"DLK" (space) message & send to 7575

وقت کی پکار

آج اخلاقی اقدار‘ ثقافت اور فن کے معیار گر گئے ہیں ۔ مذہبی بنیاد پرستی بظاہر طاقتور ہونے کے باوجود اندر سے کھوکھلی ہے ۔ رعونت اور جاہ و جلال کی بیش بہا نمائش کے باوجود حکمران بے اختیاراور بے بس ہیں ۔ ایک کے بعد دوسری اور اب تیسری ''جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوچکی ہے لیکن ریاست اور سیاست میں عوام کی نمائندگی موجود نہیں ہے ۔ بیمار لاعلاج ہیں اور بچے تعلیم سے محروم ۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اوربجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باوجود زندگی کو گھائل کرنے والے عذابوں کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ معاشی و سماجی انفراسٹرکچر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے اور حکمران بے نیاز ہیں ۔ وہ ایک کے بعد دوسرا ''منصوبہ‘‘ شروع کرنے میں مصروف ہیں ۔ منصوبے پہلے بھی بہت بنے ہیں اور آگے بھی بنتے رہیں گے‘ لیکن عوام کے بنیادی مسائل نہ پہلے حل ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام کی بنیاد پر سماج کا ہر ادارہ قائم ہوتا ہے اور معیشت چلتی ہے وہ خود مر چکا ہے ۔ سرمایہ داری اپنا وقت‘ اپنی مدت پوری کرچکی ہے ۔ یہ نظام دنیا کے کسی کونے میں انسانیت کو آسودگی اور آسائش دینے سے قاصر ہے ۔ کوئی بھی نظام جب تک پیداواری قوتوں کو ترقی دے رہا ہو‘ سماج کو آگے بڑھا رہا ہو‘ تب تک معیشت میں اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے کہ حکمران چھوٹی موٹی مراعات عوام کو دے کر پرسکون طریقے سے استحصال جاری رکھ سکیں ‘ لیکن ایک متروک نظام پر براجمان حکمران طبقے کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ جدوجہد کے تمام راستے بند کردئیے جائیں اور بے حسی کی آخری حدتک جاکر عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھین لیا جائے ۔ صحافت بھی حکمران طبقے کے ایجنڈے پر چلتی ہے اور ثقافت کے معیار بھی وہی طے کرتے ہیں ۔ انہوں نے عوام کے لئے صرف ملا‘مذہب اور اطاعت ہی چھوڑی ہے ۔ 
جب معیشت دم توڑ رہی ہو‘ عوام غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہوں‘ محنت کش طبقہ قیادت کی غداریوں سے بدظن ہوکر خاموش اضطراب میں مبتلا ہو‘ دہشت گردی اور قتل و غارت گری سماجی معمول کا درجہ اختیار کر جائیں‘ رشتے مٹ رہے ہوں اور احساس ماند پڑ جائیں‘ پورا معاشرہ بیگانگی اور نیم رجعت کی لپیٹ میں آ جائے‘ بیروزگاری اور ناخواندگی عام ہو‘ کوئی راستہ کوئی منزل نظر نہ آئے‘ بدعنوانی اور منافقت اخلاقیات کا درجہ اختیار کرلیں اور ہر طرف مجبوری و محکومی کا راج ہو تو سیاست بھلا کیسی ہوگی؟ ان حالات میں ریاست کی حالت کیا ہوگی؟ لیکن ریاست ٹوٹ پھوٹ اور بدترین داخلی انتشار کے باوجود بھی چل رہی ہے اور زمینی حقائق سے کوسوں دور ہونے کے باوجود بھی حاوی سیاست میں شور و غل مچا ہوا ہے۔ 
ہر عہد میں انسانوں کی انفرادی اور سماجی سوچ اور نفسیات مختلف ہوا کرتی ہے۔ ہر دور کے عروج وزوال میں انکی اپنی شناخت ان کے اپنے شعور میں بھی بدلتی رہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے قبل کے ادوار کے ہزاروں سالوں میں انسانوں کی تفریق اور پہچان عمومی طور پر مذہبی بنیادوں پر تھی۔ وہ اپنے آپ کو مذہبی امتوں کے جزوکے طور پر جانتے اور پہچانتے تھے۔ لیکن انہی ادوار میں ذات پات‘نسل‘ رنگ‘قبیلوں‘ فرقوں‘برادریوں اور دوسری بہت سی اقسام کی تقسیم تفریق اور پہچانیں بھی موجود تھیں۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک میں صنعتی انقلاب نے جس نئی قوم اور قومی ریاست کو تشکیل دیا‘ اس نے کم از کم ان معاشروں میں ماضی کی ان تفریقوں اور شناختوں کو بہت حد تک مٹا دیا تھا۔ لیکن پاکستان جیسے معاشرے جہاں کی بوسیدہ سرمایہ داری‘ صنعتی انقلاب کو برپا اور مکمل نہیں کرسکی تھی‘ وہاں ماضی کے یہ تمام تعصبات اور انسانوں میں تقسیم وتفریق نہ صرف موجودرہی بلکہ اس نظام کے بے ڈھنگے ارتقا کی طرح ان تفریقوں نے مذہبی فرقہ واریت سے لے کر برادریوں اور ذاتوں کی مزید بگڑی ہوئی اور مسخ شدہ شکلیں اختیار کرلی ہیں۔ لیکن یہ تمام تعصبات اور تعریفیں صرف ان ادوار میں حاوی ہوتی ہیں جب سماج ایک جمود‘ ایک ٹھہراؤ کا شکار ہوتا ہے۔ جب بھی محنت کش طبقہ تحریکوں میں اترتا ہے اس کی شناخت اور پہچان بدل جاتی ہے۔ سماجی مرتبوں کے اثرات الٹ جاتے ہیں۔ فلم‘ ادب اور فن میں محنت عظمت بن جاتی ہے اور امارت ایک ذلت‘ ایک شرمساری بن جاتی ہے۔ عام حالات میں لوگ اپنی امارت‘ اپنے خاندان اور اپنی جائیداد کے بل بوتے پر سماجی برتری کے گھمنڈ کا شکار ہو کر اپنی حیثیت اور شناخت کو آویزاں کرتے ہیں‘ لیکن انقلابی صورتحال میںیہ سب جدلیاتی طور پر اپنی نفی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ 
آج سرمایہ دارانہ معیشت اوراجارہ داریاں نہ صرف ماضی کی ان تفریقوں کو پامال کرچکی ہیں بلکہ قومی ریاست کے کنٹرول اور حدود کو توڑ کر آگے بڑھ گئی ہیں۔ لیکن ان ذرائع پر چونکہ آج بھی نجی ملکیت کی جکڑموجود ہے تو اس کو قائم رکھنے کے لیے اس کے خلاف بغاوتوں کو کچلنے اور طبقاتی جدوجہد میں دراڑیں ڈالنے کے لیے جہاں عالمی طور پر سامراج ہر طرح سے قومی شناخت اور ریاست کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کررہاہے‘ وہاں اس کو پرولتاریہ کو مزید مجروح اور خوف زدہ کرنے کے لیے پرانے تفرقوں اور شناختوں کونئی دشمنیوں اور تضادات میں الجھانے کاحربہ بھی استعمال کرناپڑرہا ہے۔ اسی واردات کے لیے انہوں نے ''تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا ''نظریہ‘‘ ایجاد کرکے اس کو پوری شدت سے مسلط کروانے کاعمل شروع کیا ہوا ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ 1968-69ء کے انقلاب کے دوران جب ریلیوں اور جلوسوں میں لوگ ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ایک تبدیلی‘ایک عظیم مقصد کے لیے قدم کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھ رہے ہوتے تھے‘ تو ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا جو ہاتھ انہوں نے تھاما ہو ا ہے وہ کسی ہندو کا ہے یا مسلمان کا‘ کسی عورت کا ہے یا کسی مرد کا‘کسی پنجابی کا ہے یا کسی بلوچی کا‘ کسی آفریدی کا ہے یا کسی راجپوت کا‘ کیونکہ ایک بڑے مقصد کی جدوجہد میں چھوٹے اور گھٹیا تعصبات غائب ہوجاتے ہیں‘اس لئے کہ انسان کی اپنی پہچان اور شناخت بدل جاتی ہے۔ مذہب اور دوسرے ماضی کے ہزار وں سال پرانے تضادات کو آج اجاگر اس لیے کیا جارہا ہے چونکہ موجودہ نظام اس سماج کو ترقی دینے اور اس کے ارتقاکو جاری رکھنے سے معذور ہوچکا ہے۔ ماضی کے اندھیروں کی نحیف آوازوں کا شور زیادہ اس لیے آتا ہے کیونکہ معاشرے میں سماجی جمود کا ایک ہولناک سناٹا ہے۔ لیکن یہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں۔ جب یہ ٹوٹے گا تو حشر ہوگا۔ سوچیں بدلیں گی‘ شناخت بدلے گی اور حوصلے اور جرأتیں جاگیں گی۔ 
لیکن اس دیوہیکل ریاست اور سرمائے کی بیش بہا طاقت کے باوجود بھی یہ حکمران خوفزدہ ہیں۔ ان کا تذبذب بے معنی بیانات‘ مسلسل بنتی بگڑتی پالیسیوں‘ مردہ باڈی لینگویج اور بیزار لہجے سے ظاہر ہے۔ یہ بے وجہ کی بیان بازیاں اور الزامات‘ یہ بے موقع نورا کشتیاں یونہی تو نہیںہواکرتیں۔ سماج کی اس ساکت سطح کے نیچے ایک ہلچل بپا ہے۔ ایک خلفشار اور بے چینی ہے‘ جسے حکمران بھی محسوس کررہے ہیں۔ یہ جتنی بھی کوشش کرلیں سماج کی حرکت کو ختم نہیں کرسکتے۔ وقت کی پکار کو ہمیشہ کے لئے نہیں دبا سکتے۔ تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے۔ تحریک میں تاخیر کا ازالہ اس کی شدت‘ معیار اور حجم سے ہوجاتا ہے۔ ذلت سے نجات کی جدوجہد انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔ عوام کی دبی ہوئی صدا حشر برپا کرے گی ۔ آج یہ معاشرتی سکوت‘ سماجی جمود‘ عوام کی خاموشی اور محنت کش طبقے کی مایوسی کسی بڑے بھونچال کا پتہ دے رہے ہیں ۔ وہ طوفان جو اس نظام کو حکمران طبقے کی سیاست‘ ریاست‘ معیشت‘ ثقافت اور اقدار سمیت اکھاڑ کر رکھ دے گا ۔ ان حکمرانوں کو اپنی حماقتوں پر پچھتانے کا وقت بھی نہیں مل پائے گا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں