11 مئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے انتخابات کے لیے تمام ضروری اقدامات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں۔ مرکز اور چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن اہل امیدواروں کی حتمی فہرست تیار کرنے میں مصروف ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنا اپنا منشور پیش کر چکی ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں قومی اور صوبائی نشستوں پر اپنے امیدواروں کا اعلان کر چکی ہیں۔ انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز اگرچہ 19 اپریل کے بعد ہو گا لیکن بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں کی صورت میں سیاسی پارٹیاں اپنی انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں۔ جن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ مل چکے ہیں یا ملنے کی قوی امید ہے انہوں نے اپنے ممکنہ حلقوں میں ووٹوں کے حصول کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے۔ انتخابات کے حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن کے برعکس اس مرتبہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں انتخابی معرکہ میں شرکت کریں گی۔ اس طرح 2013ء کے انتخابات صحیح معنوں میں نمائندہ انتخابات ہوں گے اور بہتر سیاسی قیادت سامنے آئے گی۔ انتخابات کے بروقت اور پُرامن طریقے سے انعقاد کے لیے نہ صرف الیکشن کمیشن رات دن ضروری انتظامات مکمل کرنے میں مصروف ہے بلکہ دیگر ریاستی ادارے بھی مستعدی سے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ مدد اور تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ فوج کی طرف سے بھی انتخابات کو پرامن، صاف شفاف اور غیرجانبدارانہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کو ضروری امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف الیکشن کمشنر، نگران وزیر اعظم اور بلوچستان کے گورنر اور نگراں وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے انتخابات کے دوران تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 11 مئی کو انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں اور یہ کہ تمام تر اہتمام اور کوششوں کے باوجود انتخابات کے انعقاد کے دوران امیدواروں اور انتخابی عملے کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا یا نہیں؟۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ بعض مفاد پرست عناصر اور خفیہ ہاتھ پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں پولنگ ڈے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہنے کے باوجود انتخابات پر بدستور خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم نے سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کے نام ایک خط میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ خط میں انہوں نے تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ انتخابات کے خلاف جاری سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے اپنے امیدواروں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ انتخابی مہم کے دوران ضابطہ اخلاق کی سختی سے پابندی کی جائے تاکہ سازشی عناصر انتخابات کو سبوتاژ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ انتخابات کو لاحق خطرات کی یہ صرف ایک جہت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات کا عمل کئی اطراف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں سب سے اہم اور تشویشناک خطرہ دہشت گردوں کی طرف سے ہے۔ ملک کے بعض خطے ایسے ہیں جہاں یہ خطرہ بالکل سامنے نظر آ رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک کیس کے دوران پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جانب سے داخل کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں انتخابی سرگرمیوں یعنی سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی جانب سے جلسے اور جلوسوں کے دوران خود کش حملوں کا خطرہ ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں نے اتحاد قائم کر کے وسیع پیمانے پر دہشت گردی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ ابھی انتخابی مہم نے زور نہیں پکڑا اور ووٹ ڈالنے میں پورا ایک ماہ باقی ہے لیکن دہشت گردوں نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ 2 اپریل کو پشاورکے قریب گرڈ سٹیشن پر حملے میں سات افراد کی ہلاکت‘ جن میں چار واپڈا کے ملازم بھی شامل ہیں‘ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس سے قبل 31 مارچ کو بنّوں کے جانی خیل علاقے میں ایک امیدوار کے انتخابی جلوس پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے سے ایک روز قبل یعنی 30 مارچ کو مردان میں ایک پولیس وین پر خود کُش حملہ کیا گیا جس میں پولیس کا ایک سپاہی شہید اور چار راہگیر زخمی ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل یعنی29 مارچ کو ایف سی کے ایک قافلے پر حملے میں 12 جوان شہید اور دو درجن سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔ اس حملے میں دہشت گردوں نے ایف سی کے کمانڈر عبدالحمید مروت کو نشانہ بنایا تھا مگر وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ یہ کارروائیاں صوبہ خیبر پختون خوا یا قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ کراچی میں بھی چند دن بہ نسبت بہتر صورت حال کے بعد اب اچانک بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔10 اپریل کو چند گھنٹوں میں شہر کے مختلف حصوں میں 5افراد لقمہ اجل بن گئے۔ پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی کی تیراہ وادی پر تحریک طالبان پاکستان کا قبضہ صوبائی دارالحکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے صوبہ کے لیے انتہائی خطرے کا باعث ہے کیونکہ اس وادی کو دہشت گرد صوبے کے دیگر حصوں میں کارروائیوں کے لیے بطور اڈہ استعمال کر سکتے ہیں۔ بلوچستان سے بھی حوصلہ شکن اور مایوس کْن خبریں آرہی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (BNPM) کے سربراہ اختر مینگل کی واپسی اور اُن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان ایک مثبت اقدام ہے۔ صوبے کی باقی تمام قوم پرست جماعتوں نے بھی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلے میں ان پارٹیوں کے رہنمائوں نے28 مارچ کو کوئٹہ میں چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات بھی کی تھی؛ تاہم جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال بْگٹی کا موقف ہے کہ جب تک بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن ختم نہیں کیا جاتا، ڈیرہ بگٹی میں داخل ہونے پر پابندیاں نہیںاٹھا لی جاتیں اور نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپسی آنے کی اجازت نہیں دی جاتی، انتخابات میں شرکت بے سود ہے۔ سردار اختر مینگل نے بھی اب چند تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صوبے کے موجودہ حالات میں صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات نہیں ہو سکتے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے ان کے اس6 نکاتی فارمولے پر عمل ہونا چاہیے جو انہوں نے گذشتہ برس سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔ اگرچہ انتخابات کو اب بھی سخت خطرات لاحق ہیں اور ان خطرات کو بنیاد بنا کر مفاد پرست عناصر انتخابات کے بارے میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جس طرح سیاسی پارٹیاں انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار ہیں، الیکشن کمیشن محنت اور خلوس کے ساتھ انتظامات کرنے میں مصروف ہے اور ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں تحفظ فراہم کرنے پر آمادہ ہیں‘ انتخابات کے التوا یا تنسیخ کا کوئی امکان نہیں۔