"DLK" (space) message & send to 7575

وینزویلا میں سامراجی جارحیت

ویسے تو وینزویلا میں پچھلے 20 سالوں سے مغربی سامراج کی مداخلت ایک بتدریج زہریلی سازش کے تحت جاری تھی‘ لیکن پچھلے چند روز میں یہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ امریکی سربراہی میں ہونے والی یہ سامراجی مداخلت کئی حوالوں سے 1977ء کے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اکھاڑنے والی مداخلت سے ملتی جلتی ہے‘ لیکن وینزویلا میں ابھی تک ان کو شاید کوئی ضیاء الحق نہیں مل سکا۔ 22 جنوری کی رات امریکی نائب صدر مائیک پنس (جو کئی حوالوں سے ٹرمپ سے بھی زیادہ رجعتی ہیں) نے ٹیلی ویژن پر اس سازشی لائحہ عمل کا اعلان کر دیا‘ جس کے بعد وینزویلا کی پارلیمنٹ کے سپیکر جوہان گوائیڈو (Juan Guaido) نے بغیر کوئی ووٹ حاصل کیے وینزویلا کے صدر ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ اس سازش کو ٹرمپ کے تسلیم کرنے کے بعد برازیل کے فسطائی صدر سے لے کر ارجنٹینا، کولمبیا اور پیرو سمیت لاطینی امریکہ کے دائیں بازو کے دیگر رجعتی حکمرانوں نے گوائیڈو کو ''صدرِ وینزویلا‘‘ کی حیثیت سے ''تسلیم‘‘ کر لیا۔ اس سے ان سامراجی گماشتوں کی جمہوریت پسندی بے نقاب ہوئی ہے‘ لیکن برازیل کے لاکھوں محنت کشوں نے سڑکوں پر احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے امریکی سامراج کی دراندازی کے خلاف شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔
میکسیکو، نکاراگوا، کیوبا اور بولیویا سمیت لاطینی امریکہ کی بائیں بازو والی حکومتوں نے اس واردات کو سامراجی مداخلت اور حکومت کی ناجائز تبدیلی قرار دیتے ہوئے وینزویلا کے صدر نکولاس مدورو کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ سامراجی مداخلت سے پیدا ہونے والے اس خلا نے عالمی طور پر ایک ''نئی سرد جنگ‘‘ کی سی فضا پیدا کر دی ہے۔ روس، چین، ترکی، شام اور کئی دوسرے ممالک نے اس سامراجی شب خون کی مخالفت کی‘ اور نکولاس مدورو کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے‘ لیکن یورپ کی بڑی سامراجی طاقتیں جرمنی، برطانیہ، فرانس، سپین وغیرہ نے امریکی سامراج کی کاسہ لیسی اور وینزویلا میں ناجائز تبدیلی کی ابھی تک ناکام واردات کی حمایت کر دی ہے۔ 26 جنوری کے اقوام متحدہ کی 15 ممبران پر مشتمل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منافقت اور دھوکہ دہی کی انتہا پر مبنی اپنی تقریر میں کہا کہ ''تمام قوموں کو آزادی کی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے... اب ہر ملک کو دھڑا چننا ہو گا۔ اب چال نہ چلیں یا تو آپ آزادی کی طاقتوں کے ساتھ ہیں یا پھر مدورو اور اس کی بربادی کے ساتھ‘‘۔ دنیا بھر کے عوام اور حکومتوںکو یہ امریکی سامراج کا الٹی میٹم تھا‘ جس نے ''آزادی‘‘، ''جمہوریت‘‘ اور ''انسانی حقوق‘‘ کے نام پر حال ہی میں افغانستان، شام اور عراق کو تاراج کیا اور اسی آزادی کے نام پر لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ لاطینی امریکہ کی تاریخ سامراجی جارحیتوں، خونریزیوں اور آمریتوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کی معزولی اور مقبول بائیں بازو کے لیڈروں کے قتال سے بھری پڑی ہے۔ کیوبا پر 1961-62ء کا حملہ، چلی میں 1973ء کی پنوشے کی آمریت اور تسلط ہنڈراس، کولمبیا، ارجنٹینا، نکارگوا، گریناڈا، برازیل اور اس خطے کے ہر ملک میں امریکی سامراج کی جارحیت کے زخموں کا درد آج بھی محنت کش عوام محسوس کرتے ہیں۔
وینزویلا آج ایک شدید اقتصادی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ گو دنیا کے بہت سے ممالک ایسے بحرانوں کا شکار ہیں‘ لیکن عالمی کارپوریٹ میڈیاکے تمام سرمایہ دارانہ نیٹ ورک وینزویلا کے بحران کے بارے میں واویلا کچھ زیادہ ہی مچائے ہوئے ہیں۔ سبھی ''سوشلزم‘‘ اور ''مدورو‘‘ کو اس بحران کا مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ کسی کو بتانے کی توفیق نہیں کہ جب سے 1998ء میں منتخب ہونے والے ہوگو شاویز نے سامراجی احکامات کو ماننے سے انکار کیا‘ سامراجیوں نے وینزویلا میں PSUV کی حکومت کو گرانے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھی ہیں۔ 2002ء میں فوجی اشرافیہ کے ایک حصے کے ذریعے شاویز کو معزول کرکے قید کیا گیا تو لاکھوں عوام نے تاریخ کے میدان میں اتر کر اس فوجی غداری کو ناکام بنایا‘ اور 36 گھنٹوں میں شاویز دوبارہ صدر بن گیا تھا۔ آج کے اس بحران میں سب سے کلیدی کردار سامراجیوں اور ان کی حواری ریاستوں کا وینزویلا کے خلاف اقتصادی سبوتاژ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاویز نے جس ''21ویں صدی کے سوشلزم‘‘ کا نعرہ دیا تھا‘ اس سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل کرنے اور سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑنے میں وہ ناکام رہے۔ وینزویلا کے رجعتی سرمایہ دار طبقے کی معاشی طاقت کا خاتمہ ان کے نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن تھا۔ شاویز اور اس کے پسندیدہ جانشین نکولاس مدورو کی سامراج دشمن جدوجہد پر سامراجی ایجنٹ (جو وینزویلا کے بالادست اور درمیانے طبقے میں موجود ہیں) ہی اندر سے وار کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ بھی درست ہے کہ آج جس سامراجی جارحیت اور معزولی کا خطرہ مدورو کو درپیش ہے اس میں اس کی انقلاب مکمل نہ کر سکنے کی خطا سرفہرست ہے۔ لیکن اس سے سامراجی سبوتاژ اور جمہوریت و آزادی کے نام پر ردِ انقلاب کی یلغار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سامراجی وینزویلا کے عوام کے وسائل، اثاثے اور دولت کو لوٹنا چاہتے ہیں۔ PSUV ان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اس غصے اور انتقام میں انہوں نے پہلے وینزویلا کو تاراج کرنا شروع کیا‘ اب اس کی بربادی پر قبضہ کرکے استحصال کی انتہا کرنا چاہتے ہیں۔ سرمائے کی اشرافیہ پر مشتمل حزب مخالف زیادہ تر درمیانے طبقات کی حمایت رکھتی ہے۔ شاویز اور PSUV کی تاریخی ریڈیکل اصلاحات میں تعلیم، علاج، ٹرانسپورٹ، رہائش اور دیگر سہولیات کی ریاست کے ہاتھوں سہل فراہمی شامل تھی۔ اسی وجہ سے ان کی حمایت کی بنیادیں اب تک وینزویلا کے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ اصلاحات تیل کی دیوہیکل صنعت کو قومی تحویل میں لے کر اس کی آمدن کو براہ راست سماجی اصلاحات کے لئے وقف کر دینے کی پالیسی کی بنیاد پر ہوئی تھیں۔ لیکن تیل کی قیمتوں میں شدید گراوٹ، سامراجی تجارتی و اقتصادی پابندیاں، معیشت کا سبوتاژ اور سی آئی اے کی براہ راست سیاست اور ریاست میں فنڈنگ و مداخلت اس حکومت کے عدم استحکام اور بحران کا باعث بنے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ، افراطِ زر اور اشیائے صرف کی قلت بھی انہی اقتصادی حملوں کی وجہ سے شدت اختیار کر گئی ہیں۔ اس بربادی کی ذمہ داری مدورو سے کہیں زیادہ امریکی و مغربی سامراجیوں اور وینزویلا کی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن گوائیڈو کو ابھار کر جعلی صدارت کا دعویٰ کروانے کا سامراجی اقدام وینزویلا کی سالمیت پر ایک مجرمانہ وار ہے۔ اس کا سبق یہ ہے کہ ''سانپ کو پہلے چھیڑو مت! چھیڑو تو پھر چھوڑ مت‘‘۔ ادھورا انقلاب اور سوشلزم کا نعرہ لگانے اور سرمایہ داری و مالیاتی اجارہ داری کو جڑوں سے ختم نہ کرنے سے دشمن کو وہ راستے ملتے ہیں‘ جن سے وہ کاری ضرب لگا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک سامراجی اور ان کا گماشتہ گوائیڈو فوجی ہائی کمان کی حمایت حاصل نہ کر سکے۔ یہ توازن بدل بھی سکتا ہے۔ نظریاتی طور پر کسی کمٹمنٹ اور وقف ہوئے بغیر ذہن اور ضمیر بک سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ چال ناکام ہوتی ہے اور گوائیڈو جعلی صدارت حاصل نہیں کر سکتا‘ تو سامراجی بوکھلاہٹ، ضد بازی اور ذہنی پراگندگی کے عالم میں اتنے آگے آ گئے ہیں کہ وینزویلا پر ہولناک معاشی حملہ کرنے کے باوجود اگر حکومت کا خاتمہ نہ کر سکے تو وہ انتہا پسندی کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے بہانے سامراجی براہِ راست فوجی جارحیت پر اتر آئیں۔ لیکن اس سے ان کو کامیابی نہیں بلکہ مزید بڑی ذلت اور شکست فاش ہو گی‘ کیونکہ ایسے اقدام سے وہ صرف وینزیلا کے محنت کش عوام میں ہی نہیں‘ بلکہ پورے لاطینی امریکہ کے عوام میں پہلے سے موجود سامراج دشمن بغاوتی طوفان کو مشتعل کر دیں گے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عوام نے تلخ ترین حالات میں وینزویلا کے ساتھ ساتھ بولیویا، نکاراگوا، ایکواڈور، برازیل، ارجنٹینا، چلی اور دوسرے بہت سے لاطینی امریکی ممالک میں ''سوشلسٹ‘‘ یا ''سوشل ڈیموکریٹ‘‘ کہلانے والی حکومتیں منتخب کرکے اقتدار میں بھیجیں‘ لیکن ان حکومتوں نے انقلابی سوشلزم سے گریز کیا جس کے نتیجے میں لاطینی امریکہ میں ابھرنے والی یہ سوشلسٹ لہر پسپا ہو گئی۔ دائیں بازو کی حکومتیں اب سامراجی پشت پناہی اور عوام دشمن نیولبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ساتھ حملہ آور ہیں۔ یہ غصہ لاطینی امریکہ کے معاشروں کی کوکھ میں پک رہا ہے۔ سامراج کا وینزویلا پر حملہ لاطینی امریکہ کو عراق، افغانستان یا شام نہیں بلکہ سامراج دشمنی کے ایک انقلابی طوفان کو ابھارے گا‘ جو نہ صرف سامراجی مفادات بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ریاستوں اور بنیادی ڈھانچوں کو بھی اکھاڑ کر فنا کر دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں