"DRA" (space) message & send to 7575

اہم ملاقات

نیو یارک میں وزیراعظم محمد نواز شریف اور اْن کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کے درمیان آخر کار ملاقات ہوگئی۔اطلاعات کے مطابق دونوں رہنمائوں نے تقریباََ75منٹ گفتگو کی ۔ملاقات کے بعد بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ملاقات میں اْن تمام اہم مسائل پر گفتگو ہوئی جن کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات خراب چلے آرہے ہیں۔بھارت کی جانب سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کا مسئلہ اْٹھایا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر پیش آنے والے حالیہ افسوس ناک واقعات کی مشترکہ تحقیقات کی پیش کش کی گئی تھی۔اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے اپنے اپنے ڈی جی ایم اوز(DGMOs)کو اس بات پر مامور کیا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام اور مستقل امن کو یقینی بنانے کیلئے انتظامات کی نشان دہی کریں۔یہ اقدام پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے کیونکہ اس سال کے اوائل میں اور پھر اگست کے آغاز میںجب چند ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی تھی،تو پاکستان نے مشترکہ تحقیقات کی پیش کش کی تھی جسے بھارت نے مسترد کر تے ہوئے براہِ راست پاکستانی فوج پر بھارتی جوانوں کی ہلاکت کا الزام عائد کیا تھا۔ جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اْن سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے کھل کر باتیں کی ہیں۔بھارتی وزیراعظم نے ایک دفعہ پھر دہشت گردی کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے ممبئی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت کا سوال اْٹھایا گیا۔جسے بھارتی وزیراعظم نے مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت پاکستان کے کسی حصے میں دہشتگردی میں ملوث نہیں۔سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کے مطابق ملاقات میں کشمیر پر بھی بات ہوئی۔ ملاقات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل یا اختلافات کو کم کرنے کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔اگرچہ دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے ہاں آنے کی ہامی بھر لی ہے،لیکن دوروں کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔سب سے زیادہ مایوس کْن بات یہ ہے کہ آٹھ ماہ سے معطل کمپوزٹ ڈائیلاگ کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔اس کا مطلب یہی ہے کہ امن مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکے گااور اس سال کے شروع میں جہاں رُکا تھا۔ وہیں رُکا رہے گا۔ سابق حکومت کے دور میں پاکستان اور بھارت نے اپنے دوطرفہ تعلقات خصوصاََ تجارت کے شعبے میں جن مزید اقدامات پراتفاق کیا تھا،اْن پر عمل درآمد نہیں ہوسکے گا۔سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کو ایم ایف این(MFN)کا درجہ دینے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔لیکن پاکستان اسے زیادہ دیر تک موخر نہیں کرسکتاکیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف کی طرف سے اس مسئلے پر پاکستان کو دبائو کا سامنا ہے اوردوسری طرف اندرونِ ملک بھی بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس ملاقات کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سے پاک بھارت تعلقات میں گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے واقعات سے جو کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اْس میں کمی کا تاثر ملتا ہے۔بھارتی اور پاکستانی حلقوں کی اطلاع کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔شیوشنکرمینن نے میڈیا سے گْفتگو سے قبل جو بیان دیا ہے،اْس میں اْنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ ملاقات نہ صرف مفید رہی بلکہ ضروری بھی تھی۔حالانکہ کچھ عرصہ پیشتر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید یہ ملاقات نہ ہو سکے کیونکہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت پر اپوزیشن میں سب سے بڑی جماعت بی جے پی کی طرف سے اس ملاقات کو منسوخ کرنے کیلئے سخت دبائو تھا۔چند روز پیشتر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دونوں وزرائے اعظم کی تقاریر سے بھی سیاسی اور سفارتی فضا کافی مکدر ہو گئی تھی بلکہ دونوں رہنمائوں کے بیانات نے کافی مایوسی پھیلا دی تھی۔پاکستان میں بھارتی وزیراعظم کے اس بیان پرسخت ردِعمل پیدا ہوا تھا جس میں اْنہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز بن چکا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کشمیر کے مسئلے اور اسے حل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر بھی بھارتی وزیراعظم کیلئے ناقابل برداشت ثابت ہوا اور اْنہوںنے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان کے بارے میں سخت لہجہ اختیار کیا۔ایسا لگتا تھا کہ ہوسکتا ہے ملاقات منسوخ کر دی جائے او راگر یہ ملاقات ہوئی بھی تو سخت سرد مہری کے ماحول میں ہوگی اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ لیکن دونوں رہنمائوں نے دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ملاقات کے ماحول کو خوشگوار رکھا،بلکہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ایک طریقہ کار (Mechanism)کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔اس ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے اعلیٰ سفارت کاروں نے جس لہجے میں اس ملاقات کی تفصیلات بیان کی ہیں،وہ بہت حوصلہ افزا اور خوشگوار تاثر کا حامل ہے۔اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی سطح پر بھی آئندہ ملاقات کی تاریخ متعین نہیں کی گئی،تاہم اس قسم کی ملاقاتوں کی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سیکرٹری خارجہ یا وزرائے خارجہ کے درمیان جلد ملاقات کی توقع ہے ۔ ملاقات کے بعد جو بیانات سامنے آئے ہیں اْن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں۔خصوصاََ بھارت کی طرف سے کشمیر اور دیگر مسائل پر کسی لچک کامظاہرہ نہیں کیاگیا،تاہم دونوں جانب ایک گہرے احساس کے آثار نمایاں طور پر نظر آتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کو بدلنے اور تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں ملک ہمسائے ہیں اور جیسا کہ شیو شنکر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دوست تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن ہمسائے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اور اْن کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اچھے ہمسائے بن کررہیں کیونکہ اسی میں دونوں کا مفاد ہے۔پاکستان اور بھارت میں انتہا پسند لابی نے اس ملاقات کو سبو تاژ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔لیکن نواز شریف اور من موہن سنگھ نے نہ صرف اپنے اپنے ملک کے عوام بلکہ خطے کے مجموعی مفاد کے پیشِ نظر ملاقات کے شیڈول کو برقرار رکھا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کو زیادہ دیر تک معرضِ التواء میں نہیں رکھا جا سکتا۔دونوں وزرائے اعظم کی اس ملاقات سے ان مذاکرات کی راہ ہموار ہونے میں بہت مدد ملی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں