"DLK" (space) message & send to 7575

نئی حکومت اور زمینی حقائق

عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے سماج کی مخصوص پرتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سیاسی جغادریوں نے اپنے نئے سیاسی سیٹ اپ میں ایک نسبتاً کمزور حکومت اور ایک منقسم اپوزیشن تشکیل دی ہے۔ پیٹی بورژوازی کی طرف سے عمران کو ایک دیوتا اور مسیحا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘ جس کا مدتوں سے انتظار تھا۔ حتیٰ کہ کچھ عقل مند لکھاری اور دانشور بھی اس مبالغہ آرائی کا شکار نظر آتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے پہلے دیوانہ وار مہم چلائی گئی اور بعد میں عمران خان کی جیت پر خوب شادیانے بجائے گئے۔
تاہم تحریک انصاف کے اپنے سنجیدہ معاشی ماہرین نے تاخیر سے ہی سہی‘ لیکن پاکستان کی میکرو معیشت کی کیفیت کو درپیش شدید اور خطرناک چیلنجز کا اقرار کیا ہے۔ جیسے جیسے وہ اقتدار کے قریب ہو رہے ہیں ان کے معاشی ماہرین انتشار‘ معاشی حالات اور سماجی بے چینی سے گھبرائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے قریب ہے‘ جس سے کرنسی کے استحکام، قرضوں کی واپسی کی اہلیت اور درآمدات کی ادائیگیوں کا خطرہ درپیش ہے۔ پاکستان کے قرضے اور واجبات تیزی سے 30 کھرب روپے یا کل معیشت کے 87 فیصد کے برابر ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ پھیلائو کی مالی پالیسیاں تھیں‘ جس میں خصوصاً تعمیراتی شعبے میں خسارے کی سرمایہ کاری کے ذریعے ایک کمزور معاشی بنیاد کی حامل ملکی معیشت کی شرح نمو کو بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی براہ راست ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی مسلسل گر رہی ہے۔
بجٹ خسارہ مسلسل بڑھتے ہوئے جی ڈی پی کے 4 فیصد سے 10 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے درآمدات آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2017ء سے جولائی 2017ء کے دوران ملکی درآمدات کا 70 فیصد توانائی، مشینری اور دھاتوں پر مشتمل تھا۔ اسی اثنا میں برآمدات، جو زیادہ تر ٹیکسٹائل پر مشتمل ہیں، میں انتہائی معمولی اضافہ ہوا۔ نتیجتاً ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 10.3 اَرب ڈالر تک گر چکے ہیں‘ جن سے صرف دو ماہ کی درآمدات ممکن ہیں‘ جبکہ دسمبر سے اب تک روپے کی قیمت میں چار بار کمی کی گئی ہے‘ جس سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔
آخری بار 2013ء میں اسی طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے 6.6 اَرب ڈالر کا قرضہ لیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے معاشی گرو اسد عمر کے مطابق ملک کو آج 12 اَرب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگر یہ آئی ایم ایف میں منظور ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بیل آئوٹ ہو گا۔ لیکن ابھی تک تو پرانے قرضوں کی ادائیگی مکمل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ان کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ امریکی سامراج کے ساتھ کشیدگی کے پیش نظر اس بات کے خدشات زیادہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے نئے قرضوں کے شرائط 2013ء کی نسبت زیادہ سخت ہوں گی۔
عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن فلاحی ریاستوں کے لیے بے تحاشا عوامی اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور اگر معیشت میں نمو نہ ہو تو یہ منصوبے ریت کا محل ثابت ہوتے ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں اسد عمر نے قبول کیا کہ ''ہمیں مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں میں کچھ کرنا ہو گا۔‘‘ انگریزی جریدے کو اسد عمر نے بتایا، ''تمام تجاویز زیر غور ہیں۔ حکومت بشمول پی آئی اے سرکاری ملکیت میں چلنے والی تمام کمپنیوں کی نجکاری پر غور کر رہی ہے۔‘‘ فنانشل ٹائمز میں اسد عمر نے پہلے سو دنوں کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''تمام ریاستی ملکیتی کمپنیوں کو ایک سپیشل ویلتھ فنڈ میں منتقل کیا جائے گا۔ درکار فنڈز حاصل کرنے کے لیے ہمیں بے تحاشا نجکاری کرنا ہو گی تاکہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔ اس فنڈ کی تشکیل سے آئی ایم ایف بھی ایک مناسب ڈیل کے لیے تیار ہو گا۔‘‘ متوقع وزیر خزانہ نے مزید کہا، ''اس سپیشل ویلتھ فنڈ کی تشکیل نجکاری کی جانب نئی حکومت کا پہلا قدم ہو گا۔ تقریباً 200 کمپنیوں کو مؤثر انداز میں حکومتی کنٹرول سے نکال کر اس ویلتھ فنڈ میں ڈالا جائے گا‘ جنہیں نجی شعبہ چلائے گا اور حکومتی انتظام صرف برائے نام ہو گا۔ اس فنڈ کا کام کمپنیوں کے خسارے اور قرضے کم کرنا ہو گا۔‘‘
امریکہ نے پہلے ہی دھونس جما رکھی ہے کہ اس بات کی سختی سے نگرانی کی جائے گی کہ آئی ایم ایف کے پیسوں کو سی پیک کی صورت میں چینی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے صرف نہ کیا جائے۔ حالیہ دنوں میں چین سے 2 اَرب ڈالر اور سعودی عرب سے 4.5 اَرب ڈالر کے قرضے حاصل کرنے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔ میرے خیال میں سعودی عرب سے ملنے والے قرضے صرف ان سے تیل لینے میں ہی صرف ہو جانے ہیں۔
عمران خان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس کی بد عنوانی کے خلاف مہم اور 'صاف‘ حکومت خارجی طور پر ملکی وقار کو بہتر کرے گی‘ جس سے سرمایہ کار متوجہ ہوں گے۔ درحقیقت موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت 2008ء کے کریش کے بعد ایک صحت مندانہ بحالی سے کوسوں دور ہے‘ اور سرمایہ کاری کا فقدان ایک عالمی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی سرمایہ داری کی بوسیدگی کی وجہ سے حالات زیادہ ناگفتہ بہ ہیں۔ ورلڈ بینک نے کاروباری ماحول کے حوالے سے اپنی پچھلے سال کی رپورٹ میں پاکستان کو 190 ممالک میں 147واں درجہ دیا ہے۔
عمران خان صاحب کا خیال ہے کہ ان کی حکومت ڈرامائی انداز میں ٹیکسوں کی آمدن بڑھائے گی۔ پاکستان میں انتہائی قلیل افراد ٹیکس دیتے ہیں‘ جبکہ بڑے مگرمچھ اس جال میں نہیں آتے‘ کیونکہ اگر پاکستان کی بد عنوان بورژوازی مکمل ٹیکس دینا شروع کر دے اور صنعتی اور لیبر قوانین کی پابندی کرے تو وہ اپنے منافع جات برقرار نہیں رکھ سکتے اور ریاست اور سیاست میں اپنی سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ سے محروم ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے اعلیٰ حلقوں میں اس طبقے کے بہت سے افراد موجود ہیں۔ ان کو قانونی دھارے میں لانے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش پی ٹی آئی کی حکومت اور پارٹی میں ایک شدید بحران کو جنم دے گی۔ میرے خیال میں عمران خان کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ بالآخر عمران بھی تو سرمایہ داری پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ان کی پارٹی میں بھی مبینہ طور پر رسمی اور کالی معیشت کے اَرب پتی شامل ہیں‘ جو پارٹی کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی وحشیانہ شرائط میں بے تحاشا نجکاری، مزید لیبر اصلاحات، ٹیکس نیٹ کا پھیلائو، شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی شامل ہو گی۔ ان بھیانک اقدامات سے عوام کی سماجی معاشی بد حالی میں مزید اضافہ ہو گا۔ نجکاری سے مزید بیروزگاری اور اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ لیبر اصلاحات کا مطلب مستقل ملازمتوں اور پنشن کی مراعات میں مکمل تبدیلی اور کنٹریکٹ لیبر کا اجرا ہے۔ کمپنیوں اور کاروباروں پر تھوڑا ٹیکس نافذ ہو گا اور عام صارفین سے اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے زیادہ ٹیکس نکالا جائے گا۔ شرح سود میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر میں تیز اضافہ ہو گا اور اس سے تیل اور دیگر اشیائے ضرورت کی درآمدات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا۔
سابق وزیر خزانہ اور پاکستان کے زیادہ سنجیدہ بورژوا معیشت دان حفیظ پاشا نے پیش گوئی کی ہے کہ ''پھر عوام سڑکوں پر ہوں گے۔‘‘ لیکن پاشا کے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے۔ سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری کے موجودہ بحران اور اس کی جارحانہ فطرت کی وجہ سے سماجی فلاحی ریاست محض دیوانے کا ایک خواب ہے۔ حتیٰ کہ نظام کا بحران ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمرانوں کو محنت کشوں کی طویل جہدوجہد کے ثمر 'فلاحی ریاست‘ کو ختم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ پاکستان کی سرمایہ داری کے موجودہ تباہ کن حالات میں اس طرح کے وعدے ایک شاطرانہ دھوکہ ہیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ عمران خان کے خیالی پلائو بھیانک انجام سے دوچار ہوں گے۔ محنت کش طبقات کے پاس تاریخ کے میدان میں اتر کر اس غیر انسانی نظام کے خلاف غیر مصالحانہ طبقاتی جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں