سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ دور کی سیاست اور حاکمیت کا عوام کے دکھوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی ڈھانچے پر مسلط مالدار کھلاڑی اب ''غریبوں کی سیاست‘‘ کا کوئی زیادہ ڈھونگ بھی نہیں کرتے۔ محنت کش عوام کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ اس سیاست اور نظامِ حاکمیت میں ان کا کوئی نمائندہ‘ کوئی نجات دہندہ نہیں ہے۔ لیکن ہر عہد کی طرح موجودہ دور کے ذرائع ابلاغ، سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا میں نوجوانوں اور عوام کے ایک اقلیتی حصے کی مداخلت مختلف طرز کی ہے۔ پہلے اخباروں کے ذریعے تھڑوں، قہوہ خانوں اور حماموں میں سیاسی بحث ہوا کرتی تھی، تکرار بھی ہوتی تھی‘ تلخیاں بھی کافی ہوتی تھیں۔ بہت سی بسوں، ریل ٹرانسپورٹ، ریستورانوں اور پبلک اجتماع کے دیگر مقامات پر عام طور پر بورڈ لگا دیا جاتا تھا کہ ''یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ ان جگہوں پر دوسرے مقامات کی نسبت سیاسی ''گفتگو‘‘ زیادہ ہی ہوا کرتی تھی۔ ایسے بورڈ زیادہ تر آمریتوں کے ادوار میں لگائے جاتے تھے۔ موجودہ جمہوری لبادے کی جابرانہ حاکمیت میں میڈیا تو آزاد ہے لیکن نظام کے خلاف بات کرنا‘ اور عوام کے اذیت ناک مسائل کے حل کے لیے کوئی پروگرام کرنا ممنوع ہے۔ جبر‘ ریاست کا کم اور سرمائے کا زیادہ ہو رہا ہے۔
لیکن جب تحریکیں ابھرتی تھیں‘ اور سیاسی جدوجہد میں معاشرے کے عام باسیوں کی کچھ امیدیں جاگ اٹھتی تھیں‘ تو پھر یہ بحثیں بہت گرم ہو جایا کرتی تھیں‘ اور تحریک کے بڑھتے ہوئے زور سے ہی ان مقامات پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی تھی کہ ریڈیکل نظریات اور عوام کی سیاست کا غلبہ نمودار ہو چکا ہے۔ موجودہ عہد میں جہاں 2007ء کے بعد کوئی ملک گیر بڑی عوامی تحریک نہیں ابھری‘ ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے۔ طبقاتی جدوجہد کی پرکھ‘ تجزیہ کرنے والوں کے عدم تحرک اور نئی نسل کے اس عملی تجربے سے نا آشنا ہونے سے بہت سے موضوعات بھی بدل گئے ہیں۔ سیاسی فکر‘ انفرادی اور شخصی ہو گئی ہے۔ اخلاقیات گر گئی ہیں اور طعنہ زنی و گالی گلوچ آج کے کامیاب سیاست دانوں کی پہچان بن گیا ہے۔ سیاسی لیڈر‘ سیاسی نوسربازوں کو ایسے پروان چڑھاتے اور ان کو ایسی عزت و مرتبت دیتے ہیں کہ روایتی بالا دست طبقات کی سیاست کے اقدار و روایات بھی تضحیک کا شکار ہوتی ہیں‘ ایک شدید تنائو اور تفریق کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ اور ایسے چلتے ہوئے ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد عام لوگ الیکٹرانک میڈیا کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں جیسے کسی کو نشے کی لت لگ جاتی ہے۔ ہر نشہ کرنے والا ذی شعور انسان یہ جانتا ہے کہ یہ نشہ اس کے لیے جسمانی اور نفسیاتی طور پر کس قدر نقصان دہ ہے۔ تحریکوں کے ٹھہرائو اور عوام کی سیاسی ہلچل کے فقدان کی کیفیت میں ایک جامد معاشرے میں تعفن، بدبو اور گھن حاوی ہو جاتے ہیں۔ ان سے فرار کے لیے عوام کے بہت سے حصے اس لت کا شکار ہو کر ٹاک شوز کے تماش بین بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر درمیانے طبقے کا غلبہ پایا جاتا ہے۔ ایسے ایشوز جن کا زیادہ تعلق پیٹی بورژوا مسائل سے ہوتا ہے‘ سوشل میڈیا پر زیادہ ہی وائرل ہوتے ہیں۔
2011ء کے مصر سے لے کر ہنگری تک‘ دنیا بھر کی بیشتر حالیہ تحریکوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان تحریکوں کو سوشل میڈیا نے ہی منظم کیا ہے، اور بلا شبہ سوشل میڈیا نے ایک اہم کردار ادا بھی کیا ہے۔ لیکن جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو تحریکیں تب بھی ابھرتی تھیں، اب سے کہیں بڑے پیمانے پر طوفانوں کی طرح معاشروں کو لپیٹ لیتی تھیں؛ البتہ فی الوقت سوشل میڈیا سے منظم ہونے والی کسی تحریک نے بھی معاشرے کو بدل دینے والا کوئی انقلاب برپا نہیں کیا‘ جبکہ ماضی کے مختلف طرز کے ذرائع ابلاغ اور باہمی روابط کے طریقوں سے ایسی بھی تحریکیں ابھریں‘ جنہوں نے تاریخ کے دھاروں کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
لیکن مسئلہ کسی مخصوصی ذریعہ ابلاغ کا نہیں ہے۔ ہر دور کے ذرائع ابلاغ اپنے عہد اور ترقی سے استوار ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ کون سی گھڑی ہوتی ہے‘ جس میں انفرادی طور پر بکھرے ہوئے لوگ ایک مخصوص لمحے میں ایک طرح سے سوچتے ہیں، زندگی کے ٹھوس سلگتے ہوئے ایشوز کے گرد تحریکیں ابھرتی ہیں اور پھر رائج الوقت سیاست، شخصیات اور حکومتوں کو الٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ فرانس کی حالیہ ''پیلی جیکٹوں‘‘ والی تحریک ایک ایسی ہی بغاوت کا آغاز تھی۔
یہاں اس بات کا بھی ادراک رکھنا لازم ہے کہ حکمران طبقات، ان کی شہرہ آفاق شخصیات، ان کے سپورٹس پرسنز، ان کے فلمی و غیر فلمی اداکار و فنکار، ان کے مذہبی پیشوا، ان کے ٹیلی ویژن کے سٹار (جن میں اب نام نہاد سیاست کے پروگرام کرنے والے اینکر سب سے زیادہ مقبول ہیں) ان کے امرا اور سائنس دان، سرکاری مفکر و تجزیہ نگار، لکھاری و پجاری اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے درمیانے اور بالا دست طبقے کے یہ افراد بنیادی طور پر حکمرانوں کے نظام، نظریے اور حاکمیت کو عوام پر مسلط کرنے کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر صرف سیاست کا ہی جائزہ لیا جائے تو ایک طوفانِ بد تمیزی کے باوجود یہ متحارب سیاسی سپوک پرسنز اور پارٹی نمائندے اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ نجی محفلوں اور مراعات کی مصلحت میں وہ ایک دوسرے سے مکمل تعاون کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ پوری مروجہ سیاست ہی ایک کٹھ پتلی تماشے یا کسی بازیگر کی جادوگری یا کسی علمِ نجوم کی فنکاری سے زیادہ مختلف نہیں لگتی۔ ان تمام کا مقصد عام انسانوں کی توجہ بٹانا اور شعور اور سوچ کو مائوف کر کے ان کے ذہن کو اپنی فنکاری سے قابو میں لانا ہی ہوتا ہے۔
اس سیاست میں کلیدی کردار دولت کا ہوتا ہے‘ اور دولت اس بحران زدہ نظامِ زر میں جبر، طاقت اور غندہ گردی کے بغیر آ نہیں سکتی۔ جبر‘ استحصال سے شروع ہو کر درندگی پر مبنی مشقت تک ایک طویل سلسلہ ہے۔ کسی کی محنت کو لوٹے بغیر کوئی امیر اور دھنوان بن نہیں سکتا‘ اور دھن کے اس نظام میں کوئی ایسا شعبہ نہیں‘ جس میں دولت کی طاقت کو کوئی زیر کر سکے۔ دولت‘ حاکمیت کی طاقت خرید لیتی ہے اور بڑے بڑے ''نیک نامی‘‘ ، ''غریب پروری‘‘ ، '' نظریاتی لگن‘‘ اور ''دیانتداری‘‘ کی سیاست کے دعویداروں کے ضمیر بھی قبضے میں کر لیتی ہے۔
یہی دولت‘ ذرائع ابلاغ، رائج الوقت میڈیا اور عوام کی پہنچ تک کے تمام فعال ذرائع کو بھی زیر کیے ہوئے ہے۔ ایسے عام معمول کے حالات میں لوگ ایسی سیاست میں دلچسپی لینے اور اس لت کا شکار ہونے پر مجبور ہوتے ہیں‘ لیکن زندگی کی ٹھوس حقیقت اور اذیت ناک تلخیاں ان کے اندر ایک طوفان کو بھی بھڑکا رہی ہوتی ہیں۔ محنت کرنے والے عام انسان، اس سیاست اور میڈیا کی نفسیاتی و معاشرتی گرفت میں، حکمرانوں کی اسی نمائندہ سیاست کے مختلف دھڑوں کی طرف داری کے جال میں جکڑے جاتے ہیں۔ لیکن یہ جکڑ عارضی اور مصنوعی ہوتی ہے‘ کیونکہ اس کائنات کی ہر شعبے کی طرح انسانی معاشرہ بھی تغیر اور ارتقا کا شکار ہے۔ یہ ارتقا ایک ہی رفتار اور سمت میں نہیں ہوتا بلکہ اس میں دھماکہ خیز اچانک تبدیلیاں اس کو مقداری سے معیاری تبدیلی کا شکار کر دیتی ہیں۔ یہاں بسنے والوں کے حوصلے، سوچ، ہمت، جرأت، پرکھ اور جستجو کے معیار اور اقدار ہی بدل جاتی ہیں۔ اس سیاست اور حاکمیت نے صرف دکھ، تکلیف، محرومی، ذلت اور بربادی کو ہی مقدر بنا دیا ہے‘ لیکن جب معاشرے میں انقلابی ارتعاش پیدا ہوتا ہے تو وہ کسی آتش فشاں کے لاوے سے کم طاقت والی بغاوت پیدا نہیں کرتا۔ سماج کا یہ کیمیائی عمل جاری ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں اس تضاد کا ایک براہِ راست تصادم میں پھٹنا ناگزیر ہے۔ یہ تو ہو کر رہے گا۔ تحریک بھی بھڑک کر رہے گی۔ یہ کائنات اور تاریخ کا قانون ہے۔ مارکس نے راستہ اور فریضہ بہت واضح کر دیا تھا۔ ''فلسفیوں نے دنیا ( اور معاشرے) کی صرف تشریح کی ہے مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے‘‘۔ یہ نظام اپنی موت مرے گا نہیں‘ لیکن انسانوں کی بربادی کے علاوہ دے بھی کچھ نہیں سکتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ بغاوت ایک بھاپ بن کر زائل ہو جائے گی یا ایک قوت بن کر انقلاب برپا کرے گی‘ فیصلہ انقلابی پارٹی کی تیاری اور تعمیر کرے گی۔