"DLK" (space) message & send to 7575

1968-69ء کی میراث: پیامِ انقلاب …(آخری حصہ)

صورتحال اس قدر دھماکہ خیز تھی کہ حکمران طبقات کے پالیسی سازوں نے سرمائے کی حکمرانی کو بچانے کے لئے حقیقتاً جنگ چھیڑنے اور آدھا ملک گنوانے کی قیمت ادا کرنا بھی گوارا سمجھی۔ اُس وقت تک پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو چکی انقلابی سوشلزم کی لہر نے باوردی محنت کشوں کے شعور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ 60 فیصد سے زیادہ سپاہیوں اور چھوٹے افسران نے سوشلزم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ بالائی افسران زیادہ تر منقسم تھے اور انہوں نے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا۔ کراچی کے ایک علاقے میں ایک ہزار سے زائد طلبہ نے ایوب خان کی مسلم لیگ کے ایک نمایاں رکن کے گھر کی طرف مارچ کیا۔ ہجوم کو دیکھ کر اُس نے گولی چلا دی جس سے ایک طالب علم شدید زخمی ہو گیا۔ اگلے دن تقریباً دس ہزار طلبہ نے اُس کی کوٹھی کی طرف پیش قدمی کی۔ طلبہ سے پوچھا گیا کہ کیا کرنے آئے ہو؟ جواب بڑا سیدھا تھا۔ طلبہ کوٹھی کو آگ لگانے آئے تھے۔ وجہ جان کر سکیورٹی پر مامور افسر نے اپنے یونٹ کو دوسری جگہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ طلبہ نے کوٹھی کو آگ لگا دی۔ ایسے بے شمار واقعات بھی ہیں جن میں افسران نے محنت کشوں اور طلبہ کے ہجوم پہ گولی چلانے سے صاف انکار کر دیا۔ اسی طرح کئی جگہوں پر مظاہروں کو کچلنے کے لئے تعینات کیے جانے والے پولیس اور فوج کے سپاہی مظاہرین کے ساتھ مل گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ طلبہ کی تحریک نے پورے سماج کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ محنت کش فیکٹریوں پر قبضے کر رہے تھے۔ معیشت مفلوج ہو چکی تھی۔ زرعی محنت کشوں اور دہقانوں نے جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضے کر لیے تھے‘ اور اُن کے پُر تعیش محلات کو آگ لگا رہے تھے۔ سپاہیوں اور چھوٹے افسران کی متحرک شمولیت سے جبر و استحصال کے سارے نظام کو ہی اکھاڑا جا سکتا تھا‘ لیکن ایسی سرکشی کو منظم کرنے کے لئے ایک انقلابی پارٹی درکار تھی‘ جو اگر موجود ہوتی تو انقلابی سوشلزم کی فتح یقینی ہو جاتی۔ 
26 مارچ کو ایوب خان نے اقتدار فوج کے سپرد کر دیا اور اپنے اختیارات جنرل یحییٰ خان کو تفویض کر دئیے۔ اعلیٰ فوجی قیادت انقلابی سرکشی کی کیفیت کو ریاست اور پورے نظام کے لئے سنجیدہ خطرہ گردان رہی تھی‘ لیکن جدید تاریخ کے عظیم اور طاقتور ترین انقلابات میں سے ایک اپنی منزل کا نشانِ راہ کھو چکا تھا۔ اس کی قیادت کے پاس ایک فیصلہ کن سرکشی کا کوئی تناظر، تیاری اور لائحہ عمل نہ تھا۔ یحییٰ خان نے مارشل لا کا اعلان کر دیا جس کی حمایت بورژوا سیاستدانوں، بائیں بازو کے رہنمائوں اور اصلاح پسندوں نے بیک زبان کی۔ ایوب خان سوات میں اپنے داماد کی جاگیر کی طرف روانہ ہو گئے‘ لیکن بعد ازاں وہ یحییٰ خان سے ملتے رہے۔ کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی کئی مہینوں کی سخت اور بے باک جدوجہد زائل ہو گئی۔ اقتدار پر ایک نیا فوجی شب خون مارا جا چکا تھا۔ مارکس نے 'لوئی بونا پارٹ کی اٹھارہویں برومیئر‘ میں لکھا تھا: ''بجائے اس کے کہ سماج اپنے لیے کوئی نیا جوہر تلاش کرتا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست اپنی سب سے پرانی صورت کی طرف لوٹ چکی ہے...‘‘۔ 
تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے اور موجودہ عہد کے زیادہ تر انقلابات میں عوامی عمل کی شدت اور حرکیات ہی قیادت کی پالیسی کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن اس عمومی کیفیت سے ایک استثنا موجود ہے: 1917ء کا بالشویک انقلاب‘ جب لینن، ٹراٹسکی اور دوسری بالشویک قیادت نے انقلاب کی روش اور مقدر کے تعین کا تناظر اور طریقہ کار پہلے سے تشکیل دیا تھا۔ زیادہ تر دوسری انقلابی تحریکوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک کی شدت اور رفتار‘ قیادت کو بھی حیران کر دیتی ہے اور اسے بے خبری میں آن لیتی ہے۔ پارٹی پالیسیوں میں تبدیلیاں عوام کے مزاج میں آنے والے اتار چڑھائو کی غمازی کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ایک انقلابی قیادت، جو صرف مارکسی نظریات اور وسیع کیڈر سازی کی اجتماعی بنیادوں پر ہی تعمیر ہو سکتی ہے، کے بغیر بائیں بازو کا پاپولزم اور حادثاتی قیادتیں اکثر و بیشتر انقلابات کو بد ترین تباہیوں سے ہی دوچار کرتی ہیں۔ اسی عمل کو ٹراٹسکی نے اپنے شاندار قول میں سمیٹا تھا: ''انسانیت کا تاریخی بحران آج انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ چکا ہے‘‘۔ 
عام حالات میں سماج کی سیاسی، ثقافتی اور نفسیاتی کیفیات کا تعین حکمران طبقات کی رجعتی اقدار اور روایات کرتی ہیں۔ سوچ، دانش، واقعات، اختلافات، صحافت اور سیاست وغیرہ کے ہر دھارے کو حکمران طبقات کے مفادات کے تابع اور سرمائے کی بالا دستی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؛ تاہم انقلابات اس سارے سماجی 'نظم و ضبط‘ کو بگاڑ کے رکھ دیتے ہیں‘ اور نہ صرف سماج کی روش بلکہ ساری تاریخ کا دھارا ہی موڑ ڈالتے ہیں۔ اس ملک اور خطے کے محنت کش عوام نے جبر و استحصال کے طویل عرصے دیکھے ہیں۔ کسی آتش فشاں کے اچانک پھٹ پڑنے کی طرح کئی بغاوتیں بھی کی ہیں‘ جن کی معراج ہمیں 1968-69ء کے انقلاب میں ملتی ہے۔ پاکستانی سماج کی سرکاری تاریخ حکمران طبقات کی تاریخ ہے۔ 1968-69ء کے ادھورے انقلاب کی تاریخ یہاں کے محنت کشوں کی تاریخ ہے۔ لیکن انہیں یہ ادھورا انقلاب ابھی مکمل کرنا ہے۔ انقلاب کو سوشلسٹ فتح سے ہمکنار کرنے کا فریضہ ادا کرنا ابھی باقی ہے۔ وگرنہ ساری تہذیب کے وجود پر بربریت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے تاریخی نصب العین کی جدوجہد میں اَن گنت گمنام سپاہیوں کا خون شامل ہے۔ محنت کشوں کی بے شمار نسلوں نے اپنی زندگیاں سرمایہ دارانہ غلامی اور استحصال کی اذیتوں میں گزاری ہیں۔ انہیں یہ طوق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اتار پھینکنے کو ایک بار پھر اٹھنا ہے۔ یہی تاریخ کا لکھا ہے۔ 
بقول فیض صاحب:
ہم دیکھیں گے‘ ہم دیکھیں گے 
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے 
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے 
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے 
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں 
روئی کی طرح اڑ جائیں گے 
ہم محکوموں کے پاؤں تلے 
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی 
اور اہل حکم کے سر اوپر 
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی 
جب ارض خدا کے کعبے سے 
سب بت اٹھوائے جائیں گے 
ہم اہل سفا مردودِ حرم 
مسند پہ بٹھائے جائیں گے 
سب تاج اچھالے جائیں گے 
سب تخت گرائے جائیں گے 
بس نام رہے گا اللہ کا 
جو غائب بھی ہے حاضر بھی 
جو ناظر بھی ہے منظر بھی 
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ 
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو 
اور راج کرے گی خلقِ خدا 
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں