الیکشن 2013ء کی مہم اختتام پذیر ہونے کو ہے لیکن بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ ان ہنگاموں، قتل اور خون ریزی کے بعد جو انتخابات ہوں گے،کیا وہ واقعی صاف،شفاف اور صحیح معنوں میں عوام کی مرضی،خواہش اور پسند و ناپسند کے آئینہ دار ہوں گے؟ اور کیا تمام امیدوار اور سیاسی پارٹیاں ان انتخابات کے نتائج کو بخوشی قبول کر لیں گی؟ یہ سوالات اس لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ ابھی سے چند سیاسی پارٹیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ انتخابات میں ضرور حصہ لیں گی‘ لیکن جہاں تک انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے اُن کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ابھی کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ اپنے موقف کے حق میں وہ ملک میں اس وقت پائی جانے والی صورتِ حال کا حوالہ دیتی ہیں۔خصوصاََ اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ ایک باقاعدہ منصوبہ کے تحت کچھ سیاسی پارٹیوں کو کُھلم کھلا دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اُن کے جلسوں اور جلوسوں پر حملے ہو رہے ہیں‘ اُن کے امیدواروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ یا تو یہ سیاسی پارٹیاں میدان چھوڑ جائیں یا اگر انتخابی معرکے میں حصہ لیتی ہیں تو ان کے سپورٹرز اور ووٹرز کو اتنا خوف زدہ کیا جائے کہ اُن کی کم سے کم تعداد پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ سکے۔ ایک اندازے کے مطابق11اپریل سے شروع ہونے والی انتخابی مہم میں اب تک 75سے زائد پاکستانی شہری‘ جن میں امیدوار وں کے علاوہ عام شہری،عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔شہیدہونے والوں میں سے اکثریت کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی،پیپلز پارٹی اور ایم۔کیو۔ایم سے ہے تاہم دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں اور نہ ہی یہ حملے صرف سیاسی پارٹیوں،امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے دفتروں یا پولنگ سٹیشنوں تک محدود ہیں مثلاََ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن)گروپ کے انتخابی جلسوں پر حملے ہوئے ہیں۔تازہ ترین حملہ کُرم ایجنسی میں ہوا ہے جس میں 24افراد شہید ہوئے ہیں۔اسی طرح عمران خاں کی تحریک انصاف کی ریلی پر بھی حملہ ہوا ہے۔ اِدھر کوئٹہ میں دہشت گردوں نے ایک سکول کی عمارت کو محض اس لیے بم سے اُڑا دیا کہ وہاں پولنگ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ صوبہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی حملے جاری ہیں۔ ان ملک گیر اور بے دریغ حملوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گرد نہ صرف یہ کہ 11مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات کو سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کارروائیوں کے ذریعے وہ ملک میں انتشار اور خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو بھی مکمل طور پر مفلوج کرنا چاہتے ہیں‘ تاکہ ملک میں کوئی ایسی حکومت برسرِ اقتدار نہ آسکے جو اُنہیں اُن کے مذموم ارادوں سے باز رکھ سکے۔ اس سلسلے میں حکومت اور سکیورٹی ادارے تو اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں‘ لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جس قسم کے ردِ عمل کی ضرورت تھی،وہ کہیں نظر نہیں آرہا۔بجائے اس کے کہ جمہوریت پر اس خطر ناک اور کُھلے حملے کا جواب متفق اور متحد ہو کر دیا جاتا،دہشت گردی کے تابڑ توڑ حملوں نے سیاسی جماعتوں میں اختلاف کو اور بھی نمایاں اور باہمی چپقلش کو تیز کر دیا ہے۔دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے بعض سیاسی جماعتیں خود اُن سیاسی پارٹیوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیںجو دہشت گردی کا شکار ہو رہی ہیںاور دہشت گردوں کے حملوں میں جن کو سب سے زیادہ جانی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ ان واقعات اور حالات کے پیشِ نظر یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا 11مئی کو ہونے والے انتخابات یک طرفہ ہوں گے؟ چند مقتدر اخبارات نے تو یہاں تک تحریر کیا ہے کہ جس طریقے سے پنجاب میں بلا روک ٹوک اور بغیرکسی خوف کے جلسے جلوس ہو رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں صوبہ پختون خوا، بلوچستان اور کراچی میں جس طرح سیاسی پارٹیوں کی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا جار ہا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتخابات ایک نہیں بلکہ دو مختلف ملکوں میں ہو رہے ہیں۔یعنی پنجاب ایک الگ ملک ہے اور صوبہ سرحد اور بلوچستان اس سے الگ۔ کوئی محب وطن پاکستانی نہ تو ایسا سوچ سکتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش اپنے دل کے قریب آنے کی اجازت دے سکتا ہے۔تاہم ہمیں حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرانی چاہئیں اور نہ سچائی کو جھٹلانا چاہیے۔اس وقت ہمارے سامنے جو صورتِ حال ہے وہ یہی ظاہر کرتی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو ملک کے ہر حصے میں عوام سے ووٹ مانگنے کے یکساں مواقع دستیاب نہیں۔ اس کی شکایت صرف اے این پی، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کو ہی نہیںبلکہ صوبہ بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعتوں نے بھی شکایت کی ہے کہ مختلف طریقوں سے سیاسی کارکنوں اور عوام کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات پر انتہا پسند حملے کر رہے ہیں اور پولنگ سٹیشنز کو بموں سے اُڑایا جا رہا ہے بلکہ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو زبردستی اُٹھانے اور پھر کچھ عرصہ بعد اُن کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔اس سلسلے میں چند دن پیشتر کراچی کے منگھوپیر علاقے میں سر جانی ٹاون کے قریب بلوچی نوجوان نصیب اللہ کی مسخ شدہ لاش ملی تھی جسے 24اپریل کو تربت سے اغوا کیا گیا تھا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ)کے ایک ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد قوم پرست جماعتوں کو انتخابات کے بائیکاٹ پر مجبور کرنا ہے اور اگر یہ عناصر اپنے اس مقصدمیں کامیاب نہ ہوئے تو اُن کی کوشش یہ ہے کہ عوام کو اس قدر ہراساں کیا جائے کہ اُن کی کم سے کم تعداد ووٹ ڈالنے کیلئے باہر نکلے اور اس طرح قوم پرست سیاسی جماعتوں کو مطلوبہ مینڈیٹ حاصل نہ ہو سکے۔ اس قسم کے خدشات کا اظہار ایم کیو ایم اور اے این پی نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ اُن کے امیدوار ہر ممکن طریقے سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں،تاہم ڈر ہے کہ خوف کی وجہ سے ووٹ ڈالنے والوں کی ایک بڑی تعداد گھروں میں ہی بیٹھی رہے گی۔اس کا براہ راست اثر ٹرن آئوٹ پر پڑے گا اور اگر ٹرن آئوٹ کم ہوا تو انتخابی نتائج اور خود انتخابات کی حیثیت مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو اس صورت حال کے خطرناک مضمرات سے آگاہ ہونا چاہیے۔دہشت گردوں کے یہ حملے صرف جمہوریت پر وار نہیں بلکہ ملک کے اتحاد اور سالمیت پر یلغار ہیں۔