عالمی سطح پر دائیں بازو اور سامراجی یلغار کا نشانہ بننے والے وینزویلا کے منتخب صدر 'نکولاس مدورو‘ نے ''یورو نیوز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ سامراجی اور ان کے ایجنٹ سازش اور شب خون کے ذریعے اس کی حکومت کو الٹانے میں مکمل طور پر ''نا کام و نا مراد‘‘ رہے ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے تسلیم کیا ہے کہ ''(مدورو کے خلاف) مہم اپنی قوت کھو رہی ہے اور اس کی ہوا نکل رہی ہے‘‘۔ امریکہ کے وینزویلا پر خصوصی ایلچی الیٹ ابرامز (جو جنگی جرائم میں سزا یافتہ سامراجی بیوروکریٹ ہے) نے بدھ کو واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ''مدورو کے خاتمے کی پیش گوئی کرنا نا ممکن ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ آغاز میں امریکہ نے مالیاتی، سفارتی و سیاسی اور عسکری بنیادوں پر جو دبائو ڈالا تھا اور ایک بڑا دھچکا دے کر وینزویلا کی سوشلسٹ پارٹی (PSUV) کی حکومت گرانے کی جو سازش کی تھی‘ اس میں اس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دنیا کے 50 کے قریب ممالک (جن میں خصوصاً یورپ اور لاطینی امریکہ کے ممالک شامل ہیں) نے ایک ایسے فرد کے خود ساختہ صدر ہونے کے دعوے کو تسلیم کیا ہے‘ جس نے نہ کوئی الیکشن لڑا اور نہ ہی کوئی ووٹ حاصل کیا ‘ اور نکولاس مدورو‘ جو مئی 2018ء کے صدارتی الیکشن میں 67 فیصد ووٹ حاصل کرکے جیتا، کو غیر قانونی اور غیر آئینی صدر قرار دے دیا۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکی سامراجیوں کی سربراہی میں ہی پچھلے 20 سالوں سے جاری اقتصادی پابندیوں‘ سیاسی وارداتوں اور سازشی ہتھکنڈوں کی وجہ سے وینزویلا میں براہِ راست معاشی بحران، افراطِ زر اور اشیائے صرف کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے تین جارحانہ مزاج والے وزرا اور مشیران مائیک پومپیو ( وزیر خارجہ) جان بولٹن (قومی سلامتی کا مشیر) اور الیٹ ابرامز کی شہ پر وینزویلا پر فوج کشی اور براہِ راست حملے کی دھمکی بھی دے دی۔ یورپی حکمرانوں نے امریکی سامراج کی گماشتگی میں اس پالیسی کی بھی پیروی کی لیکن پھر اپنی روایتی منافقت اور دوہرے معیاروں کی سفارت کاری کے تحت جعلی مذاکرات کی رٹ لگانا شروع کر دی۔ اب ایسے لگ رہا ہے کہ سامراجیوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اپنی روایتی براہِ راست فوجی جارحیت کی کارروائیوں کو جاری رکھ سکیں۔ امریکہ کے اندر بھی عوام کے بڑھتے ہوئے دبائو کے تحت ڈیموکریٹک پارٹی (جس کی پالیسیاں ٹرمپ اور ریپبلکنز سے زیادہ مختلف نہیں ہوتیں) کو بھی فوجی مداخلت کے طریقہ واردات کو مسترد کرنا پڑ گیا ہے۔ برنی سینڈرز کا کھل کر سوشلزم کے نام کا پرچار کرنا نئے امریکہ میں نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن کی غمازی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر سامراجی جارحیتوں کے خلاف فیصلہ کن کردار امریکہ کے اندر نوجوانوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کا ہی رہا ہے۔ جہاں ننگے پائوں لڑنے والے ویت نام کے گوریلوں نے ویت نام کے جنگلوں میں امریکی سامراج کو مات دی‘ وہاں امریکہ میں 1968ء کے بعد چلنے والی ''جنگ کے خلاف‘‘ تحریک نے سامراجیوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔
سامراجیت کا مطلب ہی نوآبادکاری، جارحیتیں، جنگیں اور مختلف خطوں پر قبضہ گیری ہے۔ ہر سامراجی طاقت کی یہی تاریخ ہے۔ انہی جارحیتوں سے سامراج ابھرے اور انہی کی وجہ سے اپنی زوال کی کیفیت میں نیست و نابود ہوئے۔ امریکی سامراج نے وحشیانہ جارحیتوں سے جہاں دنیا بھر میں مختلف تہذیبوں اور خطوں کو تاراج کیا‘ وہاں اس نے بر اعظم امریکہ کو اپنی جاگیر ہی سمجھ لیا ہے۔ لاطینی امریکہ پر قبضے اور اس کو اپنی جاگیر بنانے کے لئے تو امریکی سامراج نے قانون بھی مرتب کیا۔ یہ سامراجی پالیسی 1823ء کی مونرو ڈاکٹرائن (Manroe Doctrine) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس پالیسی کو امریکہ کی سرکاری خارجہ حکمت عملی کا جزو بنانے والا امریکی صدر جیمز مونرو تھا۔ 1823ء تک لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک یورپی سامراجیوں خصوصاً سپین اور پرتگال کی براہِ راست حاکمیت سے آزاد ہو چکے تھے۔ اس دور میں روسی زار شاہی کا بھی بر اعظم امریکہ پر الاسکا سے لے کر آرئیگان تک قبضہ تھا۔ یورپی سامراجیوں کی پسپائی کے دوران امریکی صدر جیمز مونرو نے اپنے وزیر خارجہ جان کوئنسی آڈمز (John Quincy Adams) کے مشورے پر کانگریس میں یہ اعلامیہ پیش کر دیا۔ اعلامیے میں بر اعظم امریکہ پر صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کے اثرورسوخ کو جائز قرار دیا گیا اور یورپی سامراجیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اس اعلامیے میں ''پرانی‘‘ اور ''نئی‘‘ دنیا کو واضح طور پر تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں واشنگٹن نے پورے خطے پر اپنے تسلط کو قانونی حیثیت دے دی تھی۔ حالانکہ اس وقت امریکی سامراج کی فوجی اور نیول طاقت اتنی نہیں تھی کہ وہ یورپی سامراجیوں کو شکست دے سکتا۔ اس کا اظہار 1833ء میں برطانوی سامراج کے فاک لینڈ کے جزیروں پر قبضے اور 1845ء میں فرانسیسی سامراجیوں کے ارجنٹینا کے سمندری گھیرائو کے دوران ملا۔ 1904ء میں امریکی صدر روزویلٹ نے امریکہ کو خطے کی ''بین الاقوامی پولیس پاور‘‘ تک قرار دے دیا تھا۔ 1930ء کی دہائی تک امریکہ نے اس پالیسی کے تحت پیوٹروریکو، کیوبا، پاناما، کولمبیا اور چند دوسرے لاطینی امریکی ممالک پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ کر لیا تھا۔ 1962ء میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بھی کیوبا کو محصور کرنے اور اس پر تجارتی بندشیں لاگو کرنے کا جواز ''مونرو ڈاکٹرائن‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد 1945ء سے اب تک امریکی سامراجیوں نے لاطینی امریکہ کے 18 ممالک میں فوجی شب خون اور دوسرے ہتھکنڈوں سے حکومتوں کو سبکدوش کرکے اپنے پٹھوؤں کو حاکمیت دلوائی۔ اسی طرح گوئٹے مالا ‘ہونڈراس‘ ایل سلواڈور اور نکاراگوا میں دہشت گرد گروہوں کو مسلح کرکے ہولناک خونیں خانہ جنگیاں کروائیں۔ 1973ء میں چلی کے سوشلسٹ صدر سلواڈور آلاندے کا تختہ الٹ کر اس کو قتل کروایا‘ اوراپنے پالتو آمر پنوشے کے ذریعے 80,000 کے قریب سوشلسٹ اور کمیونسٹ کارکنان اور مزدوروں کا قتل عام کروایا۔ اس خطے کا ہر ملک امریکی سامراج کی وحشت ناک جارحیتوں کا شکار رہا ہے۔ آج بھی اس خطے میں جارحیت کیلئے مونرو ڈاکٹرائن کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ کے سابقہ وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اپنے بیان میں کہا ''(مونرو ڈاکٹرائن) آج بھی اتنی ہی متعلقہ ہے جتنی اس دن تھی جب یہ لکھی گئی‘‘۔ امریکی گماشتے گوائیڈو کو صدر بنانے کی سامراجی واردات کے بعد وینزویلا کے صدر نکولاس مدورو نے کہا تھا ''ان کی کوئی دوستی‘ کوئی وفا نہیں ہوا کرتی، ان کے بس مفادات ہوتے ہیں اور (اس واردات کے پس پردہ) وینزویلا کے تیل، سونے اور گیس کے ذخائر لوٹنے کی ہوس ہے‘‘۔
وینزویلا اور پورے خطے میں بحران ابھی جاری ہے۔ گو اپنی موجودہ معاشی، فوجی اور سیاسی تنزلی کی وجہ سے سامراجی کسی حد تک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن سامراجی گدھ منڈلا بھی رہے ہیں‘ اور حملے کے لئے دبائو بھی بڑھا رہے ہیں۔ برطانوی سامراج نے اپنے بینکوں میں پڑا وینزویلا کا 31 ٹن سونا ضبط کر لیا ہے۔ امریکی سامراجیوں نے 11 ارب ڈالر کی تیل کی واجب الادا رقم دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مدورو پر دبائو مزید بڑھ رہا ہے۔ ہر قسم کا سبوتاژ کا عمل جاری رہے گا۔ سامراجی باز آنے والے نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ مدورو اور سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کے ساتھ کسی معاہدے کا پاس رکھیں گے۔ ایسے میں مذاکرات کا راستہ بھی مسدود ہے۔ اب مدورو اور سوشلسٹ پارٹی قیادت کو ایک جرأت اور ہمت درکار ہے۔ یہ جرأت وینزویلا میں سرمایہ داری کو جڑوں سے اکھاڑنے کے عمل کے لیے چاہیے۔ بی بی سی کے مطابق ''مدورو کے مخالف مظاہرین درمیانے اور بالا دست طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اس کی حمایت کرنے والے آج بھی وینزویلا کے محنت کش طبقات اور محروم پرتیں ہیں‘‘۔ اگر اس انقلاب کو مکمل نہیں کیا جاتا تو پھر سامراجیوں کو ایک سرمایہ دارانہ وینزویلا میں کہیں نہ کہیں کوئی موقع، کوئی جرنیل یا کوئی اور غدار ضرور مل ہی جائے گا‘ جو سامراجی عزائم کے تحت حکومت کو سبکدوش کرنے کی سازش کو پورا کروا دے‘ کیونکہ منڈی کی معیشت میں ضمیر سمیت سب کچھ بکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کی تکمیل میں ہی مدورو، سوشلسٹ پارٹی اور وینزویلا کے عوام کی نجات اور سرفرازی ہے۔ اس کی عدم تکمیل سامراجیوں کیلئے محض راستے ہی ہموار کرے گی۔ اس طبقاتی کشمکش سے صرف وینزویلا ہی نہیں پورے لاطینی امریکہ کا مقدر جڑا ہوا ہے۔ انقلاب اور رد انقلاب کی اس جنگ میں سب کو حصہ لینا چاہئے۔