"DRA" (space) message & send to 7575

گمشدہ افراد کا مسئلہ

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے چند روز قبل کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس پروگرام میں صوبے کو درپیش مسائل پر دل کھول کر بات کی۔ انہوں نے جہاں صوبائی حکومت کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا، وہاں یہ اعتراف بھی کیا کہ بلوچستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں اب بھی حکومت کی رِٹ موجود نہیں۔ انہوں نے متعدد ایسے شعبوں کی نشاندہی بھی کی جن میں حکومت کو سو فیصد کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے اور ان کی حکومت بلوچی جنگجوئوں کے ساتھ بات چیت کے علاوہ گمشدہ افراد کے مسئلے پر بھی ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ایک متفقہ قومی موقف اختیار کر کے اس مسئلے کو حل کرنے پر بھر پور توجہ دی جا سکے۔ بلوچ نوجوانوں کو جو مسئلہ انتہاپسندی اور علیحدگی کی تحریک کی طرف دھکیل رہا ہے، وہ گمشدہ افراد یعنی ان بلوچ سیاسی کارکنوں کا مسئلہ ہے جنہیں ان کے گھروں، تعلیمی اداروں، پارٹی دفتروں سے یا گلی بازار سے گزرتے ہوئے اغوا کیا جاتا ہے اور پھر چند روز بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں‘ جن پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہوتے ہیں، ویران علاقوں میں پڑی ملتی ہیں۔ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ ایک عرصے سے چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ سے صوبے میں آزادی سے لے کر آج تک کئی فوجی آپریشن بھی ہو چکے ہیں لیکن پُرامن جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کی اچانک گمشدگی اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سابق صدر جنرل مشرف کے آمرانہ دور کی پیداوار ہے جن کے اشارے پر بزرگ قوم پرست بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو ہلاک کیا گیا اور پھر بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اغوا کر کے ان کی مسخ شدہ اور گولیوں سے چھلنی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکا گیا۔ درد، کرب اور موت کا یہ کھیل بلوچستان میں ایک عرصہ سے جاری ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت، عدلیہ اور سول سوسائٹی کی پوری کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک سکا۔ خیال تھا کہ مشرف کے دور استبداد کے بعد جمہوری حکومتوں کے آنے سے یہ سلسلہ رک جائے گا لیکن سابق کی طرح موجودہ حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے۔ اس کا اندازہ اس کیس کی سماعت کے دوران میں سپریم کورٹ کے فاضل ججوں، بشمول جناب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ کے ریمارکس سے لگایا جا سکتا ہے جن میں عدالت نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایک طرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں تعاون کیلئے تیار نہیں اور دوسری طرف حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ حالانکہ کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کے ایک فاضل رکن جج کے مطابق بلوچستان اس وقت حالت جنگ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ 30 اکتوبر 2013ء کو اسلام آباد میں گمشدہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے جناب جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ عدالتوں میں آکر محض بیانات دینے سے حل نہیں ہو گا‘ اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے‘ اس ضمن میں پولیس کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے‘ عدالت اس مسئلے کا ٹھوس حل چاہتی ہے خواہ ان معاملات کی ازسرِ نو تفتیش ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ بنچ کے ایک فاضل رکن جناب جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیس میں ملزموں کی نشاندہی کے باوجود آخر پولیس ان پر ہاتھ ڈالنے سے کیوں ہچکچاتی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ مقدمات کی سماعت کے دوران گواہان نے مختلف اداروں کو ان وارداتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بلوچستان میں لاتعداد افراد کے اچانک غائب ہونے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا کہ فرنٹئیر کور پر ان افراد کے اغوا کا الزام عائد کیا جا رہا ہے‘ اس سلسلے میں حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے کیونکہ آئین کے مطابق حکومت شہریوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اس سال اگست میں جب تشدد کے یکے بعد دیگرے واقعات میں صوبہ بلوچستان میں 60 سے زائد افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد میں سماعت کے دوان اس بات پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سلسلے میں عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کیا جا رہا‘ حالانکہ گزشتہ چار سال سے گمشدہ افراد کے لواحقین نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھے ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود گمشدہ افراد کی برآمدگی میں ناکامی نے صورتحال کو اتنا سنگین بنا دیا ہے کہ اب اس کے خلاف نہ صرف اندرون ملک صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا سخت نوٹس لیا جا رہا ہے۔گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے گمشدہ افراد (The United Nations Working Group on Enforced or Involuntary Disappearance) کے چیئرمین اولیور ڈی فرووِل (Olivier de Frouville) نے اپنے دس روزہ دورہ پاکستان کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ ان افراد کے اغوا میں ملوث افراد‘ خواہ ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہی کیوں نہ ہو، کے خلاف بغیر کسی تامل کے کارروائی کی جائے اور جرم ثابت ہونے پر بغیر کسی رعایت کے سزا دی جائے۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے اپنی رپورٹ میں اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کا الزام عائد ہونے اور اس کے حق میں ثبوت فراہم کرنے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے کسی اہلکار کو اب تک سزا نہیں دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اغوا اور گولیوں سے چھلنی لاشوں کی ویرانوں سے برآمدگی کے واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے بلوچستان سے اغوا شدہ لوگوں کی لاشیں بلوچستان کے ہی ندی نالوں، قبرستانوں یا ویران علاقوں میں پڑی مل جاتی تھیں‘ اب ان میں کراچی کے بعض مقامات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے ایک بیان کے مطابق اس سال کے صرف پہلے پانچ ماہ کے دوران میں 84 افراد کو اغوا کیا گیا اور ان میں سے 79 کی گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشوں کو بلوچستان کے مختلف حصوں سے برآمد کیا گیا۔ گزشتہ اگست کے پہلے ہفتہ کے دوران دو افراد رمضان بلوچ اور عبدالغفور بلوچ‘ جو بلوچستان نیشنل موومنٹ کے کارکن تھے، تربت سے اغوا ہوئے، چند دن بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں کراچی کے سرجانی ٹائون سے برآمد ہوئیں۔ بلوچستان کے گمشدہ افراد کی برآمدگی کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیم Voice of Baloch Missing Persons کے رہنما کے بیان کے مطابق ان افراد کو دن دیہاڑے اغوا کیا گیا تھا اور اگست کے وسط تک صرف کراچی میں اغوا شدہ افراد کی 25 لاشیں برآمد ہو چکی تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک1800 افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ عدالتوں کی مداخلت، حکومت کی کوشش، اندرون ملک احتجاج اور بین الااقوامی سطح پر اظہار تشویش کے باوجود بلوچستان میں سیاسی بنیادوں پر نوجوانوں کے اغوا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی دو روز قبل ڈیرہ بْگٹی کے علاقے سے دو اغوا شدہ افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئیں۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کیلئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنا ناصرف ان کی حکومت کی بقا اور صوبے میں سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے بلکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور جمہوری نظام کے تسلسل کیلئے بھی لازمی ہے اور یہ مقصد صرف اسی صورت حاصل کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کے تمام ادارے اور سیاسی پارٹیاں سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں مل کر اس مسئلے کو حل کریں جو دن بدن خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں