تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے جس سونامی کا وعدہ کیا تھا، 11 مئی کو وہ کہیں نظر نہیں آئی البتہ مسلم لیگ (ن) کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی حریف پارٹیوں کے مقابلے میں جس طرح کامیابی نصیب ہوئی وہ ایک طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک ایسا طوفان جس کے آگے بڑے بڑے تن آور درخت جڑ سے اکھڑ گئے۔ انتخابات کے بعد انتقالِ اقتدار کے مختلف مراحل میں سیاسی پارٹیوں کی نئی دھڑے بندیاں جس طرح سامنے آ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طوفان نے ان تمام سیاسی صف بندیوں کو‘ جن کے ساتھ پارٹیاں انتخابی میدان میں اتری تھیں‘ تتر بتر کر دیا ہے۔ برسوں تک ساتھ دینے اور اکٹھے اقتدار کے مزے لوٹنے والی پارٹیاں اپنے پرانے اتحادیوں کو چھوڑ کر نئے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حالت سب سے زیادہ قابلِ رحم نظر آتی ہے۔ گزشتہ مخلوط حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار پارٹیوں میں ایم کیو ایم، اے این پی، مسلم لیگ (ق) اور مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام شامل تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کافی عرصہ پہلے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور مسلم لیگ (ق) نے کچھ ہی عرصہ پیشتر پیپلز پارٹی کی سربراہی میں مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ مسلم لیگ (ق) واحد سیاسی پارٹی تھی جس نے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے ساتھ باضابطہ معاہدہ کر کے پنجاب میں 40 سے زائد نشستوں پر مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا‘ لیکن یہ معاہدہ نہ تو پیپلز پارٹی کے کام آیا اور نہ ہی اس سے مسلم لیگ (ق) کو فائدہ پہنچا بلکہ مسلم لیگ (ق) کے حلقے یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ انتخابات میں ان کی شکست کا سبب پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد تھا جسے اب وہ ایک بہت بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ کر مسلم لیگ (ق) نے اب تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ (ق) نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔ اس فیصلے کی بنیاد کسی نظریاتی ہم آہنگی یا اصول پرستی پر نہیں۔ مسلم لیگ (ق) کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے مسلم لیگ (ن)کی مخالفت اختیار کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے اسے کسی نہ کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ پہلے یہ پلیٹ فارم پیپلز پارٹی نے مہیا کیا تھا اب تحریک انصاف کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 11 مئی کے بعد پیپلز پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ اگرچہ سندھ میں اسے اسمبلی کی اتنی نشستیں حاصل ہو گئی ہیں کہ وہ اکیلے ہی صوبے میں حکومت بنا سکتی ہے؛ تاہم سندھ کی آئندہ حکومت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر مشتمل ہو گی۔ اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے رابطہ کیا اور اسے حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی لیکن ایم کیو ایم نے نہ صرف سندھ اسمبلی بلکہ قومی اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے(ن) لیگ کو ووٹ دیا۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ مرکزی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے؛ تاہم پیپلز پارٹی کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں بنیں گے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کا یہ فیصلہ حتمی نہیں اور اپنے سابقہ ریکارڈ کے مطابق وہ کسی وقت بھی سیاسی قلابازی کھا سکتی ہے اور سندھ حکومت میں اس کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں سے زیادہ عرصہ تک دور نہیں رہ سکتی۔ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم واحد پارٹیاں نہیں ہیں جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے، اسفند یار ولی خاں کی اے این پی نے بھی اپنی راہیں جدا کر لی ہیں۔ اے این پی ذرائع کے مطابق اس کے ساتھ صوبہ کے پی کے میں جو کچھ ہوا وہ پیپلز پارٹی کی ساتھی جماعت ہونے کی وجہ سے ہوا۔ اس لیے اب دیگر موقع پرست پارٹیوں کی طرح اس نے بھی مسلم لیگ(ن)کی طرف رْخ کر لیا ہے۔ لیکن پرانے دوستوں کو خیرباد کہنے اور نئی پارٹیوں میں جگہ تلاش کرنے والی پارٹیوں میں صرف اے این پی ہی شامل نہیں دیگر کئی سیاسی پارٹیاں بھی اپنے نظریے اور پالیسی سے بالاتر ہو کر اْن جماعتوں کا رْخ کر رہی ہیں جنہوں نے 11مئی کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں آفتاب احمد خان شیرپائو کی قومی وطن پارٹی اور ارباب غلام رحیم کی پاکستان پیپلز مسلم لیگ بھی شامل ہیں۔ گزشتہ مارچ میں اس پارٹی کو مسلم لیگ (ن) میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اوّل الذکر چونکہ ایک علاقائی پارٹی ہے اس لیے اس نے کے پی کے میں تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی صوبہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اْس نے وزیر اعظم کے انتخاب میں نواز شریف کو ووٹ دیا ہے حالانکہ اس کے رہنما حالیہ انتخابات میں نواز شریف کے ساتھ انتخابی اتحاد کی ناکامی پر مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو سخت تنقید کر نشانہ بنا چْکے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی پارٹیوں میں ازسرِنو صف بندیوں کا رجحان کسی نظریے پر مبنی نہیں‘ نہ ہی یہ عمل سیاسی پارٹیوں کی سابقہ پالیسوں کا تسلسل نظر آتا ہے اور نہ اس سے ان کے انتخابی منشوروں کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ یہ خالصتاً سیاسی موقع پرستی کی مثال ہے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے قول و فعل میں بھی تضاد نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سابق صدر پرویز مشرف کے پرانے ساتھیوں کے بارے میں ایک غیر لچک دار موقف اختیار کر رکھا تھا کہ ان کو کسی طور پر دوبارہ اپنے ساتھ نہیں ملایا جائے گا لیکن ارباب غلام رحیم اور میر ظفراللہ جمالی تو مشرف دور میں اعلی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ عمران خان ایک طرف تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن دوسری طرف مشرف کے ایک سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپائو کو گلے لگا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی قدامت پسند پارٹی سے اتحاد کر چکے ہیں۔ عمران خان نے انتخابات سے پہلے اپنے اس موقف کو بارہا دہرایا تھا کہ وہ کسی ایسی سیاسی پارٹی سے‘ جو گزشتہ حکومت کے ساتھ شامل اقتدار رہی ہو، نہ تو انتخابات کے دوران اور نہ ہی انتخابات کے بعد کسی قسم کا اتحاد کریں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھانے کے بعد اْن کا کیا ردِعمل ہو گا۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحادوں کی تشکیل اور تحلیل جمہوری سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے اور اس کی کسی شکل کو حتمی اور مستقل قرار نہیں دیا جا سکتا؛ تاہم عوام کا خیال ہے کہ اس عمل کی بنیاد موقع پرستی نہیں بلکہ اصول پرستی ہونی چاہیے۔