"DRA" (space) message & send to 7575

پاک بھارت کشیدگی

بھارت کے ساتھ کشیدگی سے پاک، پاک بھارت تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نوازشریف نے کچھ عرصہ پیشتر کہا تھا کہ دنیا میں پاکستان اور بھارت دو واحد ممالک ہیں جن کی سرحدوں پر آئے دن جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس بیان کا پس منظر یوں ہے کہ اس سال جنوری میں بھارت کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستانی فوج نے بلا اشتعال دو بھارتی سپاہیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ ان میں سے ایک سپاہی کا سر کاٹ کر لے جایا گیا اور دوسرے سپاہی کی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔ بھارت میں اس واقعہ پر بہت شور بپا ہوا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے کچھ سمجھدار اور اعتدال پسند حلقوں کی مداخلت کے باعث اگرچہ لائن آف کنٹرول پر تعینات دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان اکا دکا جھڑپیں ہوتی رہیں اور کشیدگی کا ماحول جاری رہا، تاہم اس واقعہ کی آڑ میں بھارت نے امن مذاکرات کے سلسلے کو منقطع نہ کیا بلکہ نومنتخب پاکستانی وزیراعظم کے چند مثبت اور اہم بیانات کا خیرمقدم کرتے ہوئے دو طرفہ بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔ اس کے ساتھ پاکستان نے بیک چینل ڈپلومیسی استعمال کرتے ہوئے ٹریکII- ڈپلومیٹک چینل کو بھی بحال کردیا۔ لائن آف کنٹرول پر6اگست کے افسوسناک واقعہ سے پہلے دونوں ملکوں میں اس مذاکراتی عمل کو بحال کرنے پر اتفاق ہوچکا تھا اور اسی سلسلے میں سرکریک اور وولر بیراج پر بات چیت کیلئے تاریخیں بھی مقرر ہوچکی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ کمپوزٹ ڈائیلاگ (Composite dialogue) میں حصہ لینے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ 20جولائی کو وزیراعظم نوازشریف کی دفتر خارجہ میں بریفنگ اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے وزارت خارجہ کو بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن عین اس موقع پر لائن آف کنٹرول پر پانچ بھارتی سپاہیوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ واقعہ کی ٹائمنگ کے حوالے سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جب بھی کوئی اہم قدم اٹھانے والے ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور رونما ہوجاتا ہے جس سے نہ صرف تعلقات کو بہتر بنانے کا یہ عمل رک جاتا ہے بلکہ پرانے شکوک وشبہات اور کشیدگی پھر سے سر اٹھا لیتی ہے۔ اب بیشتر مبصرین کے مطابق اس واقعہ پر بھارت، خصوصاً اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے جو ضرورت سے زیادہ سخت بلکہ اشتعال انگیز ردعمل سامنے آیا ہے، اس کے پیچھے بھی دونوں جانب سے وہ عناصر ہیں جو نہ صرف پاک بھارت مذاکراتی عمل کے احیا کو روکنا چاہتے ہیں بلکہ ستمبر میں وزیراعظم نوازشریف اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی نیویارک میں متوقع ملاقات کو سبوتاژ کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ گزشتہ جنوری کے واقعہ کی طرح اس مرتبہ بھی میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس کی شکایت خود بھارتی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کی‘ جس میں انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے۔ میڈیا نے وزیردفاع اے۔کے انتھونی کو ان کے پارلیمنٹ میں پہلے بیان پر جس طرح آڑے ہاتھوں لیا، وہ بھی بھارتی میڈیا خصوصاً الیکٹرونک میڈیا کے تعصب اور جارحانہ رویّے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کانگریس کی موجودہ حکومت کی بدقسمتی یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب بھارت میں سال 2014ء کے انتخابات کی مہم شروع ہوچکی ہے۔ اس انتخابی مہم میں بی جے پی نے کانگریس کو ہرانے کے لیے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی کو سب سے آگے رکھا ہے۔ دو دن پیشتر آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد میں ایک بہت بڑے جلسے میں نریندرا مودی نے لائن آف کنٹرول کے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر کانگریس کی مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے پاکستان اور چین کی طرف سے مبینہ سرحدی خلاف ورزیوں پر کمزور موقف اختیار کرکے بھارت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 2004ء کے امن مذاکرات کی بنیاد بی جے پی کے دور میں رکھی گئی تھی اور 2003ء کی لائن آف کنٹرول کی فائر بندی کا سہرا بھی بی جے پی کے لیڈر اور وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کے سر ہے، لیکن اپوزیشن میں رہتے ہوئے بی جے پی نے سخت پاکستان مخالف رویّے کا مظاہرہ کیا ہے۔ بی جے پی کی پارلیمانی لیڈر شپ کے سخت احتجاج کے بعد وزیر دفاع انتھونی کو اپنا پہلا بیان واپس لینا پڑا اور اپنے دوسرے بیان میں انہوں نے نہ صرف واقعہ میں پاک فوج کے براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ لائن آف کنٹرول پر موجود بھارتی افواج کو ہر قسم کے اقدام کی آزادی دے دی گئی ہے اور یہ کہ اس واقعہ سے پاک بھارت مذاکراتی عمل بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ اگرچہ بھارت نے رسمی طور پر مذاکراتی عمل کے منقطع ہونے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی ستمبر میں من موہن سنگھ، نوازشریف ملاقات کو خارج از امکان قرار دیا ہے تاہم وزیر دفاع کے دوسرے بیان اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بکرم سنگھ کے دورہ کے بعد کنٹرول لائن پر بھارت کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ اس فائرنگ کا پاکستان کی طرف سے بھی جواب دیا جارہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر ان سرحدی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ جھڑپوں کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے جس سے سویلین آبادی کا جانی اور مالی نقصان ہورہا ہے۔ کیا لائن آف کنٹرول پر پھر سے 2003ء سے پہلے والی صورتحال لوٹ آئے گی؟ اگر ایسا ہوا تو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیری لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہوگی اور اس سے گزشتہ 9برس سے جاری پاک بھارت امن مذاکرات کو ایک ایسا دھچکا لگے گا جس سے یہ شاید اب کی بار سنبھل نہ سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں