صدر آصف علی زرداری اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 8ستمبر کو سبکدوش ہو چکے ہیں۔وہ پاکستان کے گیارہویں صدر تھے لیکن اپنے تمام پیشروئوں کے برعکس انہیں باقاعدہ اور ایسے باوقار طریقے سے الوداع کیا گیا جو ایک سربراہِ مملکت کے شایان شان ہوتا ہے۔ ملک بھر میں ان کی جمہوری اور منتخب مدت پوری ہونے اور صدارتی منصب ان کے جانشین کے حوالے کرنے کے عمل کو سراہا جا رہا ہے اور اِسے پاکستان میں جمہوری عمل کے مسلسل اور سیاسی استحکام کیلئے ایک نیک شگون قرار دیا جارہا ہے۔جب ہم ماضی کی تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے سابق صدر زرداری کے پیشروئوں کی رخصتی کی داستان پر نظر ڈالتے ہیں تو زرداری صاحب کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی تقریب کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جاتاہے۔ 1956ء کے آئین کے نفاذ سے قبل پاکستان میں سربراہِ مملکت کو گورنر جنرل کہا جاتا تھا اور اس کے تقرر کا اختیار تاجِ برطانیہ کے ہاتھ میں تھا۔پاکستان کے پہلے گور نر جنرل یعنی قائد اعظم محمد علی جناح بیماری کی وجہ سے اپنی مدت کے دوسال بھی پورے نہ کر سکے اور گیارہ ستمبر1948ء کو وفات پا گئے۔ان کے بعد مسلم لیگ میں سب سے طاقتور شخصیت وزیراعظم لیاقت علی خاں کی تھی لیکن انہوں نے گورنرجنرل کا عہدہ نہ سنبھالا اور بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک اور لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کی مسند پر بٹھا دیا۔خواجہ ناظم الدین اتنے شریف النفس انسان تھے کہ وہ بطور گورنر جنرل اپنی تقرری کو نہ تو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور نہ تاجِ برطانیہ بلکہ وزیراعظم لیاقت علی خاں کی مہربانی کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ حالانکہ 1935ء کے ایکٹ جو اس وقت پاکستان کا عبوری آئین تھا،کے مطابق گورنر جنرل کا عہدہ وزیراعظم کے عہدے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بااختیار تھا۔اس کا احساس خواجہ ناظم الدین کو نہیں تھا مگر جنرل ایوب خاں اور میجر جنرل(ر)سکندر مرزا کو بخوبی اندازہ تھا جو16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان کی شہادت کے موقعہ پر فوج اور نوکر شاہی کے نمائندوں کی حیثیت سے حکومت میں کافی اثرورسوخ حاصل کر چکے تھے۔ان دو حضرات کی پلاننگ کے مطابق غلام محمد،جو نہ صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بلکہ امریکہ کے بھی منظور نظر تھے کو گورنرجنرل بنایا گیا۔ان دنوں روس کے ساتھ سرد جنگ کی محاذ آرائی کی وجہ سے امریکہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں اتحادیوں کی تلاش میں تھا اور جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستان پر اِس کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔غلام محمد ان کے نزدیک موزوں ترین آدمی تھا کیونکہ نہ صرف وہ مزاج کے اعتبار سے سخت گیر تھا بلکہ جمہوریت کے بارے میں بھی اس کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔غلام محمد بھی بیماری کے باعث اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور قدرت اللہ شہاب کے مطابق جب ان کی وفات کی خبر ریڈیو پاکستان پر نشر ہوئی تو ان کی جرمن نژاد سابق سیکرٹری مس رتھ کے علاوہ دو آنسو بہانے والا اورکوئی نہ تھا۔1956ء کا آئین اگرچہ عبوری آئین (1947-54ء)سے زیادہ جمہوری تھا،تاہم سکندر مرزا جنہوں نے غلام محمد کی وفات پر گورنرجنرل کی گدی سنبھالی تھی،کے اصرار پر اس میں صدر کو وزیراعظم کے مقابلے میں زیادہ اختیارات سے نوازا گیا تھا۔ پاکستان کے پہلے آئین کے تحت پارلیمانی دورِ حکومت (1956-58ء) کے دوران میں سکندر مرزا نے ان اختیارات کو خوب استعمال کیا اور ڈھائی برس کے قریب اس قلیل عرصے میں چار وزرائے اعظم بدلے ۔کیونکہ آئین کے تحت صدر کو قومی اسمبلی کے اراکین میں سے کسی کو بھی بطور وزیراعظم نامزد کرنے کا اختیار حاصل تھا۔جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو7اکتوبر 1958ء کو پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ملکر آئین منسوخ کرکے مارشل لاء لگادیا۔ لیکن20دن بعد ہی اپنے پرانے دوست جنرل ایوب خاں اور اس کے جرنیل ساتھیوں کے الٹی میٹم پر مستعفی ہو کر جلاوطن ہوناپڑا۔ایوب خاں نے ملک پر تقریباََ ساڑھے دس برس حکومت کی۔ایک ملک گیر عوامی تحریک نے اسے بالآخر اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔اپنے ہی بنائے ہوئے سیاسی نظام یعنی 1962ء کے آئین کو اپنی آنکھوں کے سامنے تحلیل ہوتے دیکھا۔ملک میں ایک فوجی حکومت کی جگہ دوسری نئی فوجی حکومت نے لے لی۔جنرل یحییٰ خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے دسمبر1972ء تک سیاہ وسفید کے مالک بنے رہے۔انہیں بھی اقتدار سے زبردستی الگ کیاگیا۔ان کے بعد پاکستان کے جتنے بھی صدر آئے انہیں نارمل اور پرامن انداز میں اپنی عہدوں سے الگ ہونا نصیب نہ ہوا۔ان کے ساتھ گزرنے والی عبرت ناک وارداتوں پر مشتمل داستان چونکہ پرانی نہیں ہے اور عوام کے ذہنوں میں اس کی یاد ابھی تازہ ہے اس لیے اسے یہاں دہرانا ضروری نہیں۔ آصف زرداری کے پانچ سالہ دورِ صدارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے بدترین ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیںکہ انہوں نے یہ عرصہ صبروتحمل سے گزار کر پاکستان میں جمہوری نظام کے تسلسل کی بنیاد رکھی ہے۔حالانکہ کوئی الزام ایسا نہیں جو ان کی ذات پر نہ لگا ہو اور کوئی اشتعال انگیزی ایسی نہیں جو ان کے خلاف ان کے مخالفین نے نہ کی ہو۔اس مقصد کیلئے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے ٹاک شو اور اینکر پرسن نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ایک اینکر پرسن جو دبئی سے پاکستان کے دو سب سے \"پاپولر\" ٹی وی چینلز کے خصوصی میزبان ہوتے تھے،مستقل طور پر اسی مشن پر تھے کہ صدر زرداری کو اندرون ملک اور بیرون ملک اتنا بدنام کیا جائے کہ وہ صدارت سے مستعفی ہوجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران مقتدر حلقوں کی طرف سے بھی ان پر مستعفی ہونے کیلئے سخت دبائو تھا اور ان کو پیغام پہنچایا گیا تھا کہ اگر انہوں نے رضا کارانہ طور پر ایسا نہ کیا تو ایوان صدر سے ان کی لاش ایمبولینس میں بھیجی جائے گی۔ ایک انگریزی زبان کے اخبار کے کالم نویس جو اپنے آپ کو ’’انویسٹی گیٹو جرنلسٹ‘‘ کہلواتے ہیں،انہیں صدر اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں سوائے کرپشن ،بے ایمانی،نااہلی اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی صحافی حضرات تھے جو اپنے کالموں میں زرداری کے استعفے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کو محض چند دنوں کی بات قرار دیتے تھے۔ آصف علی زرداری کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈے اور تابڑ توڑ حملوں کا سبب یہ نہیں تھا کہ وہ اپنے منصب کے منافی یا ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف تھا بلکہ ان کا اصل قصور یہ تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے نمائندہ صدر تھے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس پارٹی کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا کیونکہ یہ پارٹی قومی معاملات میں عوام کی سیاسی بالادستی کی حامی رہی ہے۔ صدر منتخب ہونے کے فوری بعد آصف علی زرداری نے پاک بھارت تعلقات اور کشمیر میں جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کے بارے میں جو دلیرانہ بیانات دیے تھے،ان سے پیپلز پارٹی کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کی بدگمانی میں اور بھی اضافہ ہوا۔بیرون ملک تبصرہ نگاروں کی اکثریت کی رائے میں صدر زرداری بھارت اور افغانستان کے بارے میں پاکستان کی روایتی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتے تھے۔لیکن مقتدر حلقوں نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔اندرون ملک ان کی مفاہمت کی پالیسی کی سب سے درخشندہ مثال اے۔این۔پی کے ساتھ اتحاد اور صوبہ سرحد کا پرانا نام تبدیل کر کے خیبرپختون خوا منظور کروانا تھا۔لیکن بابر اعوان اور رحمان ملک جیسے مشیروں کا مشورہ تسلیم کر کے پنجاب میں گورنر راج کا نفاذ اور ’’تختِ لاہور‘‘ کی رَٹ لگا کر پنجاب اور خصوصاََ لاہور کے لوگوں کو مشتعل کرنا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی اور اسی غلطی کی وجہ سے مئی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب میں عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔