سابق صدر جنرل(ریٹائرڈ) پرویز مشرف دو تین دفعہ وطن واپسی ملتوی کرنے کے بعد جب بالآخر 24مارچ کو کراچی ائیر پورٹ پر اُترے تو اْن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ پاکستان میںاُن کا یہ حشر ہو گا۔وطن روانگی سے قبل ایک آدھ انٹرویو میں اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انتخابات میں اْن کی پارٹی ملک کے چاروں صوبوں سے حصہ لے گی۔لیکن صرف چند ایک حلقوں میں اْن کی پارٹی کے امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے۔خود انہوں نے جن چار حلقوں سے قومی اسمبلی کے انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کیے،وہ سارے کے سارے مسترد ہو چکے ہیں۔ملک سے باہر قیام کے دوران وہ بار بار تاثر دیتے رہے کہ پاکستان میں اْن کے حامیوں کی بھاری تعداد موجود ہے اور وہ اُن کی واپسی کے منتظر ہیں۔اُن کا خیال تھا کہ عوام کا ایک جمِ غفیر اْن کی استقبال کرنے کیلئے کراچی ائیر پورٹ پر جمع ہو گا۔لیکن جب محض دو درجن کے قریب افراد اُن کا استقبال کرنے کیلئے ائیر پورٹ پہنچے تو اُنہیں یقینا سخت مایوسی ہوئی ہو گی۔اپنی آمد کیلئے کراچی کا انہوں نے اس اْمید پر انتخاب کیا تھا کہ ایم۔کیو۔ایم کے کارکنان کی بھاری تعدادبھی اُن کے استقبال کیلئے پہنچے گی۔لیکن حالات کا رْخ دیکھ کر ایم۔کیو۔ایم نے بھی سابق فومی آمر سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔اور نہ صرف یہ کہ اْس کے کارکنان مشرف کے استقبال کیلئے ایرپورٹ نہیں پہنچے بلکہ انتخابات میں اْس کی پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے بھی احتراز کیا ۔ اب جبکہ اسلام آبادکی عدالت انسدادِ دہشت گردی نے پرویز مشرف کو14دن کیلئے جوڈیشل ریمانڈ پر اْن کے محل نما فارم ہاوس میں نظر بند کر دیا ہے۔اور پولیس،آئی ایس آئی اور آئی بی کی مشترکہ ٹیم اُن سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ سابقہ فوجی آمر کا اب کیا مستقبل ہو گا؟کیا اُنہیںملکی قانون کے تحت اپنے کیے کی پوری پوری سزا ملے گی یا اُنہیں بھی کسی ڈیل کے تحت ڈھیل دیکر چپکے سے بچ نکلنے کا موقع دیا جائے گا۔یہ سوال اس لیے اُٹھ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیے جانے کے باوجود پرویز مشرف کو پہلے دن سے خصوصی پروٹوکول مل رہا ہے۔حتیٰ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب ان کی گرفتاری کا حکم دیا تو پولیس نے گرفتار کرنے کی بجائے موصوف کو بھاگنے میں مدد دی ۔بعد میں چک شہزاد میں واقع ان کے فارم ہاوس میں اُنہیں بظاہر نظر بند کر دیا۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے14دن کا جوڈیشل ریمانڈ بھی تعجب انگیز فیصلہ ہے ۔قانون کے مطابق کسی مُلزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اْس وقت بھیجا جاتا ہے جب پولیس نے تفتیش مکمل کر لی ہو۔اور مزیدتفتیش کیلئے ملزم پولیس کو مطلوب نہ ہو۔عدالت میں استغاثہ کے وکلاء نے یہ موقف اختیا رکیا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ پولیس ملزم سے تفتیش کا عمل مکمل کر سکے۔لیکن توقع کے برعکس عدالت نے استغاثہ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے موصوف کو 14روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر اس کے فارم ہاوس کی ’سب جیل ‘میں نظر بند کر دیا جہاں ایک تفتیشی ٹیم اس سے ججوں کو حبسِ بیجا میں رکھنے کے الزام میں تفتیش کرے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران میں پرویز مشرف اپنے گھر میں ہی رہیں گے اور گھر کی تمام سہولتوں اور آسائشوں سے لطف ا ندوز ہوتے رہیں گے۔اپنی مرضی کے کھانے بھی کھائیں گے اور اجازت لیکر اہل خانہ بھی اُن سے ملاقات کر سکیں گے۔ بطور ملزم پرویز مشرف سے جو رعائتی اور نرم سلوک روا رکھا جا رہا ہے اُس کا موازنہ اگر اُن صعوبتوں سے کیا جائے جو سیاستدانوں نے بغیر کسی جُرم کے اُٹھائیں تو کہنا پڑے گا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی اور یہ کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں محض ایک ڈھکوسلا اور عوام کی نظر وں میں دْھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ پاکستان کے پہلے دستور کے تحت قائم پہلی قانون ساز اسمبلی میں پہلے قائد حزبِ اختلاف ،تحریک پاکستان کے رہنما اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کو پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خاں نے اس قدر ہراساں کیا کہ اُنہوں نے ملک سے نکل کر بیروت میں پناہ لی اور وہیں اْن کا انتقال ہُوا۔ ایوب خاں نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو 1969ء میں گرفتار کر کے ساہی وال جیل میں ڈال دیا اور جیل میں ایک ایسے کمرے میں رکھا جہاں چھپکلیوں اور مچھروں کی بھر مار تھی ۔ جنرل یحییٰ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لے آئے۔قید کے دوران اُنہیں سخت ذہنی اور جسمانی اذیت دی جاتی رہی۔جنرل ضیاء الحق نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں ملوث کر کے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ڈال کر جو اذیت ناک سلوک روا رکھا اْس سے سبھی واقف ہیں۔ایک اور منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو طیارہ اغواء کیس کے جھوٹے کیس میں جنرل مشرف نے ہتھکڑی پہنائی اور اْنہیں جہاز کی سیٹ سے باندھ دیا۔2007ء میں وطن واپسی پہنچنے پر نواز شریف سے ائیرپورٹ پر جو ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ اْسے بھی پاکستان کی تاریخ کے افسوس ناک باب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ جس شخص نے دو مرتبہ آئین توڑا،اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کئی ماہ تک حبسِ بے جامیں رکھا، محبِ وطن بلوچ لیڈر نواب اکبر بگٹی کے قتل کے احکامات صادر کیے،لال مسجد میں محصْورطالبات کے خلاف فوجی آپریشن کا اشارہ دیا،بے نظیر کیلئے سکیورٹی میں جان بوجھ کر کوتاہی کی،اُسے ہتھکڑی لگاناتو درکنار پولیس گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی ہے اور عدالت کے حکم پر جیل بھیجنے کی بجائے اُسے اُس کے شاہانہ گھر میں نظر بند رکھنے پر اصرار کر رہی ہیں۔ اِن نازبرداریوں کے پیشِ نظر عام تاثر یہی ہے کہ پرویز مشرف کی مختلف مقدمات میں پیشی اور نظر بندی محض ڈرامہ ہے۔پرویز مشرف کے وکیل اور سیاسی ساتھی احمد رضا قصوری نے اپنے موکل کی پاکستان میں آمد سے پہلے بر سرِعام کہا تھا کہ مشرف پاکستان آئیں گے اور کوئی مائی کا لال اُنہیں ہاتھ نہیں لگا سکتا۔اتوار کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بھی اْنہوں نے یہ کہہ کر کہ مشرف پر مقدمہ چلانے کی وجہ سے فوج کے حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے،یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مشرف کو فوج کی پُشت پناہی حاصل ہے۔خود مشرف نے پاکستان آنے سے پہلے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں بھی اس قسم کا تاثر دیا تھا لیکن اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ فوج اس معاملے میں عدلیہ کے کام میں مُخل ہو گی۔غالب امکان یہی ہے کہ مشرف کے خلاف درج مختلف مقدمات کے تحت مقدمات ضرور چلیں گے۔نگران حکومت ہو یا آئندہ آنے والی منتخب حکومت مشرف کے کیس کو پسِ پُشت ڈال کر یا اِسے کمزور کر کے عوامی غیظ وغضب کا شکار ہونا پسند نہیں کرے گی۔