"DLK" (space) message & send to 7575

خود غرضی‘ توقعات اور احسان مندی

مارکسی استاد لینن کے ساتھ انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ''سیاست اور سماج کسی احسان مندی اور شکر گزاری کے احساس کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ اس زر کے غلام معاشرے میں تین ہی ایسے مقاصد ہیں جن کی تگ و دو میں انسانوں کی زندگی کو محدود کر دیا گیا ہے۔ دولت، شہرت اور طاقت کے ان اہداف کا طلسم یہ ہے کہ جتنے حاصل ہوتے ہیں ان کی ہوس مزید بڑھ جاتی ہے‘ لیکن اس نظام میں ان کے حصول کے لئے جو بنیادی انسانی فطرت درکار ہوتی ہے‘ وہ خود غرضی ہے۔ اس معاشرے کے ڈھانچے اونچ نیچ کے نظام پر استوار کیے گئے ہیں‘ اس لیے عمومی طور پر اور عام حالات میں سماجی مرتبت اور ''بڑا‘‘ بننے کی ہوس نے سماجی نفسیات کو مطیع کر کے رکھا ہوتا ہے۔ یہی تربیت دی جاتی ہے۔ والدین سے لے کر عزیز و اقارب اور سماجی رشتوں تک میں اسی کو پہچان کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے اور سبھی اس اندھی دوڑ میں لگ جاتے ہیں کہ ہم اس غیر مساوی معاشرے میں بالائی پرتوں تک پہنچ جائیں۔ چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑ جائے۔ سرمایہ دارانہ سماجوں کی سب سے کلیدی اساس مقابلہ بازی بن جاتی ہے اور اس کشمکش میں اپنے عزیز ترین دوستوں اور رفیقوں کو روند کر‘ ان کو دھوکے اور فریب دے کر آگے نکل جانے کی جستجو میں ہر انسانی قدر پامال کی جاتی ہے۔
بچپن کی دوستیوں اور محبتوں کی یادداشتیں بھی بڑے ہو کر عموماً مٹ جاتی ہیں۔ لیکن نوجوانی کی دوستیوں اور گہرے ناتوں کے دوران ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کبھی بے وفائی نہیں ہو گی‘ جان چھڑکائی جاتی ہے اور ایک دوسرے کے لئے جینے اور مرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ لیکن جونہی معاشرے کی زمینی حقیقتوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے‘ شہرت طاقت اور دولت کی ہوس ہر وفا اور مخلصی کو کچل کے رکھ دیتی ہے۔ اچھے تعلقات کے ادوار میں دوست اور عزیز و اقارب ایک دوسرے کے لئے بہت کچھ کرتے ہیں، قربانیاں دی جاتی ہیں اور اپنے مفادات اور حقوق کو بھی یارانوں پر وار دیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس فاسق بے وفائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایک دوسرے پر کیے گئے احسان اور قربانیوں کا رونا رویا جاتا ہے۔ جہاں جدائی اور بے وفائی پر دھائیاں دی جاتی ہیں‘ وہاں اپنی محرومی کا احساس بھی اس دکھ اور درد کو مزید اذیت ناک بنا دیتا ہے۔ اس مادیت پرستی کے نظام میں پھر ''قربانیوں‘‘ کے عوض توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں‘ جو انسانی احساسات کو مجروح کر دیتی ہیں۔ جو ساتھی بچھڑ جاتے ہیں وہ اس حقیقت سے نا آ شنا ہوتے ہیں۔ اس نظام زر کے تقاضوں میں ایسے دھوکے اور فریب ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے پُرکھوں نے جو محاورے اور کہاوتیں کہی ہیں وہ بڑی ہی نادر اور دانائی پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں ایک اہم کہاوت ''نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ انسان کو زندگی کے ایسے بے جا غموں اور احساس محرومی سے بچاتی ہے۔ لیکن سماجی حالات اور واقعات انسانی سوچ اور شعور کے تابع نہیں ہوتے بلکہ وہ معروض کے حالات ہی ہوتے ہیں جو انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں۔
لیکن اسی نظام کی کوکھ میں اس کی بربادی بھی پنپ رہی ہے۔ اس طبقاتی معاشرے میں اونچ نیچ‘ امیر اور غریب‘ محروم اور دولت مند‘ ظالم اور مظلوم‘ مزدور اور سرمایہ دار‘ دہقان اور وڈیرے غرضیکہ معاشرے میں ہر طرف طبقاتی تفریق اور استحصال کے درمیان تضادات ہیں جو اس پورے نظام، اس کی اقدار اور اس کے تمام سماجی و اقتصادی جبر کے خلاف ایک بغاوت کے جذبے کو سرشار کرتے ہیں۔ ''معمول‘‘ کے حالات میں حکمران طبقات کی یہ اخلاقیات اور قدریں کبھی وطن پرستی‘ کبھی ذات برادری‘ کبھی مذہب‘ کبھی فرقے اور کبھی نسل پرستی کی بنیادوں پر ابھارے گئے رجحانات کے نیچے دب جاتی ہیں۔ یہ معمول کے حالات وہ ہوتے ہیں جب اس حاکمیت کو درپیش طبقاتی بغاوت کے خطرے کو کبھی جمہوریت‘ کبھی قومی سالمیت اور کبھی نسل و قوم پرستی اور کبھی مذہبی سیاست سے زائل کیا جاتا ہے۔ انسان کی شناخت کو حقیقی زندگی کے طبقاتی مرتبے سے ہٹا کر اس کی نفسیات میں ان فروعی تقسیموں میں دبانے کی کاوش کی جاتی ہے۔ ایسے میں انسان مختلف جذبوں اور پہچانوں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایسے رجحانات کے ان داتا ایک مافیا ہوتے ہیں‘ اور جو ان میں پناہ لینے آتا ہے وہ اس سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔ ''بڑا بننے کی خواہش‘‘ ''نام بنانے کی ہوس‘‘ اور بالا دست طبقات میں شمولیت کی اس خلش کو درمیانہ طبقہ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں میں سرایت کرواتا ہے، کیونکہ ان میں خود غرضی اور مفاد پرستی عود کر آتی ہے۔ جھوٹ سچ بن جاتا ہے اور سچائی ایک مذاق اور بے وقوفی کہلانے لگتی ہے۔ لیکن اس عمل میں معاشرے کا ہر طبقہ مختلف قسم کی بیگانگیوں میں غرق ہونے لگتا ہے۔ دولت کی کبھی نہ مٹنے والی ہوس، طاقت اور شہرت کی اندھی دوڑ اور تڑپ امیروں کو بھی اپنے آپ سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران طبقے سچا جذبہ اور ر شتہ استوار کرنے کی صلاحیت ہی کھو دیتے ہیں۔ ان کی ہر حرکت‘ ہر رشتہ اور ہر تعلق بنیادی طور پر مفادات کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے۔ ان کے رویوں میں اپنے سے اوپر والوں کی تابعداری اور محکومی کے ناٹک ہوتے ہیں اور محنت کشوں اور معاشرے کی پچھڑی ہوئی پرتوں کی جانب رعونت اور بے ہودگی کو وہ بڑے پن کا ثبوت سمجھتے ہیں۔ وہ تمام تقاریب میں محض انہی مقاصد کے لئے شریک ہوتے ہیں۔ کسی کے مرنے پر دکھ نہ ہونے کے باوجود غمگین ہونے کا ڈرامہ رچانے سے لے کر دوسروں کی خوشیوں میں مسکراہٹیں بکھیرنے کے ڈھونگ تک‘ سب جعلی اور پُرفریب ہوتا ہے۔ اپنے طبقے کے افراد کے ساتھ تو یہ فریب زیادہ گہرا اور انتقامی نوعیت کا ہوتا ہے کیونکہ ان کے لئے سب سے بڑی سر دردی دولت کی دوڑ میں سبقت کی ہوتی ہے۔
لیکن کہیں نیکی کے ڈھونگ کیے جاتے ہیں تو کہیں حب الوطنی کے مصنوعی مظاہرے پیش ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات سے برباد غریبوں کو آٹے کی تھیلیاں دے کر تصویریں بنوائی جاتی ہیں اور اب تو فیس بک کا زمانہ ہے‘ جس میں زیادہ تر سرگرمیاں کسی مقصد کے اظہار کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ فیس بک پر تشہیر کے لئے ان محفلوں‘ تقاریب‘ میٹنگوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے کی نمود و نمائش ہی معاشرے میں ایسی قدریں لاتی ہے جن سے سچائی‘ اصلیت اور انسانیت کی شفافیت کا خون ہوتا ہے۔ ایسے ہی حکمرانوں کے لباس اور میک اپ زیب تن کیے جاتے ہیں۔ کہیں جاہ و جلال کے لباس ہوتے ہیں‘ جن کے ذریعے رعونت اور جبر کا اظہار کیا جاتا ہے‘ تاکہ محکوم عوام میں لباس ہی خوف کی علامت بن جائے تو کہیں نیکی اور پارسائی کا روپ دھار کر مذہب کے لبادے میں اپنے گناہوں اور جرائم کو چھپایا جاتا ہے۔ کہیں جمہوریت کے نام پر جرائم کی سزائوں سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں کرپشن کا شور اور واویلا کرکے اپنے کالے دھن کے تحفظ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حکمران طبقے اس استحصالی نظام اور حاکمیت کو قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے ناٹک کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہوتے ہیں کہ ان کا نظام تاریخی اور اقتصادی طور پر متروک اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔
لیکن پھر تاریخ کے ارتقا کا یہ قانون بھی ہے کہ معمول ٹوٹتا ہے اور غیر معمولی حالات و واقعات جنم لینا شروع کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب طبقاتی تضادات پھٹ کر حکمرانوں کے اخلاقی‘ سماجی اور اقتصادی بندھنوں کو توڑ دیتے ہیں اور تاریخ کے میدان میں محنت کش طبقات خود اپنا مقدر بدلنے کے لیے اس نظام سے برسرِ پیکار ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں بڑی بڑی گاڑیوں‘ حکمرانوں کے جبر کے اداروں‘ محلات اور ان کے ریت و رواج کو توڑ کر ایک نئے سماج کی جانب بڑھتے ہیں جہاں امارت اور غربت‘ بڑے اور چھوٹے‘ ذہین اور متوسط اور حاکم و محکوم کی تفریقیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ انقلاب یہی ہوتا ہے۔ جب صرف معیشتیں اور ریاستیں نہیں بلکہ اقدار‘ اخلاقیات‘ تاریخ ‘جغرافیے اور اونچ نیچ کی تفریق بدل جاتی ہے اور اشتراکی نظام کا جنم ہوتا ہے جہاں مقابلے بازی، حسد اور خود غرضی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جہاں احسان مند اور محتاج نہیں ہونا پڑتا‘ کسی سے توقعات وابستہ نہیں کرنا پڑتیں۔ اور انسان حقیقی طور پر آزاد ہو کر تسخیرِ کائنات کے فریضے کی جانب آگے بڑھ جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں