گزشتہ ڈھائی برس کے عرصہ میں مصر میں دوانقلاب رونما ہوئے۔ پہلا انقلاب جنوری 2011 ء میں سابق صدر حسنی مبارک کے استعفے کی صورت میں آیا‘ دوسرا انقلاب 3جولائی 2013ء کو صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں اقتدار سے علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ دونوں واقعات میں اختلافات بھی ہیں اور مماثلتیں بھی۔ حسنی مبارک کو عوام کے غیض وغضب کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ 2011میں قاہرہ کے تحریر سکوائر میں لاکھوں لوگوں کا اجتماع تھا اور 2013ء میں بھی یہیں لاکھوں لوگ جمع ہوکر صدر مرسی کے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے۔ فرق یہ ہے کہ 2011ء میں مصری عوام حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کررہے تھے جو تیس سال سے اقتدار پر قابض تھا اور ملک پر ایک آمر کی حیثیت سے حکومت کررہا تھا، جبکہ مرسی جمہوری طریقے سے منتخب صدر تھے۔ یہ مصر کے پہلے جمہوری صدارتی انتخابات تھے اور مبصرین کی رائے میں صاف، شفاف اور آزادانہ تھے۔ حسنی مبارک کو فوج نے عوامی دبائو کے تحت اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور اب صدر مرسی کو بھی فوج نے معزول کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف مسلسل اٹھارہ روز تک تحریر سکوائر اور دارالحکومت قاہرہ کے علاوہ ملک کے دیگر بڑے بڑے شہروں کی سڑکوں اورگلیوں میں بچے، عورتیں، نوجوان اور بوڑھے لاکھوں کی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کرتے رہے تب جاکر فوج نے انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا‘ اس دفعہ صرف چاردن کے احتجاجی مظاہروں کے بعد فوج نے صدر مرسی کوالٹی میٹم دے کر عہدے سے الگ کردیا؛ البتہ 2011ء کے برعکس حکومت پر خودقبضہ کرنے سے اجتناب کیا۔ 2011ء میں حسنی مبارک کے وزیر دفاع اور مسلح افواج کے سربراہ نے حکومت کی باگ ڈور خود اپنے ہاتھ میں لے لی تھی جسے وہ چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن عوامی احتجاج کی ایک اور لہر نے بالآخر انہیں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کروانے پر مجبور کردیا۔ ان انتخابات میں مصر کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی انتہائی منظم مذہبی جماعت اخوان المسلمون نے کامیابی حاصل کی۔ اپنی حلیف سیاسی جماعتوں سے مل کر اخوان نے پارلیمنٹ کی تقریباً 70فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ صدارتی انتخاب میں اس کے امیدوار محمد مرسی نے اپنے حریف کے مقابلے میں 51.7فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن صرف ایک سال کے عرصہ میں صدر مرسی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرا، لاکھوں کی تعداد میں مصری عوام ایک دفعہ پھرتحریر سکوائر میں جمع ہوکر ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔ مبصرین کے مطابق عوام کے یہ احتجاجی مظاہرے حجم کے اعتبار سے 2011ء کے احتجاجی مظاہروں سے بڑے تھے جس پر خود مصری بھی حیران تھے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے صرف ایک سال کے عرصہ میں عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کی چھٹی ہوگئی؟ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے علاوہ خود صدر مرسی کے رویے نے لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنا مخالف بنالیا۔ مصری عوام کو شکایت ہے کہ منتخب ہونے کے بعد مرسی نے اپنے آپ کو ملک کا صدر ثابت کرنے کی بجائے اخوان المسلمون کے نمائندے کے طورپر پیش کیا۔ مصر کی 90فیصد آبادی مسلمان ہے اور ان کی اکثریت سنی مسلک کی پیروکار ہے۔ اخوان المسلمون ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے‘ جس کا سب سے بڑا نعرہ یہ ہے کہ اسلام ہر مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ سیاسی جماعت جس کی بنیاد 1928ء میں مشہور مصری سکالر حسن البنا نے رکھی تھی‘ اسلام اور اسلامی ریاست کے بارے میں ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتی ہے اور اسی کے مطابق مصری ریاست اور معاشرے کو مذہب کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ لیکن مصری عوام کی بہت بڑی تعداد مسلمان ہونے کے باوجود اخوان المسلمون کے نظریے اورپروگرام سے متفق نہیں۔ مصر کے پڑھے لکھے اور شہری طبقوں سے وابستہ لوگ لبرل اور سیکولر اقدار کے حامی ہیں۔ اس کا اندازہ ملک کے حالیہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے نتائج کے تجزیے سے لگایا جاسکتا ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں نشستوں کے اعتبار سے اخوان المسلمون کی کامیابی 43فیصد تھی جس کی بنا پر بے شک اسے پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارٹی کا مقام حاصل تھا‘ لیکن بھاری اکثریت کے حصول کے لیے اسے دیگر ہم خیال لیکن انتہا پسند سیاسی مذہبی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا۔ صدارتی انتخاب کے دوسرے رائونڈ میں صدر مرسی کو اپنے حریف پر 51.7فیصد ووٹ سے برتری حاصل تھی‘ لیکن پہلے رائونڈ میں ان کے مخالف امیدواروں نے مجموعی طورپر 55فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اخوان المسلمون اور صدر مرسی کو بالترتیب پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں کم فرق سے کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد اخوان المسلمون نے اپنی تشریح کے مطابق ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا شروع کردیا ۔ اس میں صدر مرسی نے ان کی پوری پوری مدد کی۔ جن حکومتی اداروں سے مزاحمت کا خدشہ تھا مثلاً عدلیہ، میڈیا اور بیوروکریسی‘ انہیں بے اثر بنانے کے لیے گزشتہ نومبر میں صدر مرسی نے یک طرفہ طورپر آئین میں تبدیلی کرکے خصوصی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ بیشتر ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی کا رویہ آمرانہ تھا۔ اس رویے کی وجہ سے وہ لوگ‘ جنہوں نے گزشتہ جون میں ان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا، ان کے خلاف ہوکر احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوگئے۔ لبرل اور سیکولر سوچ کے حامیوں کا موقف ہے کہ صدر مرسی کی کھلم کھلا اعانت کے ساتھ اخوان المسلمون حکومت کے ہرشعبے میں تیزی سے سرایت کررہی تھی اور اہم حکومتی عہدوں پر تقرریاں میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر کی جارہی تھیں۔ اس سلسلے میں مصر کے 17صوبوں میں نئے گورنروں کی تقرری کی مثال دی جاتی ہے جو تمام اخوان المسلمون یا اس کی حلیف انتہا پسند مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اب جبکہ فوج نے آئین کو منسوخ کرکے ملک کے چیف جسٹس عدلی منصور کوقائم مقام صدر کے عہدے پر فائز کردیا ہے‘ مصر کے مستقبل کے بارے میں کئی مشکل سوالات ابھررہے ہیں۔ پہلا اور سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا فوج ملک میں اتحاد اور امن کی فضا بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ مبصرین کے مطابق 2011ء کے مقابلے میں مصری سیاست اور معاشرے میں کھچائو ہے۔ فوج نے سیاسی اختلافات بھلاکر قومی وحدت اور صلح کی اپیل کی ہے لیکن اخوان نے 3جولائی کے واقعات کو عوامی مینڈیٹ پر شب خون قرار دے کر اس کے خلاف پرامن لیکن بھرپور احتجاج کی کال دی ہے۔ اگرچہ حالیہ مظاہروں کے مقابلے میں اخوان المسلمون اپنے حامیوں کی قابل قدر تعداد سڑکوں اور گلیوں میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی لیکن اس کی عوام میں جڑیں بہت گہری ہیں اور ایک وسیع تنظیمی ڈھانچے اور ہزاروں ورکرز کے ذریعے احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گزشتہ روز اخوان المسلمون نے قاہرہ میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا۔ یہ ریلی اس کی طرف سے طاقت کے مظاہرے کے مترادف تھی۔ اخوان المسلمون کو زیرزمین سیاسی سرگرمیوں کا بھی وسیع تجربہ ہے۔ 1970ء سے پہلے حکومتی استبداد کا مقابلہ کرنے کے لیے اخوان المسلمون نے زیرزمین رہ کر نہ صرف اپنی سرگرمیاں جاری رکھی تھیں بلکہ اپنی تنظیم کو اور بھی مضبوط بنالیا تھا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر فوج نے اخوان المسلمون کی احتجاجی تحریک کو سختی سے دبانے کی کوشش کی تو وہ 1970ء کی دہائی سے پہلی کی پرتشدد اور زیرزمین سیاست کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔ مصر میں امن اور استحکام کا انحصار دواور باتوں پر بھی ہے۔ ایک یہ کہ فوج کتنی جلد نیا آئین تیار کرکے آزادانہ انتخابات کے ذریعے جمہوری سیٹ اپ قائم کرتی ہے اور دوسری یہ کہ اس وقت مصری عوام کو مہنگائی ، بیروزگاری ، بجلی اور پٹرول کی کمی اور دیگر اشیا ضرورت کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے کتنی جلدی نجات مل سکتی ہے۔ صدر مرسی کی حکومت نے ان مسائل کے حل کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا اور یہی ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث ثابت ہوا۔ فوج کی سرپرستی میں قائم موجودہ حکومت اگر عوام کو درپیش ان مشکلات کے حل میں کوئی پیش قدمی حاصل نہ کرسکی تو اس کے خلاف بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس کا حتمی فائدہ تو اخوان المسلمون کو حاصل ہوگا؛ تاہم مصر غیرمعینہ عرصہ کے لیے ایک غیریقینی سیاسی صورت حال اور سماجی خلفشار سے دوچار رہے گا جس کے مصر کی معیشت، سیاست‘ سلامتی اور سماج پر دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔