تحریک انصاف نے پنجاب میں جس شخص کو وزیر اطلاعات وثقافت بنایا ہے ‘اس کے حالیہ بیان میں فلم اور تھیٹر کی اداکاراؤں کے بارے میں گفتگو سے نئے پاکستان کے 'ثقافتی معیار‘ کی عکاسی ہوتی ہے۔ وزیر موصوف نے ان اداکاراؤں پر جس انداز میں جملے کسے وہ ان کی نفسیات کی غمازی کررہے تھے۔ بعد میں انہوں نے ان اداکاراؤںسے معافیاں مانگنے کی اپنی وڈیو جاری کرکے انہوں نے صرف اپنی وزارت بچانے کی کوشش ہی نہیں کی ‘بلکہ اس نفسیات کو بھی آشکارکیا ہے ‘جو موجودہ معاشرے میں رائج اخلاقیات کی غمازی بھی کرتی ہے۔ جن اداکاراؤںکو وہ اتنا نیچ اور گھٹیا سمجھتے ہیں‘ معافی کے پیغام میں انہی اداکارائوں کی فنکارانہ عظمتوں کو بلندیوں پر پہنچا کرانہوں نے اپنے تہذیبی اور اخلاقی معیار کو واضح کردیا۔یہ نفسیات صرف ان وزیر صاحب ہی کی نہیں ہے‘ بلکہ اس مخصوص ثقافتی معیار اور تہذیبی گراوٹ کی غمازی کرتی ہے‘ جواس ملک کے خصوصاً درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں‘ جوانوں اور ادھیڑ عمر کے مردوں کو لاحق ہے۔
پاکستان کی حالیہ سیاست میں زیادہ سے زیادہ ''ریڈیکل‘‘ بات صرف یہی کہی جارہی ہے کہ متوسط یا درمیانے طبقے کے افراد کو آگے آنا چاہیے اوراسمبلیوں کا ممبر بننا چاہیے اور سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے‘ لیکن ایک طویل عرصے سے کوئی ایلیٹ جماعت یا لیڈر اور میڈیا‘محنت کش اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے کردار کے بارے میں ایسی کوئی امید‘ کوئی خواہش ہی نہیں رکھتا۔ ان کے لئے یہ محض ' بھیڑ‘ بکریاں‘ ہیں اور ان کا کام اپنی محنت کی غلامی کو قبول کرنا اوران پارٹیوں کے فنانسروں کے لئے جاری رکھنا ہی ہے۔مزدور اوردہقان معاشرے کے لئے تمام پیداوار کرتے ہیں۔ طبقہ بالا کی سوچ ہے کہ یہ اپنی محنت سے زندگی کو زندگانی بخشنے والی بنیادی ضروریات پیدا کرتے رہیں اور یہ درمیانے اور بالادست طبقات‘ بس ان کی محنت سے چلنے والے اس معاشرے کی سیاست پر حاوی ہو کر اپنے کھلواڑ کرتے رہیں۔ مزدوروں اور دہقانوں کی جانب یہ حقارت کا رویہ معاشرے کی ایسی بے بسی‘ ناانصافی اور سنگدلی کی غمازی کرتا ہے‘ جس کو جھنجوڑنے اور ان رویوں کی مذمت میں فیض ؔنے لکھا تھا:
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے‘ نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
یہ اشعار معاشرے میں زوال اور جمود کے ادوار میں پائی جانے والی بے حسی اور سفید خون کے رشتوں کی دل ہلا دینے والی تصویر کشی کرتے ہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کیفیت میں بھی متوسط طبقہ انتہائی ناخوش اور مضطرب پایا جاتا ہے۔ وہ اسمبلیوں میں جا کر حکمران طبقات کے مفادات کا ہی خیال رکھتے ہیں‘جیسے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے عوض''شاہ‘‘ سے مزید مراعات حاصل کرنے کی التجائیں جاری رہتی ہیں۔ تاریخی طور پر متوسط طبقہ ایک بے چین‘ مصنوعی اور پیروکار نفسیات کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا حتمی مقصد 'بڑا بننے‘ اور بالادست طبقات کی صفحوں میں داخل ہونا ہوتا ہے۔اس مقصد کوپانے کیلئے سب کچھ کر گزرنے کے درد میں مسلسل زندگیاں گزاردیتے ہیں۔ ایسے میں یہ نفسیاتی انتشار اور روح کی غربت وبیگانگی کا شکار ہوتے ہیں‘ اس کے لیے مختلف سیاسی ثقافتی اور سماجی اقدار کی انتہا ئوںکے دورمیان لڑھکتے رہتے ہیں۔ اس وحشت میں وہ خود سے ہی بیگانہ ہو جاتے ہیں۔عزیزوں اور دوستوں سے مفادات کے رشتے استوار کرتے ہوئے سبھی تعلق ٹوٹ جاتے ہیں۔ کبھی مذہبی جنونیت کی جانب راغب ہو کر درندگی کی نفسیات اپنا لیتے ہیں‘ تو کبھی لبرل ازم کی بھینٹ چڑھ کر بے ہودگی کو شعار بنا لیتے ہیں ۔
پاکستان اور بھارت میں ایک وسیع درمیانہ طبقہ خصوصاً پچھلی چند دہائیوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے ناہموار ارتقا ء کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان میں آبادی کا 15 سے 20 فیصد‘ یعنی زیادہ سے زیادہ4کروڑ ہوگا۔ اس تعدادکے اندر بھی معاشی مالیاتی اور سماجی بنیادوں میںکئی پرتیں ہیں۔ برصغیر میں سامراجیوں کے جانے کے بعد جو آزادی ملی وہ زیادہ یورپی حکمرانوں کی بجائے مقامی حکمرانوں کی حاکمیت کی تبدیلی تک محدود ہے۔ ان کے تحت بھی جو ترقی ہوئی اس کی ناہمواریت کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف جو ٹیکنالوجی صنعت اور معاشرے کے مختلف شعبوں میں آئی ہے‘ وہ انتہائی مصنوعی اور سطحی نوعیت کی ہے ۔ یہاں پسماندگی اور جہالت ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکامی رہی ہے‘ بلکہ اس عمل سے جو معاشرہ وجود میں آیا ہے اس کی ثقافت اور سماجی رشتے ‘یہاں کی رجعت اور مسلط ہونے والی جدیدیت کا ملغوبہ بن گیا ہے۔ یہ نیم علمی اور پراگندا نفسیات ‘جو درمیانے طبقے پر حاوی ہے ‘ایسی منافقت کو جنم دیتی ہے ‘جہاں ظاہری طور پر مذہبیت اور پارسائی کے ڈھونگ کا لبادہ ہے اور اندر سے سامراجی ثقافت اور بے ہودہ لبرل ازم ‘ ان کے کردار پر حاوی ہوجاتی ہے۔ مزیدہوس پرستی اور منافقت ان کی تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ سیٹیلائٹ چینلوں اور انٹر نیٹ کے دور میں ایسی ہوس سے دہرے معیاروںپرمبنی نفسیات بنتی ہیںــ۔وہاں فلم‘ ڈرامہ ‘تھیٹر اور دوسری انٹرٹینمینٹ سے محظوظ بھی ہواجاتا ہے‘ خصوصاً خواتین فنکاروں کی ادائوں اور کام سے''لطف‘‘ بھی اٹھایاجاتا ہے اور پھر اسی ثقافت اور انہی فنکاروں کو تضحیک اور حقارت سے دیکھنے کی نفسیات‘ ان کو نیچ اور گندا تصور دے دیتی ہے ۔ ان وزیر موصوف کی سوچ اورکردار ‘ اوران کا پنجاب کی ' پررونق ثقافت ‘پر براجمان کیا جانا ‘ ثقافت کوبرباد کردینے والے خطرے کو دوبارہ حاو ی کردیتا ہے۔ وزیرموصوف عمران خان کے کم اور ضیاء الحق کے زیادہ پیروکار محسوس ہوتے ہیں۔ سیاسی طور پر اس درمیانے طبقے کے پاس نہ کوئی ٹھوس نظریہ ہے اور نہ کوئی معاشرے کو بدلنے کا انقلابی لائحہ عمل۔ بس مسلسل بے چینی اور اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لئے امیر بننے کی ہوس کو 'تبدیلی‘کے شور میں کچھ آسرا ملتا ہے‘ لیکن معاشرے میں چونکہ حکمران طبقات کی پارٹیاں نظام کے بحران کی وجہ سے پٹ چلی ہیں اور محنت کش طبقے کی روایت تنزلی کا شکار ہو کر ایک بھیانک مجرمانہ رجعت سے مزدور دشمن بن چکی ہے۔
اس طرح جب معاشرے کے فیصلہ کن طبقات 'مزدور اور سرمایہ دار‘ کی سیاسی میدان میں طبقاتی لڑائی ماند پڑجاتی ہے تو ایک سیاسی خلا ابھرتا ہے‘ جس میں وقتی طور پر نعرہ بازی پرمبنی درمیانے طبقے کی پارٹیاں عارضی طور پر ابھرتی ہیں۔ تحریک انصاف ایسی ہی ایک پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔جس کی تصویر کشی پنجاب کے وزیر ثقافت کی گفتگو اورحرکات نے مکمل کردی ہے۔ جس طبقے کی یہ نمائندگی کرتی ہے وہ اسی ثقافتی تہذیبی اور اخلاقی کردار کا حامل ہے جہاں فن‘ موسیقی‘ رقص ‘ تھیٹر اور دوسرے فنون لطیفہ سے محظوظ بھی ہوا جاتا ہے اور ان کی تذلیل بھی کی جاتی ہے۔ یہ منافقت کی اقدار‘معاشرے کو اخلاقی اور سماجی رشتوں کے اعتبار سے کھوکھلا اور اخلاص سے بیگانہ کررہی ہیں۔ جب زندگی کی تفریحی سرگرمیاںمنافقانہ پردہ پوشی سے کی جائیںیا پھر حاکمیت ایسے اقدار مسلط کر دے کہ کھل کر اپنی پسند ناپسند کا اظہار تک کرنا ممکن نا رہے تو پھر یہ تفریح ایک گنا ہ اور ضمیر پر خواہ مخواہ کا بوجھ بنادی جاتی ہے‘ جس سے وحشت‘ جنون‘ جبر اور رعونت معاشرے میں حاوی ہو جاتے ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ سماجی‘ ثقافتی بحران‘ سماجی رشتوں کو مطلب پرستی اور مادی اغراض کا مطیع بنا رہا ہے ۔ جس سے ثقافتی گھٹن اور روح کی بے چینی معاشرے کی معاشرتی زندگی کی غلاظتوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے۔