"DRA" (space) message & send to 7575

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے اتحاد کا اعلان جتنا اچانک تھا‘ اتنی ہی تیزی کے ساتھ اختتام پذیر بھی ہو گیا۔ کراچی پریس کلب میں کارکنوں کے ایک بہت بڑے ہجوم میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے رہنمائوں‘ بالترتیب فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے 8 نومبر کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ دونوں پارٹیوں نے اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں پہلے فاروق ستار نے خطاب کیا اور کہا کہ یہ اتحاد تین مقاصد کے لئے قائم کیا گیا ہے: مہاجر ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے روکنے کے لئے‘ باہمی تشدد کو ختم کرنے کے لئے‘ اور کراچی میں ایک دیرپا امن کے قیام کے لئے۔ فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ اس اتحاد کے تحت دونوں پارٹیاں 2018ء کے انتخابات میں ایک مشترکہ منشور کے تحت حصہ لیں گی۔ مصطفیٰ نے اپنی باری پر جو کچھ کہا وہ فاروق ستار کے بیان سے یکسر مختلف تھا۔ ان کے مطابق یہ اتحاد دونوں پارٹیوں کے انضمام کی طرف پہلا قدم تھا۔ اور یہ کہ آئندہ انتخابات میں دونوں پارٹیاں ایک نئے نام‘ نئے منشور اور نئے انتخابی نشان کے تحت حصہ لیں گی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دونوں پارٹیوں نے اپنا اپنا علیحدہ علیحدہ وجود ختم اور ایک نئی پارٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کے بارے میں اپنے خیالات کو فاروق ستار اور ایم کیو ایم کے درجنوں کارکنوں کے سامنے دہرایا۔ انہوں نے برملا کہا کہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی پارٹی تھی‘ الطاف حسین کی پارٹی ہے اور الطاف حسین کی پارٹی رہے گی۔ اسے ختم کرنا ہو گا اور یہ پریس کانفرنس دو پارٹیوں کے اتحاد کے بارے میں نہیں بلکہ ان کے باہمی انضمام کے لئے ہے‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلے سے ایم کیو ایم کے کارکنان اور رابطہ کمیٹی کے اراکین مطمئن نہیں تھے۔ اس کا اظہار پریس کانفرنس کے دوران ہی بعض اراکینِ ایم کیو ایم اور خود فاروق ستار کی حرکات و سکنات سے ہو رہا تھا۔ ایم کیو ایم کے دو اہم رہنمائوں علی رضا عابدی اور عامر خان نے اعلان سے کھل کر اختلاف کیا بلکہ علی رضا عابدی نے تو پارٹی اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ فاروق ستار نے 9 نومبر کو رات گئے جس طویل پریس کانفرنس سے خطاب کیا‘ اس میں انہوں نے بتایا کہ ملک کے طول و عرض سے کارکنانِ ایم کیو ایم ٹیلی فون پر رات بھر ان سے اس فیصلے پر حیرانی اور پریشانی کا اظہار کرتے رہے‘ بلکہ سوشل میڈیا پر بعض نے فاروق ستار پر ایم کیو ایم کو پی ایس پی کے ہاتھ بیچنے کا الزام بھی عائد کیا۔ اس ردعمل کے ناگزیر نتیجے کے طور پر نہ صرف ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی بلکہ خود فاروق ستار نے بھی پریس کانفرنس میں وضاحت پیش کر دی کہ ایم کیو ایم کا علیحدہ وجود قائم رہے گا‘ اسے کسی پارٹی میں ضم نہیں کیا جائے گا‘ ایم کیو ایم اپنے جھنڈے اور مخصوص انتخابی نشان یعنی پتنگ کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے گی۔ یہ کہ ایم کیو ایم دوسری پارٹیوں بشمول پی ایس پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے لئے تیار ہے‘ لیکن 2013ء کے انتخابات میں جن حلقوں سے اس کے امیدوار منتخب ہوئے‘ ان میں کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اشتراک نہیں کیا جائے گا۔ پی ایس پی کی جانب سے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاس اور فاروق ستار کی پریس کانفرنس کے جواب میں جو ردعمل سامنے آیا‘ اس میں کہا گیا کہ 8 نومبر کی پریس کانفرنس دونوں پارٹیوں کے اتحاد کیلئے نہیں بلکہ انضمام کیلئے منعقد کی گئی تھی۔ یوں سندھ میں آباد اردو بولنے والے لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی دو حریف پارٹیوں کے درمیان اتحاد کا جو اچانک اعلان ہوا تھا‘ وہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پارہ پارہ ہو گیا۔ پاکستانی سیاست میں ایسی ڈرامائی تبدیلیوں کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر دل بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ع
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
ایک زمانہ تھا کہ کراچی ہی نہیں سندھ کے تمام شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا۔ اس کی دھاک کا یہ عالم تھا کہ اس کے ایک اشارے پر دکانیں‘ مارکیٹیں‘ پٹرول پمپس بند ہو جاتے تھے اور سڑکوں پر سے ٹریفک غائب ہو جاتی تھی۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر اس کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر حاضری دینا باعثِ عزت سمجھتے تھے۔ اس کا بانی الطاف حسین 25 سال سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے‘ مگر ایک وسیع نیٹ ورک اور مضبوط تنظیم کے سہارے ایم کیو ایم قومی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہی۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم قومی اسمبلی میں چوتھی اور سینیٹ میں تیسری بڑی پارٹی ہے۔ سندھ میں دوسری بڑی پارٹی ہونے کی حیثیت سے ایم کیو ایم صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ہے‘ اس کے باوجود اس کے لاکھوں پیروکار کبھی الطاف حسین کی طرف سے استعفے کے اعلان پر اپنے آپ کو یتیم سمجھ کر سینہ کوبی کرتے‘ اور کبھی فاروق ستار کی طرف سے پارٹی سے الگ ہونے اور سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان پر دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ارکان کی اس بے بسی کا آخر کیا سبب ہے؟ فاروق ستار کے مطابق اس کا سبب بعض طاقتوں کی طرف سے ایم کیو ایم پر پی ایس پی میں ضم ہونے کے لئے دبائو ہے۔ اب تک تو ایم کیو ایم کی قیادت نے اس دبائو کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے‘ لیکن یکے بعد دیگرے ایم کیو ایم کے رہنما اور اراکین اسمبلی جس طرح اپنی پارٹی چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہو رہے تھے‘ اس نے ایم کیو ایم کی قیادت کو حواس باختہ کر دیا ہے۔ اپنے گھر پر پریس کانفرنس کے دوران فاروق ستار نے جو کچھ کہا اس سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے ایم کیو ایم پر پی ایس پی میں ضم ہونے یا دونوں کے انضمام سے ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کیلئے زبردست دبائو رہا تھا۔ فاروق ستار نے اسے پولیٹیکل انجینئرنگ کا نام دیا اور 8 نومبر کی پریس کانفرنس اسی دبائو کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ اگرچہ فاروق ستار نے ایک سے زیادہ دفعہ زور دے کر کہا کہ یہ پولیٹیکل انجینئرنگ کامیاب نہیں ہو سکتی‘ تاہم ایم کیو ایم (پاکستان) چند بنیادی تضادات کی وجہ سے پولیٹیکل انجینئرنگ کا شکار ہوتی رہے گی۔ مثلاً ایم کیو ایم (پاکستان) نے الطاف حسین سے قطع تعلق تو کر لیا ہے لیکن اس کی سیاست کی بنیاد بدستور اسی کے نظریات ہیں۔ ان نظریات میں مرکزی حیثیت مہاجر قوم پرستی کو حاصل ہے۔ فاروق ستار نے اپنی رات گئے والی پریس کانفرنس میں جس ایم کیو ایم کو اپنی جان اور روح قرار دیا‘ وہ نہ صرف نظریاتی بلکہ تنظیمی اعتبار سے بھی وہی ہے جو الطاف حسین نے تشکیل دی تھی۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ فاروق ستار ایک طرف دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری سیاست کی بنیاد لسانی (Ethnic) نہیں‘ اور دوسری طرف مہاجر قوم کی وکالت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے مصطفیٰ کمال کا موقف کہ مہاجر قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کو ترک کئے بغیر کراچی میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کے درمیان مفاہمت‘ ہم آہنگی اور تعاون کا حصول ممکن نہیں‘ زیادہ معقول اور مثبت نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی کے مفاد کو ہمیشہ مہاجروں (اردو بولنے والوں) کے مفاد کے طور پیش کیا‘ حالانکہ کراچی میں دیگر زبانیں بولنے والے لوگ بھی بستے ہیں۔ ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک لسانی اور علاقائی پارٹی پر مصر ہو کر قومی سطح کی سیاست کرنا چاہتی ہے جو اس وقت تک ناممکن ہے‘ جب تک ایم کیو ایم الطاف حسین کے بنائے ہوئے تنگ سیاسی خول سے باہر نہیں آتی۔ ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں کی طرف سے پی ایس پی کے ساتھ اتحاد کی سخت مخالفت اور اس مخالفت کی وجہ سے فاروق ستار کا 8 نومبر کی پریس کانفرنس میں کئے گئے اعلانات سے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کی سیاست ایک دفعہ پھر اس صورتحال کی طرف لوٹ آئے گی‘ جو 8 نومبر سے پہلے تھی۔ یعنی ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کا سلسلہ پھر شدت اختیار کر جائے گا‘ لیکن عام مہاجر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان محاذ آرائی سے تنگ ہے اور اکثریت اس بات کی خواہش مند ہے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال دونوں اکٹھے ہو کر مہاجر برادری کے اس احساسِ عدم تحفظ کو دور کریں جو الطاف حسین کی 23 اگست کی تقریر کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا‘ کیونکہ ایم کیو ایم نے ارشد وہرہ سے کراچی کے ڈپٹی میئر کی سیٹ خالی کروانے کیلئے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی صفوں سے نکل لوگوں کو پی ایس پی کی صفوں میں جا کھڑا ہونے سے روکنے کیلئے سخت انضباطی کارروائیاں کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس سے ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان کھلی محاذ آرائی نہ سہی‘ لیکن کشیدگی ضرور پیدا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں