"DLK" (space) message & send to 7575

مٹائے نہ مٹیں

ہر عہد کا کردار‘اس کی بہتری اور بدتری کے معیار‘اس کی خوشیاں اور غم بنیاد ی طور پر اس عہد اور معاشرے میںبسنے والی خلق کی بھاری اکثریت کی زندگی کے حالات‘ان پر حاوی رجعتی یا روشن خیالی‘ان کے سماجی اور باہمی رشتوں کی سچائیاں اور ہمدردیاں اور سب سے بڑھ کر مخلصی‘وفا‘جبر یا آزادی اور محرومی یا سہل ہونے کے عروج وزوال سے متعین ہوتے ہیں۔اور پھر ان سب چیزوں کا درومدار معاشرے میںموجود اقتصادی اور سماجی نظام کی کیفیت پر ہوتا ہے۔آ ج کے عہد میں دنیا کی وسیع تر آبادی جس انتشار‘خونریزی‘محرومی‘اکتاہٹ اور بیزاری سے لاحق ہے وہ اس عہد کے کردار کی غمازی ہی ہے۔آج دنیا بھر میںجمہوریت کے نام پرآمرانہ روش کا زہریلا جبر بھارت سے امریکہ‘چین سے روس‘برازیل سے لے کر پاکستان اور بے شماروں ملکوں میںشاید بظاہر نظر نہیں آتا‘ لیکن اس کی اذیت سے عام انسان گھائل ہوتے جارہے ہیں۔اس درد اور عذاب کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے‘لفظوں میں یہ بیان کرنا مشکل ہے۔معاشرہ اس کی گھٹن میں سسک رہا ہے۔آ ج کے حکمران پیسے کی جمہوریت کی آڑ میں جس بے دردی سے فرقہ واریت‘نسل پرستی‘مذہبیت‘ ذات پات اور ماضی کے تاریک تعصبات کو استعمال کررہے ہیںاس کی پہلے شاید ہی کوئی مثال پائی جاتی ہو۔سرمایہ داری کو تقویت دینے اور مزدوروں اور عام انسانوں کے استحصال کو مزید اذیت ناک بنانے کے لئے ریگنا مکس اور تھیچر ازم کے ذریعے جس درمیانے طبقے کووسعت دی گئی تھی وہی پیٹی بورژوازی اس نوفسطائیت کی سماجی بنیاد بنی ہے۔ایسے رجحانات اس طبقے کے موضوعی کردار میں شامل ہیں۔
اس وحشی یلغار کو جاری رکھنے کے لئے حکمرانوں نے طرح طرح کی چالبازیاں اور عیارانہ وارداتیں جاری کر رکھی ہیں۔برصغیر جنوب ایشیا کے ہر ملک میں یہ عمل جاری ہے۔بھارت میں بی جے پی اور خصوصاً نریندرا مودی کے حاکمیت میں مذہبی جنون کے ذریعے جبراور فسطائی سفاکی میں ہولناک شدت آئی ہے۔ شاید بٹوارے نے برصغیر کا یہ مقدر ہی بنا دیا تھا۔ان ہتھکنڈوں میں ایک خوفناک حربہ شہروں‘بستیوں‘چوراہوں‘گلیوں‘محلوں‘صوبوں‘سڑکوں اور علاقوں کے نام بدلنے کا ہے۔تہذیبوں اور روایات کو زہریلا بنانے میں بمبئی کا نام ممبئی‘مدارس کا نام چینائی‘کلکتہ کا نام کولکتا‘بنارس کا نام وارنسی میں بدلنے کا عمل پہلے ہی جاری تھا‘لیکن اب مودی سرکار نے مسلمان دشمنی کو سنگین تر کرنے کے لئے الہ بادکا نام پریا گنج اور ضلع فیض آباد کا نام ایودھیا رکھ کر ان شہروں کا کردار بدلنے کی کوشش کی ہے۔اس رجعتی مہم میں ان کی یہ بھی تیاری ہے کہ دہلی کا نام اِندرا پرستھا‘لکھنؤ کا نام لکشمن پور‘آگرہ کا نام آگیستا پوری اور احمد آباد کا نام کرناوتی رکھ دیا جائے۔تاج محل کا نام بدل کر رام محل اور حیدر آباد ( دکن) کا نام بھگیا نگرامو رکھ دیا جائے۔بھارت کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے اتر پریش کے پنڈت وزیر اعلیٰ جوگی ادیتا ناتھ نے اپنے شہر گورکھ پور میںاردو بازارکا نام ہندی بازار اور علی نگر کا نام آریہ نگر رکھ دیا ہے۔یہ واردات تعلیمی نصاب میں بھی گھسیڑی جار ہی ہے۔ثقافت‘فلم‘آرٹ اور دوسری فنون لطیفہ میں مذہبیت ٹھونس دی گئی ہے۔فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے بیشتر ایکٹروں نے اپنے اوپر اس مذہبی وحشت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔لیکن بمبئی فلم انڈسٹری میں ہی بہت سے فنکار اور ہدایتکار اس مذہبی جنونیت کے خلاف کم از کم آواز تو بلند کرتے رہتے ہیں۔ان اہم فلم سازوںمیںوشال بھاردواج اور مہیش بھٹ شامل ہیں۔لیکن صنعت کے مایہ ناز اداکار آشوتوش رانا تو ایک محفل میں پکار اٹھے 
بانٹ دیا اس دھرتی کو کیا چاند ستاروں کا ہوگا
ندیوں کے کچھ نام رکھے بہتی دھاروں کا کیا ہوگا
شیو کی کنگا بھی پانی ہے آب زم زم بھی پانی
ملاں بھی پیے‘پنڈت بھی پیے پانی کا مذہب کیا ہوگا
ان فرقہ پرستوں سے پوچھو کیا سورج الگ بنائو گے
ایک ہوا میں سانس ہے سب کی کیا ہوا بھی نئی چلائو گے
نسلوں کا کرے جو بٹوارا رہبر وہ قوم کا ڈھونگی ہے
کیا خدانے مندر توڑاتھا یا رام نے مسجد توڑی ہے
برطانوی سامراج نے برصغیر پر اپنے قبضے کے لیے جہاں جبر کا استعمال کیا تھا وہ اس کی سب سے عیار اور زہریلی پالیسی مذہب کے نام پر ''ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘ (تقسیم سے حکمرانی) ہی تھی۔یہ اپنے جنم سے ہی اتنا بوسیدہ تھا کہ معاشروں میں استحکام اور خوشحالی لانے کی بجائے غربت محرومی اور ذلت کی انتہا ئیں کردیں۔اس سے ابھرنے والی بے چینی اور انتشار نے جب محنت کشوں کی بغاوتوں کی شکل اختیار کی تو برصغیر کے حکمرانوں نے اسی تقسیم کے آلہ کار کوحقارتوں کے زہر میں سینچ کر یہاں کے محروم طبقات کے خلاف استعمال کیا۔طبقاتی یکجہتی میں دراڑیں ڈلوائیں اور اپنا ظلم وستم جاری رکھا۔یہاں کے بالادست طبقات یورپی سرمایہ داروں کے برعکس کسی ترقی پسندی اور روشن خیالی سے عاری تھے۔آج بھی بھارت کا امیر ترین سرمایہ دار مکیش امبانی مذہبی رسومات پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔اس کی بیٹی کا شادی کارڈ ہی پانچ لاکھ روپے سے زیادہ قیمت میں تیار ہوا۔جدید ترین ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کی دیوہیکل کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک جوتشی ضرو ر شامل کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی اداروں اور پیشواؤں نے مذہب کو ایک منافع بخش کاروبار بنا دیا ہے جس کے زیادہ تر عملی اقدامات میں دہشت گردی اور درندگی کے ذریعے اپنے خوف کی دھاک بٹھا کر عوام کو مغلوب کرنا اور ان کی بے بسی اور محرومی کی ذلت کے عالم میں ایسے آسروں پر انحصار کروانا مقصود ہوتا ہے‘ جن سے کبھی کوئی مصیبت ٹلتی نہیں ہے۔بس دلاسے ہوتے ہیں۔لیکن ہندومت کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں33کروڑ ویوی دیوتا ہیں۔یہاں تک کہ اب امیتابھ بچن کو بھی بھارت کے کئی علاقوں میں دیوتا بنا کرپوجا جاتاہے۔لیکن ہندوومت کی تخیلا تی تاریخ کے مطابق بھی ہندومت ہندوستان کے جنم کے بھی کئی صدیاں بعد معرضِ وجود میں لایا گیا۔لیکن اس سے کہیں پہلے دریائے''اندو‘‘‘جو اب دریا ئے سند ھ کہلاتا ہے‘کی تہذیب یہاں اپنی تاریخ رکھتی تھی۔چونکہ حکمران طبقات کی مسلط کردہ قدریں ہی سماج پر حاوی ہوتی ہیںاس لیے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی ثقافتوں او ر تہذیبوں میں اکثریتی ریت ورواج اور اقدار انتہائی رجعتی اور تاریک کردار کے حامل تھے۔لیکن اسی تاریخ میں عظیم بغاوتیں بھی ملتی ہیں۔اگر ہم زیادہ دور نہ بھی جائیں تو 1857ء کی جنگ آزادی‘1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے ابھرنے والے انقلاب اور پھر 1968-69ء میں پاکستان میں انقلابی سوشلزم کی تحریک جو فتح سے ہمکنار ہوتے ہوتے رہی گئی تھی ‘ تاریخ کے سنہرے باب ہیں‘ جن سے آج کی نسلیں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔اس انسان دشمن نظام کے خاتمے کے لیے یہاں سے رجائیت کا پیام ملتا ہے۔1947ء سے لیکر 1992ء تک جوسماجی تنزلی جاری رہی اس میں بے پناہ بغاوتیں ابھریں لیکن قیادت کے فقدان سے انقلاب برپا نہیںہوسکے۔
1992ء میں لال کرشن ایڈوانی نے جو رام مندر کی رجعتی تحریک چلائی اس سے بابری مسجد پر ہونے والی یلغار اوراس کے توڑے جانے کے بعد پاکستان میں بھی ایک ردعمل آیا اور بہت سے فنِ تعمیر کے شاہکار مندروں اور گردواروں کو زمین بوس کرایا گیا۔ا س سے رجعتیت زیادہ شدت اختیار کر گئی اور آج وہ دہشت گردی اور سماجی تعفن سے انسانی زندگی کو گھٹن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔لیکن برصغیر کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں آج بھی لوگ کرشن نگر‘رام گڑھ‘جین مندر‘دھرم پورہ‘لکشمی چوک اور درجنوں دوسرے مقامات کو رجعتی افسر شاہی کے بدلے ہوئے ناموں سے نہیں جانتے۔تاریخ کو مسخ کرکے ہونے والی حکمرانی کبھی کوئی بھلائی نہیں لاسکتی۔یہ اس عہد کی سفاکی کی علامت ہے۔لیکن یہ سب کچھ سرمائے کے ارتکاز کے لیے کیا جارہا ہے۔اسی سرمائے کے جبرواستحصال سے تنگ محنت کش اور تعفن و لاچارگی سے بے بس عوام جب بغاوت پر اتریں گے تو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نہ صرف انسانی معاشرے کو حقیقی آزادی سے نوازیں گے بلکہ یہاں کی تاریخ کی روشن یادگاروں کو آنے والی نسلوں کے لیے جمالیاتی لطافت کا ذریعہ بنائیں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں