پچھلے اڑھائی سالوں سے برطانیہ کے حکمران بریگزٹ کی گمبھیرتا میں خود بھی گھرے ہوئے ہیں اور یہاں کے عوام کو بھی الجھاتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ عمومی طور پر اس سے برطانیہ کے معاشرے کی سیاسی اور نفسیاتی پراگندگی اتنی بڑھ گئی ہے اور اس ''علیحدگی‘‘ یا ''طلاق‘‘ کی حمایت اور مخالفت کرنے والے خود اتنے تذبذب کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کو اب اپنے ہی مؤقف پر شکوک و شبہات ہونے لگے ہیں۔ ''بریگزٹ‘‘ کا حل برطانوی حکمران طبقات کے جس دھڑے نے دیا تھا ایک تحفظاتی منڈی اور ''قومی محدودیت‘‘ کی معیشت میں اس کے اپنے چند مخصوص مفادات تھے۔ لیکن جس طرح خصوصاً یورپی معیشتوں کا آپس میں گہرا انسلاک اور مداخلت ہو چکی ہے‘ اس سے معیشت اور تجارت‘ یہاں تک کہ سیاسی و سماجی عناصر کو زبردستی کھینچ یا چیر کر علیحدہ کرنا پورے نظام کو مزید مجروح کرنے اور موجودہ بحران کو زیادہ شدید کرنے کے مترداف ہے۔ پہلے تو بریگزٹ کا سوال ابھرنا اور اس کو بطور حل پیش کیا جانا ہی ان معیشت دانوں کے دیوالیہ پن کی غمازی کرتا ہے۔ آج کی عالمگیریت پر مبنی بین الاقوامی معیشت کی سنگین بحرانی کیفیت میں ٹرمپ سے لے کر برازیل کے بالسنارو تک کے دائیں بازو کے جابر حکمران قوم پرستی اور قومی معیشت کی نعرے بازی تو کر سکتے ہیں‘ لیکن کوئی بڑا اقدام نہیں کر سکتے۔ ٹرمپ نے چین پر 200 ارب ڈالر کی تجارتی پابندیاں تو لگا دیں‘ لیکن پھر چند ہفتوں میں ہی چینی اور امریکی معیشت دانوں کے درمیان مذاکرات اور نا پائیدار معاہدوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ یورپی یونین سے علیحدگی میں یہ ''معجزہ‘‘ پیش کیا جا رہا تھا کہ برسلز کی تجارتی اور اقتصادی شرائط سے آزاد ہو کر برطانیہ کی معیشت سہل اور عوام کے مسائل حل ہو گئے۔ یہ فریب دیا گیا کہ بیروزگاری کا پھیلاؤ اور غربت میں اضافے کی وجہ دوسرے ممالک سے آنے والے مزدور ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اب شرح منافع قائم ہی نہیں رکھ سکتا‘ لیکن اب جب عملی طور پر علیحدگی کا وقت آیا ہے تو تلخ حقائق آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ایسے حقائق کہ اس سے معاشی تیزی کی بجائے تیز ترین تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے برطانوی معیشت کو کاری ضرب لگ سکتی ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے جس ڈیل کی منظوری ہوئی اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تھریسا مے کو برطانوی پارلیمان کی منظوری درکار ہے‘ جس میں اسے شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس سے قبل اپنی کابینہ سے بھی تھریسا مے نے اِس معاہدے کی منظوری بڑی مشکل سے لی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ زبردستی لی تھی۔ کابینہ کے چند ارکان نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اس معاہدے کے تحت برطانیہ یورپی یونین کے کنٹرول میں ہی رہے گا‘ اور یہ صحیح معنوں میں بریگزٹ نہیں بلکہ دھوکہ ہو گا۔ اب برطانوی پارلیمنٹ میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ تھریسا مے کی دائیں بازو کی ٹوری پارٹی کے بہت سے زیادہ قدامت پسند اراکین بھی اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں اگر برطانوی وزیر اعظم اپنی شدید بحران کا شکار پارٹی میں موجود پھوٹ پر قابو پا لیتی ہے‘ تب بھی پارلیمنٹ سے منظوری بہت مشکل ہے۔ لیبر پارٹی کے علاوہ ڈی یو پی، ایس این پی اور لبرل ڈیموکریٹس بھی مجوزہ معاہدے کے خلاف ہیں۔ لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کاربن نے اِس معاہدے کو ایک بیہودہ مذاق اور بکواس قرار دیا ہے‘ ان کے خیال میں جس سے ''کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔‘‘ جبکہ برطانیہ کے بڑے سرمایہ داروں اور بینکاروں کے مفادات اسی قسم کے 'بریگزٹ‘ سے وابستہ ہیں جس کی نمائندگی تھریسا مے کر رہی ہیں۔
فی الوقت شدید تناؤ میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ تھریسا مے کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے اور انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کی باتیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم تھریسا مے نے ایسی کوئی ضمانت دینے سے بھی انکار کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بریگزٹ ڈیل کی عدم منظوری کی صورت میں مستعفی ہو سکتی ہیں۔ لیکن تھریسا مے کو فارغ کیے جانے کے امکانات کو بھی مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ اِس صورت میں ٹوری پارٹی کی پوری حکومت ہی دھڑام سے گر سکتی ہے کیونکہ اتحادی جماعتوں کے دور ہو جانے کے بعد اس کے پاس مطلوبہ اکثریت باقی نہیں رہے گی۔ یوں اس کے بعد واحد راستہ نئے انتخابات کا بچے گا‘ جن میں جیرمی کاربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔
بریگزٹ اپنے آغاز ہی سے یورپی اور برطانوی سرمایہ داروں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی اور وہ اس ریفرنڈم کے غیر متوقع نتائج آنے کے بعد سے اپنے مالیاتی مفادات کے تحفظ کی کوششوں میں سرگرم تھے۔ برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپ ایک بنیادی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانوی سرمایہ داروں کے لئے یورپی منڈی بہت محدود ہو جائے گی کیونکہ ان کے برآمدات پر محصولات عائد ہونے لگیں گی۔ یہ رکاوٹیں برطانوی کاروباریوں کو شدید نقصان پہنچائیں گی اور بڑے معاشی بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ ایسے میں تھریسا مے دراصل برطانوی سرمایہ داروں کی ان تکالیف کو کم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں جس سے بریگزٹ کے حامی رجحانات رکھنے والے خوش نہیں ہیں۔ اگر تھریسا مے کو عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیا جاتا ہے تو ٹوری پارٹی کے پاس وزارت عظمیٰ کے لئے کوئی متفقہ امیدوار موجود نہیں ہے‘ جس کے باعث نہ صرف ٹوری پارٹی بلکہ برطانوی سیاست کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔ لیبر پارٹی قبل از وقت انتخابات کی کال کا پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے۔ لیکن اس ادھورے معاہدے کی کیفیت میں اگر لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آتی ہے تو بریگزٹ کا سوال خود اس کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا؛ تاہم اگر کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہو پاتا تو برطانیہ کو یورپی یونین سے بنا کسی معاہدے کے علیحدگی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے‘ جو ایک کریش لینڈنگ سے مماثل ہو گی اور جسے 'ہارڈ بریگزٹ‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
عالمی مالیاتی بحران کے آغاز کے بعد ایک دہائی گزرنے کے باوجود پوری دنیا میں سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے جو مختلف شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ایسے میں برطانیہ میں یہ صورتحال زیادہ حیران کن نہیں ہے‘ جو اس وقت پیدا ہو چکی ہے۔ شدت اختیار کرتا یہ سیاسی بحران اور معاشی گراوٹ‘ دونوں عوامل آنے والے دنوں میں بھی کئی دھماکہ خیز واقعات کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روایتی پارٹیاں زوال پذیری کا شکار ہیں اور عوام میں اپنی ساکھ کھوتی جا رہی ہیں‘ لیکن بریگزٹ کے اس بحران نے برطانوی معیشت اور حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاست اور پارلیمانی نظام کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ اس پارلیمان میں جس قدر تذبذب، فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان، عدم اعتماد، دھوکہ دہی اور سیاسی شعور کی پستی نظر آتی ہے‘ اس سے دنیا بھر کے عام انسانوں پر اس ''پارلیمانوں کی ماں‘‘ کا سیاسی، اخلاقی اور قانونی دیوالیہ پن عیاں ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے‘ لیکن پھر میڈیا نے بریگزٹ کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کے محنت کشوں کے حقیقی ایشوز اور یہاں کی محرومی، بے روزگاری، تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کو توجہ سے زائل کرانے میں ایک جارحانہ مہم چلائی ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح پاکستان میں میڈیا غربت کا حل این آر او کو اور بے روزگاری ، محرومی اور مہنگائی کا حل کرپشن کے خاتمے کو بنا کر پیش کر رہا ہے۔ لیکن آج کے عہد میں سرمایہ داری کی جکڑ بندیوں میں کسی بھی ایک مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ ان جکڑ بندیوں کو توڑ کر اور حقیقی معنوں میں طبقاتی جڑت کی بنیاد پر ہی محکوموں اور محروموں کے مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔