وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد جن عالمی رہنمائوں کی طرف سے جناب نواز شریف کو تہنیتی پیغامات وصول ہوئے ہیں ان میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں۔ افغان صدر نے اپنے پیغام میں وزیراعظم کو نہ صرف مبارک باد دی ہے اور پاک افغان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے بلکہ انہوں نے پاکستانی رہنما کو افغانستان کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے یہ دعوت قبول کرلی ہے۔ تاہم وہ کب افغانستان کا دورہ کریں گے ؟ یہ ابھی طے نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان کے اردگرد تیزی سے بدلتے حالات اور خصوصاً پاکستان اور افغانستان کشیدہ تعلقات کے پیش نظر وزیراعظم نواز شریف کو افغانستان کے دورے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے پاک اور قریبی تعاون پر مبنی دوطرفہ تعلقات نہ صرف حالات کا تقاضا اور وقت کی ضرورت ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے بنیادی مفادات کے عین مطابق ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ڈیورنڈلائن کے دونوں طرف اس حقیقت کا نہ تو مناسب ادراک موجود ہے اور نہ ہی ہمیں اس سمت آگے بڑھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظرآتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس معمولی واقعات پر غیرمعمولی ردعمل کا اظہار کرکے حالات کو اس حدتک بگڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ دونوں ممالک ہمسایہ ہونے اور لاتعداد قدیمی تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہونے کے باوجود، ایک دوسرے کے حلیف نہیں بلکہ حریف نظرآتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں، لیکن گزشتہ ماہ مہمندایجنسی سے ملحقہ پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر دونوں ملکوں کے مسلح دستوں کے درمیان تصادم نے ایسی قابل افسوس صورت حال پیدا کردی ہے کہ ابھی تک دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اس کے اثر سے آزاد نہیں ہوئے۔ یہ تصادم پاکستان کی جانب سے چار سرحدی چوکیوں کی تعمیر پر جھگڑے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا۔ افغانستان کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان نے یک طرفہ طورپر یہ چوکیاں افغانستان کی سرحد کے اندرتعمیر کی ہیں اور اس کا مقصد افغانستان پر دبائو ڈالنا ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ نہ تو پاکستان نئی چوکیاں تعمیر کررہا ہے اور نہ ہی پہلے سے موجود کسی چوکی کو وسیع کررہا ہے بلکہ پرانی چوکیوں کی مناسب اور ضروری مرمت کی جارہی ہے اور سارا کام پاکستانی سرحد کے اندر کیا جارہا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں کی سرحدی افواج کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک افغان محافظ ہلاک ہوگیا۔ پاکستان کے بھی تین سے چار جوان زخمی ہوئے۔ افغان سپاہی کی ہلاکت پر افغان حکومت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ عوام کی طرف سے بھی سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ افغان صدر نے اس واقعہ کو افغانستان پر پاکستان کے حملے سے تعبیر کیا اور اعلان کیا کہ پاکستان کی طرف سے اسی قسم کے دبائو کے باوجود وہ کبھی بھی ڈیورنڈلائن کو تسلیم نہیں کریں گے۔ کابل کے علاوہ دیگر شہروں میں پاکستان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ سرحد پر مامور افغان پولیس کے کمانڈرنے محض اس وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ پاکستانی فوج سے مقابلہ کرنے کے لیے اس نے بھاری ہتھیاروں اور مزید نفری کی جودرخواست کی تھی، افغان اعلیٰ حکام نے اس پر کوئی فوری قدم نہیں اٹھایا تھا۔ دوسری طرف پاکستان اور افغانستان کو ’’جڑواں بھائی‘‘ کہنے والے افغان صدر حامد کرزئی دفاعی امداد حاصل کرنے کے لیے دہلی پہنچ گئے۔ 21مئی کو ان کے دورہ بھارت پر تبصرہ کرتے ہوئے صدرکرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا کہ افغان صدر کی بھارت سے شاپنگ لسٹ پر ہروہ آئٹم موجود ہے جس سے افغانستان کے دفاعی اداروں کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اس موقعہ پر بھارت کی طرف سے بھی اعلان کیا گیا کہ افغانستان کو اس کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے ہروہ امداد دی جائے گی جس کے لیے افغانستان کے حکام درخواست کریں گے۔ افغان صدر کرزئی تو جوش میں یہاں تک چلے گئے کہ انہوں نے پاکستان کو دشمن ملک قراردے کر طالبان کو اکسانے کی کوشش کی کہ وہ افغانستان کے اندر کارروائیاں کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف جنگ کیوں نہیں کرتے جس کی افواج آئے دن بقول کرزئی افغانستان کے اندر توپوں کے گولے برسا کر افغان فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب بقول امریکہ اور نیٹو افغانستان سے اتحادی افواج کے آرام سے انخلا اور اس کے بعد افغانستان میں امن کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر امن اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اشد ضروری ہے۔ اپریل میں برسلز کے مقام پر نیٹو وزرائے دفاع کی کانفرنس کے موقعہ پر نیٹوکے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن اور استحکام کے قیام کے لیے پاکستان سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کی طرف سے مثبت تعاون انتہائی ضروری ہے۔ اسی موقعہ پر امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے ، صدر حامد کرزئی کی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی سے بھی ملاقات کروائی تھی۔ اس ملاقات کا مقصد بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور تعاون کو فروغ دینا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان ملاقاتوں کے باوجود پاکستان اور افغانستان میں سردمہری ختم نہیں ہوئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے مطابق پرانے میکانزم کے اندر ملاقاتیں جاری ہیں جیسے جمعہ کو راولپنڈی میں ایساف کے کمانڈر جنرل جوزف ڈن فورڈ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افغانستان کی نیشنل آرمی کے چیف آف دی جنرل سٹاف جنرل شیرمحمد کریمی کے درمیان سہ فریقی کانفرنس ہوئی ہے۔ اس کانفرنس میں جہاں علاقائی سلامتی سے متعلق دیگر امور پر بات چیت ہوئی وہاں دونوں ملکوں کی سرحد پر حالات کو کنٹرول میں رکھنے پر خصوصاً بحث کی گئی۔ ان ملاقاتوں کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحدی فوجوں کے درمیان فوری تصادم کا خطرہ تو ٹل گیا ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف الزام بازی بھی بند کردی ہے لیکن گزشتہ ماہ کے اوائل میں ہونے والے سرحدی واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی اور بدگمانی ابھی باقی ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کو اپنی جانب سے ہروہ اقدام کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں یہ کشیدگی اور بدگمانی دورہوسکتی ہے کیونکہ اب یہ احساسات عوامی سطح پر پہنچ گئے ہیں اور اگر فضا کو صاف کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی، قریبی تعاون اور خیرسگالی پیدا کرنے کے لیے اب تک جوبھی کوششیں کی گئی ہیں وہ سب ضائع جائیں گی۔