ایسے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور دہشت گرد ایک اہم ترین مہم میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔الیکشن کمیشن11مئی کے انتخابات ہر قیمت پر منعقد کروانا چاہتا ہے۔اُتنی ہی تندہی سے دہشت گرد کوشاں ہیں کہ الیکشن نہ ہونے پائیں۔ملتوی ہو جائیںیا یکسر منسوخ ۔ اس مقصد کے لیے وہ اُن تمام سیاسی پارٹیوں کے جلسوں،جلوسوں، امیدواروں حتیٰ کہ عام شہریوں کو بموں اور گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیںجو الیکشن کی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 25اپریل کو اسلام آباد میں اپنے رفقائے کارکے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ریٹائرڈ)فخر الدین جی ابراہیم نے دو ٹوک الفاظ میں قوم کو یقین دلایا کہ 11مئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ صرف منعقد ہوں گے بلکہ یہ کہ انتخابات پُر امن بھی ہوں گے،اس لیے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں امیدواروں اور ووٹرز کے تحفظ کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں اگر کوئی تحفظات،خوف یا خدشات ہوں تو اْن کو فوری طور پر نکال باہر کرنا چاہیے۔اْنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو پْر امن ماحول مہیا کرنے اور امیدواروں کے ساتھ ووٹ ڈالنے کیلئے آنے والوں کیلئے بھی حفاظت کا فول پروف انتظام کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی یہ پریس کانفرنس اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کے بعد کی گئی تھی۔اس اجلاس کا تعلق آئندہ انتخابات کیلئے ملک بھر میں سلامتی کے اقدامات سے تھا اور اس میں الیکشن کمیشن کے مرکزی اور صوبائی افسروں کے علاوہ فوج،رینجرز اور پولیس کے نمائندوں،وفاقی سیکرٹری دفاع وداخلہ،چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹری اورہوم سیکرٹری صاحبان نے شرکت کی تھی۔ذرائع کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ ملک کی تمام سکیورٹی ایجنسیاں بشمول فوج انتخابات کو پُر امن بنانے میں اپناکردار ادا کریں گی اور اس مقصد کے لیے اگرضروری ہوا تو لیویز اور سکائوٹس کی بھی مدد لی جائے گی اور اُنہیں پولنگ سٹیشنز کے ارد گرد تعینات کیاجائے گا۔سیکرٹری دفاع نے پاک فوج کی جانب سے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی اور اس سلسلے میں اُنہوں نے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات کا بھی حوالہ دیا جن میں اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ فوج انتخابات کو پُر امن رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن امداد فراہم کی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ انتخابات کو پُر امن رکھنے کے لیے صوبائی سطح پر قائم نگران حکومتوںکے نمائندوں، چیف سیکرٹریوں اور کور کمانڈروں پر مشتمل ایک گروپ قائم کیا جائے گا جو باہمی مشاورت سے سکیورٹی کے لیے جو بھی اقدام ضروری ہواکرے گا۔ دوسری طرف دہشت گردوں نے بھی اپنی کارروائیوں کو نہ صرف تیزکر دیا ہے بلکہ ان کا دائرہ بھی بڑھا دیا ہے۔اب صوبہ پختون خوا،فاٹا،بلوچستان،اندرونِ سندھ اور کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں انسانی خون جس طرح بہہ رہا ہے اْس کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دہشت گردوں یعنی تحریک طالبان پاکستان کے اعلان کے مطابق ان کارروائیوںکا نشانہ تین سیاسی پارٹیاں ہیں یعنی اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم ۔اس کا ثبوت ایک روز قبل صوابی میں اے این پی کے ایک انتخابی جلسے پر دہشت گردوں کا ہونے والا حملہ ہے۔اس حملے میں درجن سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ دو افراد شہید ہوئے جن میں ایک بچہ بھی ہے۔اس سے قبل کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے انتخابی دفاتر اور کارنر میٹینگ پر حملہ کے دوران دو افراد شہید ہوئے جن میں بچوں کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے شہریوں کا بے دریغ قتلِ عام کر رہے ہیں۔پہلے صرف یہ تینوں پارٹیاں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھیں،اب دوسری پارٹیاں بھی ان کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔مثلاََ بلوچستان میں مچھ کے علاقے میں جمعیت علمائے اسلام(ف)کے ایک انتخابی کارواں پر دستی بموں سے حملہ کیا گیاجس میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ اسی طرح قلات میں نیشنل پارٹی کے ایک جلوس کو نشانہ بنایا گیا۔ انتخابی جلسوں اور جلوسوں پر یہ حملے اب سندھ ،کراچی،بلوچستان اور صوبہ پختون خوا تک ہی محدو د نہیں رہے بلکہ افغان سرحد سے ملحقہ شمالی وزیرستان کے دورافتادہ علاقوں تک بھی پھیل گئے ہیں۔دو روز قبل میرانشاہ کے علاقے میں ایک انتخابی دفتر پر بم پھینکا گیا جس میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ دفتر بھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دہشت گرد کس مقصد کیلئے اور کس کے ایما پر دہشت گردی کی ان کارروائیوںمیں مصروف ہیں۔اگر اُن کا مقصد اے این پی،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا اور انتخابات میں اُن کے ووٹرز کو ہراساں کر کے اُن کی کامیابی کو محدود کرنا ہے تو دہشت گرد اس مقصد میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ ان تینوں پارٹیوں نے نہ صرف ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینے کے عزم کا اعلان کیا ہے بلکہ اطلاعات کے مطابق عوامی سطح پر ان پارٹیوں کیلئے ہمدردی کے جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہو سکتا ہے وہ توقع سے برعکس زیادہ سیٹیں جیت لیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کارروائیوں کے ذریعے دہشت گرد دراصل انتخابات کے پورے عمل کو ہی سبو تاژکرنا چاہتے ہیں۔لیکن انتخابات کو سبو تاژکرنا بذات خود ایک مقصد نہیں ہو سکتا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات کو ڈی ریل کر کے دہشت گرد کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟کیا وہ اس طرح پورے سیاسی نظام کی بساط لپیٹ دیں گے؟اور اس کی جگہ اپنا نظام جسے وہ اسلامی شریعت کا نظام کہتے ہیں بزور طاقت نافذ کر دیںگے؟اگر دہشت گرد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ اُن کی خام خیالی اور بہت بڑی غلط فہمی ہے۔پاکستان کا موجودہ وفاقی پارلیمانی سیاسی نظام جس کی بنیاد 1973ء کے متفقہ آئین پر رکھی گئی ہے،اپنے تمام تر نقائص ،خامیوں اور ناکامیوں کے باوجودایک مضبوط اور ٹھوس نظام ہے کیونکہ اولاََ اسے عوام کی مرضی اور جمہوری طریقے سے تشکیل دیا گیاہے۔ ثانیاََ اسے تمام اہم اداروں مثلاََ عدلیہ،فوج،میڈیا اور سیاسی پارٹیوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔تیسرے دہشت گردوں یا اْن کے سرپرست سیاسی عناصر کے پاس کوئی ایسا متبادل سیاسی اور قانونی نظام نہیں جسے وہ عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔جس اسلامی نظام کی وہ بات کرتے ہیں،اْس سے تو کئی مذہبی جماعتیںبھی متفق نہیں۔قانون کی حکمرانی،آئین کی بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری ایسے اصول ہیں جو آزاد عدلیہ،طاقت ور میڈیا اور انتہائی فعال سول سوسائٹی کی بدولت لوگوں کے ایمان کا حصہ بن چکے ہیں۔ان کو کمزور کرنا یا ان کی جگہ اپنی مرضی کے قوانین کو نافذکرنااب کسی طالع آزما کے بس کی بات نہیں۔حکومت،الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی طرف سے انتخابات کو ہر قیمت پر اور وقتِ مقررہ پر منعقد کرنے پر جس طرح زور دیا جا رہا ہے،اْس سے تو واضح طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ انتخابات کے التوا کا فی الحال کوئی امکان نہیںاور نہ ہی اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اگر انتخابات کے التوا کا کوئی امکان نہیں اور دہشت گردی کا شکار بننے والی پارٹیاں بھی ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینے پر تیارہیں تو دہشت گرد کسی مقصد کے تحت معصوم شہریوں کا خون بہا رہے ہیں؟ان کا صرف ایک مقصد ہے کہ ملک میں عوام کی سیاسی بالا دستی پر مبنی جمہوری سیاسی نظام جڑ نہ پکڑ سکے۔ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔اگر انتخابات ہو بھی جائیںتو ان کے نتیجے میں ایک ایسی لولی لنگڑی پارلیمنٹ وجود میں آئے جو ایک موثر اور طاقت ور ادارے کی بجائے مچھلی بازار کا نقشہ پیش کرتی رہے۔اسی طرح اُن طاقتوں کو جنہوں نے گذشتہ پانچ برسوں میں ایک منتخب جمہوری حکومت کو ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا،آئندہ بھی کھل کر اور آزادی کے ساتھ ایجنڈاپورا کرنے کا موقعہ مل سکے اور یہ ایجنڈا ہے غیر سیاسی،فرقہ پرست اور انتہا پسند عناصر کی بالا دستی کا جس کے ذریعے وہ اپنے مخصوص مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔