"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان اور علاقائی تزویراتی ماحول

کسی ملک کی اندرونی سیاست یاخارجہ پالیسی ارد گرد کے ماحول یا قْرب و جوار میں ہونے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ہرملک اپنی ہمسائیگی میں موجود حالات پر نظر رکھتا ہے اور ذرا سی بھی تبدیلی کا اس نکتہ نظر سے جائزہ لیتا ہے کہ اْس کے قومی مفادات پر کیا اثرات ہوں گے۔اس جائزے یا تجزیے کی روشنی میں قومی پالیسی میں ضروری تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ مضر اثرات سے بچا جا سکے۔ پاکستان کے ارد گرد حالات اور واقعات تبدیلی کے عمل سے جس قدر تیزی سے گزر رہے ہیں، اْس کا تقاضا ہے کہ ہم ٹھنڈے دماغ اور پوری سنجیدگی کے ساتھ ان کا تجزیہ کریں اور ضروری نتائج اخذ کر کے اپنی روایتی اور گھسی پٹی علاقائی پالیسی تبدیل کر کے وقت کے دھارے کے ساتھ چل کر آگے بڑھیں، تبدیلی کے اس عمل کے تین بڑے مرکز ہیں: ایک افغانستان،دوسرا بھارت اور تیسرا ایران۔ افغانستان کے بارے میں اب یہ بات تقریباََ پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ2014ء تک امریکہ اور نیٹو ممالک اپنی فوجوں کا بیشتر حصہ نکال لیں گے‘ لیکن امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوگا۔ افغانستان میں نہ صرف اس کی فوج کے کچھ دستے موجود رہیں گے بلکہ امریکہ افغانستان میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے بین الاقوامی برادری کے ساتھ ملکر افغانستان کی مالی امداد بھی جاری رکھے گا۔اس مقصدکیلئے ایک باقاعدہ سمجھوتے پر دستخط کرنے کیلئے امریکہ اور افغانستان میں سکیورٹی مذاکرات جاری ہیں اور ایک امریکی جرنیل کے مطابق اکتوبر تک دونوں ملک اس کے مسودے پر متفق ہو جائیں گے۔وزیراعظم کے مْشیر برائے نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے۔ تمام دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہوئی ہیں اور سب کو تشویش ہے کہ2014ء کے بعد اس ملک میں کیا صورت حال ہو گی۔حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم ہر ملک اور خصوصاََ افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہر قسم کی صورت حال سے نمٹنے کیلئے اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی میں ضروری تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس صورت حال کی نزاکت کو سمجھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔پاکستان کی افغان پالیسی اور اس پر عمل درآمد کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہماری افغان پالیسی ابھی تک اْسی پالیسی کاتسلسل ہے جسے آج سے تیس برس سے زیادہ عرصہ قبل جنرل ضیاالحق نے اپنے اقتدار کو سنبھالا دینے کیلئے اختیار کیا تھا اور جس کی بدولت پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا،مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا،فرقہ وارانہ دہشت گردی عام ہوئی،پاکستان کی معیشت کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے افغان پالیسی جیسے اہم شعبے میں فیصلوں کا اختیار اس مقصد کیلئے قائم مملکتی اداروں کے حوالے کرنے کی بجائے فوج اور مذہبی جماعتوں کے سپرد کر دیا تھا۔اب بھی چند مذہبی جماعتیں اور اْن کے حمایتی سیاستدان جن کے روابط غیر سیاسی قوتوں اور نان سٹیٹ ایکٹرز سے ڈھکے چھپے نہیں، ایک منتخب اور جمہوری حکومت کو افغان پالیسی ڈکٹیٹ کروا رہے ہیں۔ اس کا بھی وہی نتیجہ برآمدہو گا جو پہلے ہوا تھا بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ہمارے رہنما اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے لیکن سمت متعین نہیں بلکہ جس طرح پہلے ہم نے کوتاہ اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گلے میں افغان مسئلے کا ہار ڈال لیا تھا، اْسی پالیسی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ انتہائی پیچیدہ اور اْلجھے ہوئے افغان مسئلے کے بعد پاکستان کو جو سب سے اہم چیلنج درپیش ہے وہ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی ہے۔ اس ضمن میںایک عرصہ تک پاکستان کا یہ موقف رہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا،بھارت کے ساتھ تجارت‘ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے یا کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی شعبے میں تعاون ممکن نہیں۔ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اس موقف کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس موقف کی عالمی سطح پر تائید نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان دنیا میں الگ تھلگ ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سیاست میں بڑی بنیادی تبدیلیاںرْونما ہو رہی تھیں۔قوموں کے درمیان مخاصمت اور محاذ آرائی کی بجائے قریبی تعلقات اور تعاون فروغ پا رہا تھا‘ لیکن پاکستان اور بھارت ہمسایہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دور تھے اور ان کے درمیان تجارت تھی نہ لوگوں کے آنے جانے کیلئے سہولیات موجود تھیں۔نوازشریف جب دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں ڈیڈلاک ٹوٹا۔بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی فروری 1999ء میں ’’دوستی بس‘‘ پر سوار ہو کر لاہور آئے اور اعلان ِ لاہور جاری ہوا جس کے بارے میں سابق سیکرٹری خارجہ مرحوم نیاز اے نائیک نے انکشاف کیا تھاکہ اس کے تحت دونوں ملکوں میںمسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بات چیت شروع کرنے پر اتفاق ہو گیا تھا؛ تاہم مشرف کے ’’کارگل ایڈونچر‘‘ نے اس اہم کوشش کو ناکام بنادیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل مشرف جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیرکے مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے‘ لیکن9/11کے واقعہ نے اُن کی ساری امیدوںپر پانی پھیر دیا۔اس کے بعد خودہمارے دوست ملکوں اور بین الاقوامی برادری کے دیگر اراکین ممالک کی جانب سے پاکستان پر دبائو پڑا۔2004ء میں پاک بھارت امن مذاکرات کا آغاز ہوا‘ لیکن یہ عمل دومرتبہ معطل ہوچکا ہے۔پاکستان کے طویل المیعاد مفادات کے حوالے سے اس صورت حال کا جوں کا توں قائم رہنا کسی صورت بھی سود مند نہیں‘ کیونکہ بین الاقوامی برادری کی جنوبی ایشیا میں دلچسپی میںاضافہ ہو رہا ہے۔نہ صرف چین بلکہ یورپی یونین،امریکہ،جاپان اور روس نے بھی سارک میں آبزرور (مبصر) کی حیثیت سے اپنی جگہ بنالی ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ بنیادوں پر ان ممالک کے تجارتی،کاروباری اور ثقافتی تعلقات میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کی ایک واضح مثال چین اور بھارت میں وسیع تجارتی تعلقات کا فروغ ہے۔چین بھارت کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ مئی میں چین کے نئے وزیراعظم لی چی انگ اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں سب سے پہلے نئی دہلی پہنچے جہاںاْنہوں نے بھارتی رہنمائوں سے ملاقات کے دوران یقین دلایا کہ چین بھارت کو اپناحریف نہیں بلکہ ساتھی (Partner) سمجھتا ہے اور دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے خطرہ محسوس کرنے کی بجائے اقتصادی اور معاشی شعبے میں تعاون کرنا چاہیے۔اگرچہ بھارت میں چین کی ترقی اور جنوبی ایشیا میں اْس کے اثرورسوخ میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود چین بھارت تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں۔حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان پرانے سرحدی تنازع کے حل کیلئے بات چیت شروع کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔اس کے علاوہ دونوں ملک دفاعی شعبے میں بھی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں جس میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگی مشقوں کاانعقاد بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستان کے فوری اور طویل المیعاد مفادات کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم بات بھارت اور امریکہ کے درمیان تقریباََ ہر شعبے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔دونوں ملک2005ء سے سٹریٹیجک پارٹنرشپ میں شامل چلے آرہے ہیں۔سابق صدر بْش کے دور یعنی 2006ء میں امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر ڈیل پر دستخط ہوئے۔ تجارت، صنعت، ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور دفاعی شعبے میں تعاون میں اضافہ ہوا۔دونوں ممالک مشترکہ بحری مشقوں کے کئی دور مکمل کر چکے ہیں۔ صدر اوباما کے دور میں ان تعلقات میں مزید اضافہ ہوا اور2006ء کی نیوکلیئر ڈیل پر عمل درآمد میں جو رکاوٹیں حائل تھیں، وہ دور کر دی گئیں۔ حال ہی میں واشنگٹن میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور صدر اوباما کے درمیان جو ملاقات ہوئی،اْس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلان جاری ہوااْس میں جن شعبوںمیں تعاون پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں دفاعی شعبہ بھی شامل ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران بھارت امریکہ سے9ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے اور مزید خریدنے کا خواہاں ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے دفاعی تعاون میں اضافہ کرنے کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔امریکہ نے ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ صرف افغانستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بھی حالات ایسی کروٹ لے رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر آنکھیں کھول کر رہنا پڑے گا۔شام پر امریکی حملہ تقریباََ ٹل گیا ہے اور اْمید ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بھی تنائوکم ہو گا کیونکہ صدر روحانی کی حکومت نے یورینیم کی افزودگی کو ایک حد سے آگے نہ لے جانے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔اس سے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی برادری کے اعتراضات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم ہوتی ہے اور ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں نرم کر دی جاتی ہیں تو ایران کے بیرونی دنیا خصوصاََ مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں یک دم اضافہ ہوگا اور اس کے ساتھ ایران کے علاقائی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہوگا۔کیا پاکستان نے ان متوقع تبدیلیوں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیا ہے؟ ایک دفعہ پھر یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ ہماری وزارت خارجہ اس سمت میں بالکل متحرک نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں