آج سے پچاس سال پہلے کے موسمِ خزاں میں اس سرزمین نے اپنی تاریخ کے عظیم الشان لمحات کا مشاہدہ کیا تھا‘ جب پاکستان کے نومولود پرولتاریہ اور محکوم طبقات کے بڑھتے قدموں کی جنبش سے زمین و آسمان لرز رہے تھے۔ یہ لاکھوں کروڑوں استحصال زدہ مجبور لوگ اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے کا عزم لیے تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوئے تھے۔ ایسے انقلابی عہد تاریخ کے غیر معمولی اور استثنائی اوقات ہوتے ہیں۔ انقلابات روز روز برپا نہیں ہوا کرتے‘ لیکن یہ ایک انقلاب تھا ‘جو 7 نومبر 1968ء کو پھوٹ کر 26 مارچ 1969ء کو ایوب خان کی آہنی آمریت کے دھڑن تختے پر منتج ہوا تھا۔ اس نے مروجہ نظام اور اس کے اداروں کو چیلنج کیا تھا۔ محنت کشوں کے غیض و غضب‘ اُبال اور غیر معمولی واقعات سے بھرپور اِن تقریباً پانچ مہینوں کے دوران سوشلسٹ فتح کے امکانات اُفق پر بالکل واضح تھے۔ 6 اور 7 نومبر 1968ء کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی یہ انقلابی کیفیت پاکستان میں وہ تاریخی کردار ادا کر سکتی تھی‘ جو 1917ء کے انقلاب نے روس میں کیا تھا۔139 دن تک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھنے والی وسیع پیمانے کی عوامی بغاوت کو چنگاری راولپنڈی شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گورنمنٹ پولی ٹیکنیک کالج کے سامنے طلبہ کے پولیس کے سا تھ تصادم سے ملی تھی۔ان طلبہ کا تعلق پولی ٹیکنیک اور گورڈن کالج سے تھا ‘جو اپنے بنیادی حقوق پر مبنی مطالبات کے لئے احتجاج کر رہے تھے‘لیکن اس چنگاری نے‘ جس انقلاب کو بھڑکایا‘ اُس نے اسلام آباد سے لے کر دہلی اور واشنگٹن تک اقتدار کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔پاکستانی سماج کے غیرہموار اور مشترک نوعیت کے تاخیر زدہ سرمایہ دارانہ طرزِ ارتقا میں ایوب خان دور کی بلند معاشی شرح نمو کسی دور رس سماجی ترقی اور استحکام کا باعث نہیں بنی تھی۔اس تیز صنعتکاری‘ جس کے ثمرات مٹھی بھر سرمایہ دار خاندانوں تک محدود رہے‘ نے طبقاتی تضادات کو بھڑکا ڈالا تھا۔یہ تضادات پھر ایک انقلاب کی شکل میں پھٹ پڑے اور جنوری 1969ء تک بالخصوص مغربی پاکستان کے ہر بڑے شہر میں عوامی سرکشی کا سماں تھا۔محنت کش طبقات کے شعور میں لگنے والی جست کی غمازی بڑی ہڑتالوں‘ قبضوں اور مختلف نوعیت کی وسیع ایجی ٹیشن سے ہو رہی تھی۔اُن دنوں اسلام آباد میں واقع سفارتخانوں کی خط و کتابت سے سامراجیوں کے خوف کا واضح پتا دیتی ہے۔ راولپنڈی میں برطانوی ہائی کمیشن نے لندن کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے لکھا: فوج کے بہت سے نوجوان فوجی افسران بہرصورت بھٹو کے 'نظریات‘ اور شخصیت کی طرف متوجہ ہوں گے۔نوجوان ترکوں کی طرز کی ایک تحریک کے اپنے سویلین حامیوں کے ساتھ مل کر فوج کا کنٹرول سنبھالنے اور بھٹو کو اقتدار میں لانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا‘برطانیہ کے معاشی اور تجارتی مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہے۔مزید برأں ایک انقلابی صورتحال پیدا ہو گی‘ جو مغربی بنگال میں ہونے والے واقعات سے جڑنے میں ناکام نہیں رہے گی۔
بیسویں صدی کے کئی دوسرے انقلابات کی طرح یہاں بھی انقلاب کے شعلوں کو بھڑکانے میں طلبہ پیش پیش تھے۔بعد ازاں محنت کش بھی طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں کے ساتھ احتجاجی تحریکوں میں شامل ہو گئے‘ جس نے مغربی و مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں ایک انقلابی صورتحال پیدا کر دی۔ حکومت کی لیبر پالیسیوں اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کی حدود و قیود میں رہنے والے لیبر رہنمائوں کو تحریک نے جلد ہی پچھاڑ دیا۔مختلف صنعتی علاقوں میں تیزی سے ابھرنے والی ہڑتالی کمیٹیوں میں ریڈیکل نوجوان‘ جو اب تک زیادہ تر طلبہ سیاست سے وابستہ رہے تھے‘ ایک مشترکہ مقصد کے تحت محنت کشوں کے ساتھ رابطے میں آگئے۔تحریک کے واضح سیاسی کردار نے اس نوعیت کے یکجا عمل‘ جس میں سیاسی طور پر پہلے سے سرگرم پڑھے لکھے نوجوان اور محنت کش ایک دوسرے سے جڑ گئے‘ کو زیادہ بااثر بنا دیا۔کئی صورتوں میں یہ جڑت‘ محنت کشوں کی نئی تنظیموں کی تشکیل پر منتج ہوئی‘ جو فوری مطالبات سے بہت آگے کے انقلابی نصب العین کی حامل تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے موقع کو مناسب جانا اور نومبر 1968ء سے ہی تحریک میں مداخلت شروع کر دی۔کئی سال بعد اُس نے سٹینلے وولپرٹ کو بتایا:جب میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل (راولپنڈی) پہنچا‘ تو مال کے پورے علاقے کو آنسو گیس کے دھویں سے اٹا ہوا پایا۔قریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد مجھے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے ٹیلی فون کال موصول ہوئی کہ پولیس نے گولی چلا دی تھی‘ جس میں ایک طالبعلم 'عبدالحمید ‘ہلاک ہو گیا تھا۔مجھے بتایا گیا کہ طلبہ لاش کو ایوانِ صدر لے جانے پر بضد تھے اور چاہتے تھے کہ میں جلوس کی قیادت کروں۔ راولپنڈی میں اس پرانتشار استقبال کے بعد بھٹو صاحب بذریعہ ٹرین لاہور کے تاریخی سفر پر روانہ ہوئے جس میں راولپنڈی کے کئی طلبہ رہنما بھی اُن کے ہمراہ تھے۔راستے میں آنے والے سٹیشنوں پر ہزاروں لوگوں نے سرخ جھنڈوں والے اس قافلے کا بھرپور استقبال کیا۔ایوب خان کی حکومت کی جانب سے معزول کیے جانے کے بعد یہ بھٹو کا پہلا دورہ لاہور تھا۔وولپرٹ لکھتاہے :وہ دو سال کی فصاحت بھری خاموشی کے بعد لاہور آیا تھا اور نم آنکھوں کے ساتھ اُن ایک لاکھ یا اس سے بھی زیادہ نوجوانوں سے خطاب کر رہا تھا‘ جو اُس کی ایک جھلک دیکھنے کو ریلوے سٹیشن پر جوق در جوق اکٹھے ہوئے تھے۔جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ بھٹو نے محسوس کر لیا تھا کہ عوام کا مزاج ہر رکاوٹ کو پاش پاش کر کے تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا ہے۔اُس نے بالکل درست وقت پر ضرب لگائی۔13 اور 14 نومبر کو بھٹو سمیت بائیں بازو کے تمام رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔اس اقدام نے بپھرے ہوئے لوگوں کو اور بھی مشتعل کر دیا۔15 نومبر کو وکلا کے وسیع احتجاجوں نے عدالتی نظام کو بند کر دیا۔نومبر 1968ء کے آخر میں ایک عام ہڑتال نے راولپنڈی کو جام کر دیا۔طلبہ اور مزدوروں سے پولیس کے تصادم تمام روز جاری رہے۔بیرکوں سے فوج پورے دھیان سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔تقریباً ایک ہفتے بعد ایک اور عام ہڑتال نے 7 دسمبر کو ڈھاکہ کے نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیا۔اب کی بار پولیس کی فائرنگ سے کئی نوجوان ہلاک اور زخمی ہوئے۔بائیں بازو کے مقبول رہنما مولانا بھاشانی‘ جن کی نیشنل عوامی پارٹی نظریاتی طور پر مائوسٹ ماڈل سے قریب تھی‘ نے سارے مشرقی پاکستان میں مکمل ہڑتال کی کال جاری کر دی۔مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بھی بھاشانی کی کال کی پیروی کی اور مشرقی بنگال میں کاروبارِ زندگی رُک گیا۔
ایوب خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اُن کے اقتدار کے دن گنے جا چکے ہیں۔وہ عام لوگوں میں جانے سے یکسر قاصر ہو چکے تھے۔اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ فوج اس انتشار اور سیاسی مخالفت کو کچل سکتی ہے‘تاہم وہ حقیقت سے کوسوں دور تھے۔فوج ہندوستان سے تو لڑ سکتی تھی‘ لیکن انقلاب کو کچلنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
28 نومبر کو پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی نے مشترکہ مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا۔8 دسمبر کو ایوب خان نے ڈھاکہ کا دورہ کیا جہاں طلبہ نے اُس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔پولیس کی فائرنگ سے دو طلبہ جاں بحق ہوئے ۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی کال پر صحافیوں نے ملک گیر ہڑتال کی۔20 جنوری کو ایک کمیونسٹ طالب علم رہنما اسد کو پولیس نے قتل کر دیا۔اُس کی موت نے ملک میں طلبہ کی لڑاکا کارروائیوں کو شدید تر کر دیا۔21 جنوری کو ڈاکٹروں کا پہلا احتجاجی مظاہرہ لاہور میں ہوا جس میں ریڈیکل مطالبات پیش کیے گئے۔24 جنوری کو عام ہڑتال نے لاہور کو بند کر دیا۔شہر میں 24 گھنٹے کا کرفیو نافذ کر دیا گیا اور فوج کو تعینات کر دیا گیا‘تاہم ہزاروں عام لوگوں بالخصوص طلبہ نے سڑکوں پر آ کے کرفیو کی خلاف ورزی جاری رکھی۔25 جنوری کو کراچی میں بڑا مظاہرہ ہوا۔دنگا فساد بھی ہوا جس میں کئی بسوں کو آگ لگا دی گئی۔یہاں بھی پورے شہر پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر پر حملہ ہوا اور اسے آگ لگا دی گئی۔کراچی کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ‘ لاہور‘ ڈھاکہ اور کئی دوسرے شہروں میں کرفیو کے اوقات بڑھا دئیے گئے۔26 جنوری کو ڈھاکہ اور نارائن گنج میں کرفیو توڑنے والے تین لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔پوری تحریک کے دوران مشرقی اور مغربی پاکستان میں کل 239 لوگ ہلاک ہوئے۔ (جاری)