ایک ماہ کی سخت کشیدگی کے بعد پاکستان اور بھارت ایک دفعہ پھر امن اور بات چیت کی راہ اپنانے پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کی اس ماہ کے آخر میں نیویارک میں ملاقات کا قوی امکان ہے۔ دونوں رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک پہنچیں گے۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی طرف سے دونوں سربراہوں کی ملاقات کی تجویز پیش کی گئی تھی‘ لیکن گزشتہ ماہ کے شروع میں لائن آف کنٹرول پر پانچ بھارتی فوجی جوانوں کی ہلاکت کے واقعہ نے اس ملاقات کو غیریقینی بنادیا تھا‘ کیونکہ بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور میڈیا کی طرف سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت پر سخت دبائو تھا کہ وہ نیویارک میں پاکستانی وزیراعظم سے اپنی ملاقات کو منسوخ کردیں۔ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر ردعمل کے طورپر بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے اُس پار سے پاکستانی علاقوں پر جو مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کی جارہی تھی‘ اس نے اس ملاقات کے امکان کو اور بھی کم کردیا تھا۔ کیونکہ پاکستان میں بھی انتہا پسند لابی کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ ان حالات میں بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کا پروگرام ڈراپ کردیں‘ لیکن دونوں حکومتوں نے انتہائی دانش مندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف حالات کو مزید بگڑنے سے روکا بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے وسیع تر مفاد میں اور خطّے میں امن کی خاطر اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف اور من موہن سنگھ کی ملاقات میں کسی ڈرامائی بریک تھرو کی توقع نہیں‘ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون اور جنوبی ایشیا میں سلامتی اور استحکام کے خواہش مند لوگوں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد پاک بھارت ڈائیلاگ پراسیس بحال ہوجائے گا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات روک تو دیئے تھے لیکن انہیں ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اسی طرح وزیراعظم نواز شریف جنہوں نے اس عرصہ میں صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی اشتعال انگیزی کا ترکی بہ ترکی جواب دینے سے احتراز کیا تھا، اپنے اس موقف پر ثابت قدمی سے قائم رہے جس کے تحت انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات کے خواہش مند ہیں اور جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے، وہ امن‘ تعاون اور باہمی تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں سے 1999ء میں ٹوٹا تھا۔ نواز شریف اور من موہن سنگھ کی ملاقات کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک طرف لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے درمیان کراس فائرنگ ہورہی تھی اور بھارتی وزیردفاع دھمکی آمیز بیانات جاری کررہے تھے، دوسری طرف پاکستان اور بھارت کی طرف سے مقررکردہ خصوصی نمائندے برائے ٹریک ٹو ڈپلومیسی یعنی سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خاں اور بھارتی وزیراعظم کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایس کے لانبا ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ نہ صرف حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جائے بلکہ وزیراعظم نواز شریف اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی نیویارک میں ملاقات کو ممکن بنایا جائے۔ ان سابق سفارتکاروں کی کوششوں سے ہی بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید اور وزیراعظم نواز شریف کے خصوصی معاون برائے خارجہ امور اور نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز کی کرغیزستان میں 13ستمبر کو ملاقات طے پائی ہے۔ دونوں رہنما شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ شہریار خاں نے وزیراعظم نوازشریف سے گزشتہ روز جو ملاقات کی وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان وزرائے اعظم کی سطح پر نیویارک میں ملاقات پر اتفاق ہوچکا ہے اور اب اس ملاقات کے طریقہ کار اور ایجنڈے کو طے کیاجارہا ہے تاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر یہ رابطہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ بھارتی میڈیا میں چھپنے والی اطلاعات کے مطابق نواز شریف من موہن سنگھ ملاقات میں بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر تشدد کے واقعات پر بات کی جائے گی۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی فوج لشکرطیبہ کے جہادی دستوں کو لائن آف کنٹرول پارکرنے میں اعانت فراہم کرتی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے اس الزام کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ پاکستان نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ 6اگست جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے دونوں ممالک کے درمیان طے شدہ فوجی اور سیاسی رابطوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ایک سے زیادہ ملاقاتیں ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں صورت حال مزید بگڑنے سے بچ گئی لیکن بھارت کا اصرار ہے کہ لائن آف کنٹرول پر صورت حال مستقل اور مکمل طورپر پُرامن اور مستحکم ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت کو یقین ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھی ایسا ہی چاہتی ہے کیونکہ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعدبھی نواز شریف نے مختلف مواقع پر اپنے بیانات میں اسی عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک خاص طورپر ہمسایہ ممالک‘ جن میں بھارت بھی شامل ہے‘ کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات اور تعاون‘ خصوصاً تجارت اور کاروبار کے شعبوں میں‘ قائم کرنے کی جس شدت کے ساتھ نواز شریف نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے بھارتی حکومت اس سے بہت متاثر نظرآتی ہے۔ بھارت کے بعض اہم سابقہ سفارت کار اور فوجی رہنما اسی بات کے شدید حامی ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں کیونکہ وہ نہ صرف ایک جمہوری اور منتخب حکومت کے سربراہ ہیں بلکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے حامی ہیں۔ اگرچہ نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ مسائل ہی زیربحث آئیں گے، تاہم ان دنوں نیویارک میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کی موجودگی سے اس ملاقات میں ایک اور اہم جہت کا اضافہ ہوجائے گا۔ اطلاعات کے مطابق صدر اوبامہ تینوں رہنمائوں سے ملاقات کریں گے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ امریکی صدر وزیراعظم نواز شریف‘ ڈاکٹر من موہن سنگھ اور حامد کرزئی کے ساتھ الگ الگ ملاقات کے علاوہ اکٹھے بھی ملاقات کریں گے یا نہیں؛ تاہم ان تینوں رہنمائوں کی نیویارک میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی حکام ایک دفعہ پھر افغانستان کے مسئلے پر پاکستان بھارت اور افغانستان کے درمیان اتفاق اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے نیویارک میں نواز شریف من موہن سنگھ کی ملاقات ہرلحاظ سے ایک اہم اور سود مند اقدام ہے۔ اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدگی کم ہوگی‘ دوطرفہ مسائل کے حل کیلئے بات چیت کی راہ ہموار ہوگی اور جنوبی ایشیا میں امن اور تعاون کے امکانات روشن ہوں گے۔