"DLK" (space) message & send to 7575

جلیانوالہ باغ میں قتل عام کے سو سال …(2)

ہندوستان میں 1834ء سے 1838ء تک رہنے والا برطانوی راج کا اعلیٰ افسر لارڈ میکالے ہندوستانی سماج اور ثقافت کو حقارت آمیز انداز سے دیکھتا تھا۔ اس کے نزدیک برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا شمار تہذیب یافتہ اقوام میں ہوتا تھا جبکہ ہندوستان جیسے نوآبادیاتی خطوں کے لوگ وحشی اور جاہل تھے۔ میکالے ہندوستان سے فارسی کو بطور سرکاری اور تعلیمی زبان ختم کروانے میں پیش پیش تھا۔ وہ 1860ء کے انڈین پینل کوڈ کے اہم تخلیق کاروں میں سے ایک تھا۔ یہ قوانین آج بھی بھارت، پاکستان، سنگا پور، سری لنکا، بنگلہ دیش، نائجیریا، زمبابوے اور دیگر سابقہ برطانوی نوآبادیات میں نافذ ہیں۔ میکالے نے برصغیر کے پرانے تعلیمی نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ مغربی نظام استوار کروایا تاکہ ایک ایسا انگریز سامراج کا سہولت کار اور کاسہ لیس مقامی حکمران طبقہ تخلیق کیا جائے جو برطانوی تسلط کے لئے ایک بفر کا کردار ادا کرے۔ اس نے لکھا، ''میرے خیال میں ہم محدود وسائل کی وجہ سے تمام لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتے۔ فی الحال ہمیں ایک ایسا طبقہ تخلیق کرنا چاہیے جو ہمارے اور ہمارے زیر تسلط ان کروڑوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کرے۔ ایک ایسا طبقہ جو اپنے رنگ و خون میں تو ہندوستانی ہو لیکن اپنے عادات و اطوار، خیالات اور اخلاقیات میں انگریز ہو۔‘‘ یہاں 'محدود وسائل‘ کی بات بھی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اس دوران انگریز یہاں سے بے حد و حساب دولت لوٹ کے برطانیہ لے جا رہے تھے۔ 
نوآبادیاتی جبر و استحصال کے معذرت خواہان جلیانوالہ باغ کے قتل عام کو برطانوی راج کی اچھی حکمرانی میں ایک استثنائی واقعہ قرار دیتے ہیں۔ اس وحشت کو جنرل ڈائر کا ذاتی اقدام قرار دیا جاتا ہے۔ 8 جولائی 1920ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے ونسٹن چرچل نے کہا تھا، ''میری نظر میں برطانوی سلطنت کی جدید تاریخ میں اس واقعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک غیر معمولی اور وحشت ناک واقعہ ہے جو اپنی ہولناکی میں یکتا ہے۔‘‘ یہ سامراجیوں کی جانب سے الفاظ کے ہیر پھیر کی ایک مثال ہے جس میں ایسے واقعات کو 'حادثہ‘ بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ جلیانوالہ کا قتل عام اس منظم نسل پرستی اور با ضابطہ جبر کا نتیجہ تھا جو ہر سامراجی قوت کا خاصہ ہوتا ہے۔ 
1947ء کے بٹوارے کے بعد دونوں اطراف کے سرکاری مؤرخین اور حکمران طبقات کے نمائندوں نے اس واقعے کو طبقاتی نقطہ نظر کی بجائے قوم پرستانہ شکل میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں اسے محض ''ہندوستانیوں‘‘ یا سکھوں کے ساتھ ہونے والے واقعے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا آج کے پاکستانی پنجاب کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی لئے اس تاریخی واقعے سے بالعموم صرف نظر کیا جاتا ہے۔ در حقیقت محکوم طبقات کے لوگ بغیر کسی مذہبی تفریق کے برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں شریک تھے۔ جلیانوالہ باغ میں مرنے والوں میں ہندو، مسلمان اور سکھ سبھی شامل تھے۔ 13 اپریل کے اجتماع میں امرتسر سے گرفتار ہونے والے دو رہنمائوں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا۔ ویسے بھی 1919ء میں ابھی دو قومی نظریے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ لیکن 1947ء کی تقسیم میں بیس لاکھ سے زائد معصوموں کا قتل عام برطانوی سامراج کی مذہبی اور نسلی تعصبات کو بھڑکانے کی اسی پالیسی کا شاخسانہ تھا‘ جس کے آلہ کار یہاں کے مقامی حکمران طبقات تھے۔ یہ ایک طرح سے سامراجیوں کا انتقام تھا جن کے راج کو غدر پارٹی سے لے کے بھگت سنگھ کی سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن تک‘ پنجاب میں جڑیں رکھنے والی تحریکوں نے مسلسل چیلنج کیا تھا اور بالآخر برطانوی راج کو یہاں سے رخصت ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اسی طرح سے بغاوتوں کی طویل تاریخ رکھنے والے پشتون علاقوں اور بنگال کو بھی تقسیم کیا گیا۔ بھارت میں بھی قوم پرست اور مذہبی بنیاد پرستانہ رجحانات اس واقعے کی تشریح اپنی مخصوص رجعتی تنگ نظری کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں سے لے کے سیکولر کانگریس تک ہر کوئی اسے اپنے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ سکھ فرقے اسے ایک 'خالصہ‘ نظریات کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ 
روس میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے اثرات دنیا بھر کی قومی آزادی کی تحریکوں پر مرتب ہوئے تھے۔ یہ عرصہ برصغیر میں طبقاتی جدوجہد کا سنہری دور تھا۔ متحدہ ہندوستان میں دہائیوں پر مشتمل تحریک آزادی مختلف مراحل سے گزری۔ ایسے ادوار بھی آئے جب تحریک پر انقلابی رجحانات حاوی تھے‘ لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران ماسکو کے اشاروں پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے فاشزم مخالفت کے نام پر برطانوی راج سے جو مصالحت کی اس سے مقامی حکمران طبقات کے نمائندوں کو تحریک کی قیادت میں آنے کا موقع ملا۔ 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت سے جنم لینے والی ملک گیر تحریک کی شکست کے بعد مذہبی تعصبات زیادہ حاوی ہو گئے تھے۔
جلیانوالہ باغ سمیت ساری جدوجہدِ آزادی اس خطے کے محکوموں کی جدوجہد سے لبریز ہے۔ جو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی ان کے نظام کے جبر کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ نوآبادیاتی حکمرانی کا تسلسل نئی شکلوں کے ساتھ ہر جگہ ہی جاری رہا ہے۔ مثلاً جنوبی افریقہ میں کچھ سال قبل ماریکانا میں 'کالے حکمرانوں‘ نے کانکنی سے وابستہ درجنوں محنت کشوں کو جس بے دردی سے قتل کیا وہ سفید حکمرانوں کے دور میں شارپویل میں ہونے والے قتل عام سے مختلف نہیں تھا۔ 1937ء میں جاپانی فوج نے چین کے علاقے نانکنگ میں قتل عام کیا جس میں ہزاروں چینی مارے گئے تھے اور اَسی ہزار عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ لیکن 1989ء میں تیانمن سکوائر پر ہزاروں مظاہرین کا قتل عام جاپانی نہیں بلکہ خود چینی فوج نے کیا تھا۔ قتل ہونے والے مزدوروں کا عالمی (انٹرنیشنل) گیت گا رہے تھے اور منڈی کی معیشت کی بحالی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
نوآبادیاتی دور کے بعد حکمرانوں کے رنگ، نسلیں، مذہب اور زبانیں تو تبدیل ہو گئیں لیکن استحصالی نظام تبدیل نہیں ہوا۔ پاکستان میں آمریتوں کے جبر کی طویل تاریخ رہی ہے، بالخصوص ضیا آمریت نے سماج کو سکتے میں ڈال دیا۔ مزدوروں اور بائیں بازو کے کارکنان کے خلاف تمام تر جبر کے علاوہ ملک کی سماجی و ثقافتی زندگی میں رجعت کا اتنا زہر بھر دیا گیا کہ جب تک اس سرزمین پر یہ نظام قائم رہے گا اس وقت تک یہ ملک کو مسلسل عدم استحکام کا شکار کرتا رہے گا۔ 1978ء میں ملتان ٹیکسٹائل اور 1983ء میں سندھ میں ہونے والا محنت کشوں کا قتل عام جلیانوالہ باغ کی بربریت سے کم نہ تھا۔ پھر جمہوری ادوار کے دوران بھی عوام کی تکلیفوں اور مصائب میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ کئی حوالوں سے جبر زیادہ زہریلا، وسیع اور گہرا ہوتا گیا ہے۔ سرحد پار بھارت میں بھی صورتحال کوئی مختلف نہیں ہے جہاں 'سیکولر‘ ریاست پر ہندو بنیاد پرستی براجمان ہے اور 'ٹاڈا‘ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیر کی ساری وادی کو ایک وسیع و عریض جلیانوالہ باغ میں بدل دیا گیا ہے۔ پنجاب سے لے کر منی پور اور تامل ناڈو سے لے کر آسام تک آزادی کے سپاہیوں پر ہونے والی بھارتی فوجی یلغار نوآبادیاتی باقیات ہی ہیں۔ اپنے بنیادی حقوق مانگنے والے مظاہرین پر سرکاری فورسز کی بے رحمانہ فائرنگ اب ایک معمول بن چکی ہے۔ 
آزادی سے بیس سال پہلے ہی بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تھا اور اس طبقے کی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا جو لارڈ میکالے کے الفاظ میں ''رنگ و خون میں تو ہندوستانی ہیں لیکن عادات و اطوار، خیالات اور اخلاقیات میں انگریز! ‘‘ پچھلی سات دہائیوں سے اسی طبقے کی حکمرانی نے اس سرزمین کو تاراج کر رکھا ہے۔ اِن مقامی جنرل ڈائروں نے اپنے سامراجی آقائوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جلیانوالہ کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں