وزیر خزانہ اسد عمر نے دبئی سے واپسی پر بیان دیتے ہوئے کہا ''آئی ایم ایف کسی ہمدردی کے تحت معاہدے نہیں کرتا بلکہ ٹھوس مقاصد اور اقدامات کے معاہدے کرتا ہے‘‘۔ لیکن یہاں کے بد نصیب عوام کو ان ٹھوس اقدامات سے روشناس نہیں کروایا گیا۔ ماضی کے ہر معاہدے کی طرح یہ معاہدہ بھی ''ٹھوس اقدامات‘‘ پر مبنی تو ہو گا لیکن موجودہ دور میں عالمی سرمایہ دارانہ بحران ایک وحشت و شدت کا روپ دھار چکا ہے‘ ایسے میں یہ شرائط کہیں زیادہ تباہ کن ہوں گی۔ جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے بحران کی شدت اور ''پچھلے‘‘ حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی اور جنونی شور کے نیچے عوام پر ہولناک مہنگائی، بیروزگاری اور ذلت کی یلغار کر دی گئی ہے۔ درمیانے طبقے کی نچلی پرتیں، محنت کش اور غریب عوام جس اذیت کا شکار ہیں‘ اس کی کسک اور تڑپ سے معاشرہ مجروح اور گھائل ہو رہا ہے۔ عمران خان کے مسلسل تیز ترین دوروں کے دوران پالیسی بیانات میں ان ممالک کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کروانے اور بھاری دولت بٹورنے کیلئے کھل کر ریاستی معاونت کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ ساتھ ساتھ پچھلی حکومت اور کرپشن کی روایتی لفاظی چونکہ ہر بیان کا حصہ ہوتی ہے اس لیے اس مفروضے کا تڑکا بیرونی دوروں میں کی جانے والی تقریروں کا بھی لازمی جزو ہے۔
پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ جس دولت کو لوٹنے کا لالچ دیا جا رہا ہے وہ یہاں کی محنت اور وسائل کے استحصال پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ کار کسی محبت اور ہمدردی یا گہری دوستی کی بنیاد پر سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ لیکن اپنی منافع خوری کے لئے وہ جو مراعات مانگ رہے ہیں وہ اتنی زیادہ لہو چوسنے والی ہیں کہ ملک میں کوئی ترقی تو درکنار یہاں کے باسیوں کی زندگیاں مزید محرومی اور استحصال کا شکار ہو جائیں گی۔ ان سے نہ صرف مہنگائی بڑھے گی بلکہ بیروزگاری میں شدید اضافہ بھی ہو گا۔ موجودہ معاشی بدحالی کے باعث اور پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اگر پانچ ماہ میں سات لاکھ سے زیادہ مزدور بیروزگار ہوئے ہیں تو اس کے اقتدار کے ہر ایک دن میں کتنے لوگ روزی سے محروم ہوئے ہوں گے۔
بیرونی اور قومی سرمایہ کاروں کو پہلے سے جو مراعات حاصل ہیں‘ ان میں کسی ٹیکس کے بغیر سو فیصد منافع کی آزادانہ منتقلی، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ، پنشن اور اجرتوں میں لازمی اضافے سے چھوٹ اور مزدوروں کو یونین سازی کے حق سے محروم کرنے کی شقیں شامل ہیں۔ ایک طویل عرصے سے محنت کش طبقے پر جو معاشی جارحیت جاری ہے‘ اس میں زندہ درگور ہونے والے مزدوروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کم از کم اجرت بھی مزدوروں کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کے تقریباً 7 کروڑ صنعتی مزدوروں میں سے صرف ایک فیصد کے قریب یونینوں میں منظم ہیں۔ یونین سازی کے نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں کو اپنا کوئی مطالبہ پیش کرنے سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت مستقل ملازمتوں کے خاتمے کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور اب تو سامراجی اجارہ داریوں کی صنعتوں میں بھی دیہاڑی دار مزدوروں کی اکثریت ہو گئی ہے۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ مزدور پر اس حد تک وار ہوئے ہیں اور یہ اس حد تک پٹ چکا ہے کہ اب یہ ہمیشہ کے لئے تابع اور رام ہو گیا ہے۔ ان کے ماہرین کی سوچوں کے مطابق مزدور طبقے میں لڑنے کی ہمت ٹوٹ چکی ہے اور یہ بڑی بڑی سامراجی یونیورسٹیوں سے ''پڑھے‘‘ ہوئے بڑے بڑے معیشت دان اور معاشرتی ماہرین بنیادی طور پر 'فرانسس فوکویاما‘ کے اس فرسودہ نظریے پر لاشعوری طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ''تاریخ کا اختتام ہو چکا ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں ان کا یہ بیانیہ بن چکا ہے کہ طبقاتی کشمکش ختم ہو چکی ہے اور اب ایک نئے سماج میں نئے آلات نے مزدور طبقے کی من حیث الطبقہ حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔ وہ کارل مارکس کے اس سادہ اصول کو بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جب تک معاشرے میں طبقات موجود ہوں تو طبقاتی کشمکش اسی طرح موجود ہوتی ہے‘ جیسے زمین کی کشش ثقل ہوتی ہے۔ لیکن ایک زندہ معاشرے میں یہ اتار چڑھائو کا شکار رہتی ہے، کبھی طویل وقفوں کے لئے دب کر خاموش ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ مرتی کبھی نہیں۔ حالات اور واقعات سے یہ پھر بھڑکتی ہے اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک نئے سماج کی جستجو میں آگے بڑھتی ہے۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے کے بعد اس حکومت کے اقدامات نے مزدوروں میں ایک اشتعال پیدا کیا ہے۔ جہاں موجودہ نیم فسطائی حاکمیت نے آزادیٔ رائے پر قدغنیں لگائی ہیں وہاں محنت کشوں کی تحریکوں پر بھی بھاری سنسرشپ عائد ہے۔ لیکن جب مزدور تحریک زور پکڑتی ہے تو پھر ہر جبر کی دیوار کو چیر کر منظر عام پر آ جاتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ دور کے اضطراب میں اضافے اور بغاوت کی پہلی ہلچل ہمیں مزدور طبقے کے گڑھ کراچی میں 8 فروری کو نظر آئی۔ ایک طویل عرصے سے کراچی پریس کلب کے باہر پورٹ قاسم کے گودی مزدوروں کے احتجاج میں محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کی شمولیت سے ایک ریلی نکالی گئی۔ یہ ٹاور تک گئی اور اس میں پانچ ہزار سے زائد مزدور شریک تھے۔ اس کی حدت اتنی زیادہ تھی کہ کراچی کے انقلابی مزدور راہنما عثمان بلوچ بزرگی میں بھی جوان ہو گئے اور ایک گاڑی میں جانے کی بجائے ایک نئے جذبے سے سرشار پیدل آگے بڑھنے لگے۔ اس میں مزدوروں، پی آئی اے، سٹیل ملز، کراچی الیکٹرک، فشریز، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور دوسرے اداروں کے مزدوروں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ نہ صرف مختلف اداروں کے مزدوروں کی بٹی ہوئی یونین دوبارہ یکجا ہو رہی ہیں‘ بلکہ مزدور تحریک میں ہونے والی ہلچل سے نئے حوصلے اور جرأت کے جذبات بھی ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جمہوریت کے لبادے میں جو مزدور دشمن جارحیت شروع کی ہے اس کے خلاف اسمبلی میں سرمایہ دارانہ پارٹیوں کی اپوزیشن بھی مزاحمت نہیں کر رہی۔ لیکن یہ ظلم محنت کشوں کو کچل نہیں سکے گا۔ مزدوروں پر ہونے والا معاشی ظلم بھی انسانوں کو زندہ درگور اور پورے معاشرے کی زندگی کو برباد کر رہا ہے۔ ان کا جینا دشوار کر رہا ہے۔ اس معاشی قتل و غارت سے محنت کش طبقے کا خون ہو رہا ہے‘ لیکن اس ظلم کے خلاف بغاوت اور انقلاب کے نئے قافلے بھی نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ساحر نے اس ظلم کے انت کو اپنی ایک بے مثال نظم میں خوب پیش کیا تھا۔
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمتِ ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
.........
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
.........
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے