ایک اچھی خبریہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتا ہوا استحکام کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے اس کے باوجود کہ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران فریقین کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نے ماحول میں گرما گرمی پیدا کر دی تھی۔سیاسی مطلع پر چھائی بد گمانی اور تلخی کی گرد اب آہستہ آہستہ بیٹھ رہی ہے۔چند ایک مقامات پر الیکشن کمیشن کے حکام کی کوتاہی،سرکاری مشینری کی غفلت یا کچھ سیاسی پارٹیوں کے چند امیدواروں کی غیر ذمہ دارانہ کارروائیوں کی وجہ سے دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کا ایک ایسا طوفان اُٹھا تھا کہ ایک لمحے کیلئے یہ یوں دکھائی دیتا تھا کہ یہ طوفان اپنے ساتھ پورے کا پورا انتخابی ڈھانچہ اُکھاڑ کر لے جائے گا۔لیکن اُن تمام سیاسی پارٹیوں کی جنہوں نے اپنے اپنے نکتہ نظر سے مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا،داد دینی پڑتی ہے کہ اب اُنہوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کر کے آئندہ پانچ سال کیلئے قومی یا صوبائی سطح پر اپنے اپنے کردار کو متعین کرنا شروع کر دیا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے کہا ہے کہ دھاندلیوں کے خلاف کراچی اور لاہور میں دھرنا دے کر احتجاج الیکشن کمیشن میں رجسٹرکروا دیا ہے لیکن اب مزید کوئی دھرنا نہیں ہوگا۔اس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی‘ جس کا صو بہ خیبر پختون خوا میں مکمل صفایا ہو چکا ہے‘ نے اندرونی اور بیرونی قوتوں کو اپنی شکست کاذمہ دار ٹھہرانے کے باوجود انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیاتھا۔بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن)اور بلوچ نیشنل پارٹی (بی این پی) نے خفیہ ایجنسیوں پر الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُنہیں مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے ہرایا گیا ہے۔تاہم اب یہ دونوں پارٹیاں انتخابی نتائج تسلیم کر کے صوبائی سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں۔کراچی کے حلقہ این اے 250 کے 43 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تھا لیکن نتیجہ آنے کے بعد ایم کیو ایم نے منفی رویہ اختیار نہیں کیا۔اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ انتخابی عمل کے دوران کوئی بے ضابطگیاںنہیں کی گئیں یا ان کے خلاف شکایتوں کو واپس لے لیاگیاہے، اب بھی بہت سے حلقوں کے نتائج آنے والے ہیں۔الیکشن کمیشن کو بے شمار شکائتیں بھی موصول ہو چکی ہیں لیکن ان کا ازالہ کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس ضابطہ اور طریقہ کار موجود ہے اور اس کے مطابق ان شکایتوں پر کارروائی کی جائے گی۔ لیکن یہ امر بے حد باعثِ اطمینان ہے کہ شکایت کنندگان نے آئندہ کی کارروائی الیکشن کمیشن پہ چھوڑ دی ہے۔ اس طرح انتخابی معرکہ کے دوران بھی پیدا ہونے والی تلخیوں کو پسِ پشت ڈال کر سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنمائوںنے مفاہمت اور ورکنگ ریلیشن شپ کی خاطر ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس کا آغاز سب سے پہلے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد محمد نواز شریف نے14مئی کو شوکت خانم ہسپتال میں جا کر عمران خان کی عیادت سے کیا۔صدر زرداری کی طرف سے اسلام آباد میں چینی وزیر اعظم کے اعزاز میں ظہرانے کی دعوت قبول کر کے جناب نواز شریف نے مثبت طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا اور مزید سیاسی دانشمندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایوان ِ صدر میں صدر زرداری سے مختصر ملاقات بھی کی۔ لیکن اس سمت میں سب سے بڑھ کر پیش قدمی پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کے اس بیان سے ہوئی ہے کہ انتخابات پر تحفظات کے باوجود اُن کی پارٹی وسیع تر قومی مفاد میں اور جہاں کہیں نئی حکومت کو درپیش چیلنجوں کا تقاضا ہوا،پاکستان مسلم لیگ(ن)کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت کی حمایت کرے گی۔بلکہ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان مسلم لیگ(ن) نے اس سلسلے میں پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا تو اُن کی پارٹی نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کیلئے اعتماد کا ووٹ بھی دے گی۔سید خورشید شاہ کو اُن کی پارٹی نے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کے عہدے کیلئے نامزد بھی کیا ہے۔اس لیے اُن کا یہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اگرچہ آزاد منتخب اراکین قومی اسمبلی کی پاکستان مسلم لیگ(ن) میں شمولیت کے بعد نواز شریف نہ صرف آسانی سے وزیراعظم منتخب ہو جائیںگے اور اُنہیںاعتماد کا ووٹ کے حصول میں بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کو حمایت کی یقین دہانی نہ صرف جمہوری نظام کے استحکام کیلئے بلکہ ملک کو درپیش سنگین نوعیت کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ انتخابی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ(ن) کے بعد سب سے بڑی پارٹی ہو گی۔خیال ہے کہ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی بھی اپنی ایک نشست کے ساتھ، پیپلز پارٹی کے ہمراہ مل کر متحد اپوزیشن تشکیل دیں گی اور اس کی قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہو گی۔اس طرح حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان غیر ضروری محاذ آرائی کی بجائے اہم قومی مسائل پر مفاہمت کے عمل سے ملک اور عوام دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ گزرے ہوئے دور میں بھی حکومت کو اہم قانون سازی کے موقعہ پر اپوزیشن کی ہمایت حاصل رہی ہے بلکہ اٹھارویں اور بیسویں آئینی ترامیم کو متفقہ طور پر منظورکروانے میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کا کردار بہت اہم رہا ہے۔جمہوری نظام کے تواتر اور استحکام کی خاطر پاکستان مسلم لیگ(ن)نے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا اہم مواقع پر ساتھ دیا تو اس کیلئے اسے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سُننا پڑا۔تاہم وقت نے ثابت کر دیا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن)کا موقف درست تھا۔پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد نئی منتخب حکومت کو پُر امن انتقال ِ اقتدار کو ممکین بنانے میں جہاں دیگر جمہوری قوتوں نے اپنا رول ادا کیا ہے وہاں پاکستان مسلم لیگ(ن) کا کردار بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ خود پیپلز پارٹی کو بھی اس مصالحانہ رویے سے اہم سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔خصوصاََ پنجاب میں جہاں ماضی میں کئی اہم مواقع پر اعلیٰ قیادت کے غلط فیصلوں سے عوام کی نظروں میں پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا مثلاً 1993ء میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق کے درمیان چپقلش میں پیپلز پارٹی نے موخرالذکرکا ساتھ دے کر سنگین غلطی کی تھی۔ اس تنازع کو پاکستان کے صحیح سیاسی اور تاریخی تناظر میں دیکھنے کی بجائے پیپلز پارٹی نے اسے محض دو اشخاص کی ذاتی انا کامسئلہ سمجھا اور وزیراعظم (پارلیمنٹ)اور سربراہ مملکت کے درمیان کشمکش میں اوّل الذکر کا ساتھ دینے کی بجائے غلام اسحاق کا ساتھ دیا جسے آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت آمرانہ اختیار حاصل تھے۔ اس غلطی کاخمیازہ پیپلز پارٹی کو 1997ء کے انتخابات میں بُھگتنا پڑا جب پنجاب کے عوام نے بھر پور ساتھ دے کر نواز شریف کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ قومی اسمبلی میں پہنچا دیا۔ اس طرح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک میں عوامی رائے کے بالکل برعکس موقف اختیار کر کے اور پنجاب میں شہباز شریف کو حکومت ختم کر کے گورنر راج نافذکر کے بھی پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو ملک کے عوام خصوصاََ پنجاب کے لوگوں کی حمایت سے محروم کر لیا۔اپنے دورِحکومت کے آخری تین برسوں میں پیپلز پارٹی کو وفاقی حکومت کے کچھ وزراء نے ’’تخت لاہور‘‘ کی رٹ لگا کر جس طرح پنجاب کے عوام کو اپنے خلاف کیا اُس کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو مئی2013ء کے انتخابی نتائج کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ پیپلز پارٹی صدر زرداری پر شہباز شریف کے ذاتی حملوں کو بھلا کر اگر قومی مفاد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف وسیع تر قومی مفاد میں تعاون اور حمایت کا موقف اختیار کرتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی اخلاقی فتح ہو گی۔اس سے اس کا سیاسی قد بڑھے گا اور پنجاب میں اس کا بہت خوشگوار اثر پڑے گا جو ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط گڑھ تھا۔