وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے سرکاری دورۂ ترکی میں وہاں کے سرمایہ داروں اور کاروباری حضرات سے ایک اہم ترین خطاب کیا۔ خان صاحب نے زور دے کر التجا کی کہ ترکی کے صنعت کار اور مال دار افراد اور کمپنیاں پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے ترغیب دیتے ہوئے کہا ''پاکستان میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر سمیت بہت بڑی سرمایہ کاری کے امکانات ہیں۔ (ریاستی جانچ پڑتال کرنے والے اقدامات) ختم کیے جا رہے ہیں‘ جن سے ان کو سرمائے کی منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی‘ اور سرمایہ کاری کے لئے تمام ''موافق‘‘ اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس دولت کا سہانا خواب ترک دھنوانوں کو دکھایا جا رہا تھا، کیا وہ درختوں پر اُگتی ہے یا پھر پاکستان کی زمین میں ایسے کوئی خزانے دفن ہیں جن کو ان تعمیرات کی کھدائی کے دوران یہ سرمایہ کار دریافت کر کے اپنے ملکیت بنا سکیں گے؟ سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ جن دیو ہیکل منافعوں اور دولت کے حصول کا لالچ دیا جا رہا ہے وہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ دولت ڈالروں کی بوچھاڑ سے نہیں پیدا ہو گی۔ یہ سرمایہ کار پاکستان کے محنت کشوں کی خون پسینے کی محنت نچوڑ کر اور یہاں کے قدرتی اور سماجی وسائل بروئے کار لا کر وہ منافعے کما سکیں گے جن کا خان صاحب کو ان کے ماہرین معاشیات نے تازہ سبق پڑھایا ہے۔
پہلے تو ترکی میں ہی ابھی کافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ طیب اردوان کی حاکمیت میں ترکی کی پچھلے کئی سالوں کی تیز رفتار ترقی کی اب ہو ا نکل چکی ہے۔ 'لیرا‘ ٹکے ٹوکری ہو چکا ہے اور اردوان خود دنیا بھر میں خصوصاً یورپ‘ امریکہ‘ روس اور قطر سے سرمایہ کاری کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ 2008ء کے عالمی سرمایہ دارانہ کریش کے بعد بین الاقوامی طور پیداواری اور بیشتر دوسری صنعتوں میں شرح منافع اتنی گر گئی کہ سرمایہ کاری سے خسارہ ہونا شروع ہو گیا۔ بڑے بڑے بین الاقوامی صنعتی مگر مچھوں نے کھربوں ڈالر خفیہ بینکوں کے لاکروں میں رکھے ہوئے ہیں۔ کھربوں ڈالر کی نوادرات تجوریوں میں بند ہیں ۔ جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری آئی ٹی، آرٹیفیشل ٹیکنالوجی، تعمیرات اور دیگر چند شعبوں میں ہو رہی ہے‘ ایسی سرمایہ کاری سے پیشتر مختلف حکومتوں سے ہولناک قسم کی شرائط پہلے منوائی جاتی ہیں۔ پہلی حکومتیں بھی ان مالیاتی اجارہ داریوں کی مزدور دشمن اور محنت کی قاتل شرائط کو مانتی رہی ہیں‘ لیکن موجودہ تو مزدوروں کے خلاف نئی انتہائوں پر سرمایہ کاری کی سختی مسلط کرنے پر آمادہ ہے۔ اس حکومت کی بے ہنگم کارکردگی اور بوکھلاہٹ اور ''یو ٹرنز‘‘ پر مبنی پالیسیوں سے ملک میں اقتصادی و سماجی خلفشار بہت بڑھ گیا ہے۔ کلاسیکی سرمایہ داروں کی حکومت کسی طرح کے سیاسی استحکام کے لئے کئی قسم کی سیاسی وارداتیں کر کے معیشت کو چلانے کی کوشش کرتی ہے‘ لیکن ایسے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت ''چور سپاہی‘‘ کھیلنے میں زیادہ مشغول ہے۔ اس نظام میں اب استحکام لانا کسی بھی حکومت کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سابقہ تیسری دنیا کے ممالک میں ان سرمایہ کاروں کی اپنے ہی ممالک میں ایسی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ جیسے مندی کے دور میں بازاروں میں ایجنٹ گاہکوں کو اپنی دکانوں اور کھوکھوں کی جانب کھینچتے ہیں۔ ان چھوٹے موٹے کمیشن ایجنٹوں اور غریب ممالک کے حکمرانوں کا کردار قطعاً مختلف نہیں ہوتا۔ لیکن پھر سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے لئے کسی نہ کسی حد تک سرمایہ کاری تو کرنا پڑتی ہے۔ گو بیشتر حکومتیں اور ریاستی خزانے خالی ہیں لیکن اپنی حاکمیت، سماجی کنٹرول کی خاطر اور معاشرتی بگاڑ اور جمود و بغاوتوں سے بچنے کے لئے حکومتیں مسلسل داخلی اور خارجی قرضے حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔
ان حالات میں سرمایہ دارانہ نظام کے جنم سے اب تک تقریباً 300 سال کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ دنیا کا ہر سرمایہ دارانہ ملک اور ریاست بری طرح مقروض ہے۔ اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں امریکہ اور چین دنیا کی سب سے مقروض ریاستیں بھی بن چکی ہیں‘ لیکن جب قرضہ بہت بڑھ جائے تو پھر معیشت اور کرنسی بھی اندر سے کھوکھلی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لئے نجی شعبے کی سرمایہ کاری لانے کی کوششیں کی جاتی ہیں‘ لیکن نجی شعبے کے مگر مچھ اتنے بھولے نہیں ہیں کہ وہ ''سالمیت‘‘ ، ''حب الوطنی‘‘ اور ''ملکی استحکام اور ترقی‘‘ جیسے جذبوں سے سرشار ہو کر اپنی دولت کو اس غیر یقینی سرمایہ کاری میں غرق کر دیں۔ وہ ریاستوں سے پیشگی گارنٹی لیتے ہیں کہ ان کو منافع دینے کا بنیادی فریضہ ریاست کا ہو گا اور اگر ریاست یہ نہیں دے گی تو اس کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اور جرمانہ بھی بھرنا پڑے گا۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت والی ریاست کو پہلے ہی ریکوڈک اور سینڈک جیسے چند منصوبوں میں اربوں ڈالر کے جرمانے بھرنے پڑے ہیں۔ اسی طرح سامراجی اور مقامی سرمایہ داروں نے پاکستان میں خصوصاً بجلی اور چند دوسرے بڑے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ حکومتیں ان کی مہنگی بجلی خرید کر عوام کو سستی فراہم کرنے پر مجبور ہوتی ہیں‘ کیونکہ ہر سرمایہ دارانہ حکومت کو محنت کش عوام کے غیظ و غصب سے مسلسل خوف لاحق ہوتا ہے‘ چاہے اس کے ماہرین اور ٹاک شوز کے فنکار چلا چلا کر طبقاتی جدوجہد اور سوشلزم کی موت کا اعلان ہر روز کرتے جائیں۔ حکومتیں‘ IPPs یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پرڈیوسرز، کو پورے نرخ ادا کرتی ہیں‘ پھر چاہے بجلی بکے نہ بکے یا سرکار کو کچھ حاصل ہو یا کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ سرکاری خزانے کے اس نقصان سے بجٹ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ جنم لیتا ہے۔ اور حکومتوں کو مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اس کے لیے آخر کار آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا پڑتا ہے۔ لیکن پھر آئی ایم ایف‘ بجلی، گیس، پانی، زراعت، تعلیم، علاج معالجہ اور دوسرے لا تعداد شعبوں میں حکومتی سبسڈی ختم کرنے کے مطالبات پر زور دیتا ہے۔ نواز شریف حکومت نے آئی ایم ایف سے 2013ء میں جو قرضے لیے تھے ان کی ادائیگی تو کرنا ہی تھی‘ لیکن وہ عوام پر سرکاری چھوٹ اور رعایتوں کے خاتمے کی شرائط کو گول کر گئے۔ اسی لیے ان کی حکومت سے سامراجی بھی نالاں تھے کیونکہ ''ہو جائے گا‘‘ ، ''کر دیں گے‘‘ ، ''بس دو چار دن‘‘ وغیر ہ کی لفاظی سے وہ آئی ایم ایف کو لٹکاتے رہے‘ کیونکہ عوام کی بغاوت کا خوف میاں برادران کو کھائے جا رہا تھا۔ لیکن یہ عوام کی بجائے طاقت کے سر چشموں کے ہاتھوں مارے گے۔
اس نظام زر میں ہر معاشی، سیاسی، ریاستی عمل اور کارروائی کا آخری دارومدار مالیاتی امور پر ہوتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ کاروبار ہی اولین ترجیح پاتا ہے۔ مزدوروں، دہقانوں اور غریب عوام کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کبھی کسی مزدور یونین سے ملاقات نہیں کی۔ فوقیت اور توجہ چیمبر آف کامرس، سٹاک مارکیٹ ، سرمایہ کاروں اور کالی دولت کے دھنوانوں کیلئے مختص ہو کر رہ گئی ہے۔ اس نظام میں ہر ٹھیکہ اور پراجیکٹ کسی ضرورت کیلئے کم اور اس سے حاصل ہونے والے مالیاتی فوائد اور منافع جات کیلئے زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے۔ اپوزیشن والے ایک بڑے ٹھیکے کو ایک سطحی سیاسی ایشو بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگیں، زرداری اور ملائوں کی پارٹیاں بھی رزاق دائود صاحب کی بہت عزت کرتی ہیں‘ کیونکہ ان کے آبائواجداد ان سرمایہ داروں میں شامل تھے‘ جنہوں نے پاکستان بنانے کیلئے بلینک چیک دیئے تھے اور آج تک اس ملک کی معیشت پر انہی کی حاکمیت ہے۔ گو معیشت میں کالی دولت کے دھنوان اب بڑے حصہ دار بن چکے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بحران میں عوام کا کوئی مقدر نہیں ہے۔ منڈی کے راج میں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ نظام بدلنا ہو گا ورنہ اسی نرکھ میں سسکنا اور سلگنا پڑے گا۔ یہ منڈی کا راج ہے۔ اس راج میں حاکمیت دولت کی رہے گی۔ محنت کو کچلا جائے گا۔ لیکن محنت کے بغیر (چاہے کتنی ہی جدید ٹیکنالوجی آ جائے) دولت کا جنم نہیں ہو سکتا۔ اب ترکی اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں سے اس محنت کی پیدا کردہ دولت کو بھاری منافعوں کے نام پر لوٹنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ لیکن جو محنت یہ دولت پیدا کرتی ہے وہ اتنی بھی بے خبر نہیں ہے۔ اس محنت کش طبقے کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے‘ لیکن کچھ بھی ہو جائے اس کا سماجی اور اقتصادی کردار نہیں بدلا۔ اسے اپنی معاشی اور معاشرتی طاقت کا ادراک ہونے کی دیر ہے‘ پھر محنت کو اپنی پیدا کردہ دولت حکمرانوں سے چھیننے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔