیں ہوئیں!
امریکی جبر ہمیشہ مقامی حکمرانوں اور خصوصاً آمریتوں اور جابر حکومتوں کی حمایت کو جنم دلواتا ہے۔ ایران میں امریکہ مخالف شدید حقارت کی تاریخی وجوہات ہیں۔ ایران کے جدید تاریخ میں پہلے منتخب سوشلسٹ صدر محمد مصدق کا تختہ سامراجیوں نے 1953ء میں اس لیے الٹا تھا کہ اس نے تیل کمپنیوں سمیت سامراجی اثاثوں کو ضبط کر لیا تھا۔ بھوک، غربت، محرومی، بیروزگاری اور ذلت کے خلاف بھی ایران کے نوجوان اور محنت کش کسی تحریک میں ابھرتے ہیں تو امریکی اور مغربی حمایت ان کی تحریک کو فوراً عوام سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ عوام دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ بھرپور محنت کش بغاوت ابھر آئی تو یہ تحریک سامراجیوں کے سطحی تضادات کی رکاوٹ کو توڑ کر ایک انقلابی فتح کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
ونلڈ ٹرمپ کی یہ ہلڑ بازی ظاہری طور پر نظام کے لیے خطرناک قرار دی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی یہ قلابازیاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اس موضوعی انتشار کی ہی غمازی کرتی ہیں‘ جس نے اس کو بحرانوں میں جھونک دیا ہے۔