ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مسئلہ ایک دفعہ پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور تین صوبائی حکومتوں یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کیلئے حتمی تاریخ کے اعلان کے باوجود بلدیاتی انتخابات منعقد ہوتے نظر نہیں آتے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے سپریم کورٹ کے روبرو علی الترتیب 27 نومبر اور 7 دسمبر کو لوکل باڈیز انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ صوبائی حکومتوں کے اس وعدے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو پانچ کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپنے کا حکم بھی دے دیا ہے لیکن وفاقی حکومت نے اس سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ صرف دو ہفتے میں اتنی بڑی تعداد میں بیلٹ پیپر چھاپنے کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کا یہ عذر مسترد کر دیا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اعلان کردہ تاریخوں پر انتخابات کروانے پر اصرار کیا ہے؛ تاہم انتخابات کا التوا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ تمام سیاسی پارٹیوں نے یہ متفقہ موقف اختیار کیا ہے کہ نومبر کے آخر اور دسمبر کے آغاز میں انتخابات کا انعقاد مشکل نظر آتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اعلان کردہ شیڈول کے تحت امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے بہت کم وقت میسر آئے گا اور اگر یہ انتخابات کروا بھی لیے جائیں تو ان کی شفافیت متاثر ہو گی اور ان کے نتائج کو ہمیشہ مشکوک سمجھا جائے گا۔ اس کے علاوہ سندھ میں انتخابی حلقہ بندیوں کو از سر نو مرتب کرنے کے جس عمل کا آغاز کیا گیا تھا، وہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اِدھر لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کروائے جائیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں صورتحال اور بھی مخدوش ہے۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتوں نے سپریم کورٹ میں کہہ دیا تھا کہ وہ الیکشن کیلئے تیار ہیں لیکن کے پی کے کی حکومت نے انتخابات کیلئے کوئی تاریخ نہیں دی تھی کیونکہ وہ صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کی تشکیل کا کام مکمل نہیں کر سکی۔ قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر بلدیاتی انتخابات کو موخر کرنے کے حق میں قرارداد کی منظوری کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ کوئی بھی صوبائی حکومت اس سال بلدیاتی انتخابات نہیں چاہتی اور سبھی دو سے ڈھائی ماہ کی مزید مہلت کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ مناسب تیاری کے بعد ان انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ اس ساری صورت حال میں دو سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ آخر سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کو آئندہ ایک ماہ کے عرصہ میں منعقد کروانے پر کیوں مْصر ہے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی حکومتیں ان انتخابات کے انعقاد میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہی ہیں؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ آج پیش نہیں ہوا بلکہ گزشتہ چار سال سے زیرِ سماعت ہے۔ اس دوران میں متعدد مواقع پر سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ آئینی اور جمہوری تقاضے پورے کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کروائیں۔ مئی2013ء کے عام انتخابات کے بعد سپریم کورٹ نے نئی حکومتوں پر ایک دفعہ پھر زور دیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخوں کا اعلان کریں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے ان ہدایات کی وجہ یہ تھی کہ خود سیاسی پارٹیوں نے عام انتخابات کے بعد تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کر رکھا تھا‘ مثلاً چارٹر آف ڈیموکریسی کی دفعہ 29 کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے وعدہ کیا تھا کہ عام انتخابات کے بعد تین ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خاں نے بھی گزشتہ اپریل میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات منعقد کروائیں گے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی مرکز اور سندھ میں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پانچ برس تک حکومت کرتی رہیں لیکن بلدیاتی انتخابات منعقد نہ کروا سکیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں جب بھی اقتدار میں آتی ہیں، بلدیاتی انتخابات سے پہلوتہی اختیار کرتی ہیں۔ پہلے یہ الزام پیپلز پارٹی پر عائد ہوتا تھا، اب مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی اس کی لپیٹ میں آ چکی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں فوجی آمروں نے جب بھی عنان اقتدار سنبھالی‘ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی انتخابات پر توجہ دی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو اختیارات کی تقسیم میں ہمیشہ اپنا حریف سمجھا ہے۔ چونکہ ارکان‘ خواہ ان کا تعلق پارلیمنٹ سے ہو یا صوبائی اسمبلیوں سے، کی دلچسپی قانون سازی کے بجائے، ترقیاتی فنڈز کے حصول پر زیادہ مرتکز رہی ہے اور بلدیاتی اداروں کے متحرک ہونے کی صورت میں ان کے ارکان کو بھی حصہ دینا پڑتا ہے‘ اس لیے وہ بلدیاتی اداروں کے قیام اور ان کے انتخابات پر توجہ نہیں دیتے۔ جنرل مشرف کے زمانے میں اسمبلیوں کے ارکان اور بلدیاتی اداروں کے ناظمین کے درمیان یہ کشمکش اتنی شدید ہو گئی تھی کہ چودھری شجاعت کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ ممبران اسمبلی اور ناظمین کے درمیان اختیارات اور فنڈز کی تقسیم کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کرے۔ سیاسی پارٹیوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ آمر ان کو کمزور اور مفلوج کرنے کیلئے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ یہ تاثر غلط نہیں ہے کیونکہ ایوب خاں سے لے کر مشرف تک ہر فوجی حکمران نے بلدیاتی اداروں کو اپنے حمایتی سیاستدان یا عوامی نمائندے آگے لانے کیلئے استعمال کیا۔ تاریخی پسِ منظر میں دیکھا جائے تو فوجی آمروں کے یہ اقدامات دراصل انگریز کی پالیسی کا تسلسل ہیں‘ جنہوں نے ہندوستان میں مقامی سطح پر نمائندہ ادارے قائم کر کے سفید پوش لوگوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے کی کوشش کی، جو نہ صر ف انگریز اور مقامی آبادی کے درمیان ایک بفر (Buffer) کے طور پر کام کر سکے بلکہ ملک گیر سطح پر انگریز مخالف قوم پرست سیاسی قیادت کو ابھرنے اور موثر ہونے سے روک بھی سکے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی آمروں نے مقامی سطح پر نمائندہ اور منتخب اداروں کے قیام اور انہیں فعال بنانے کی کوشش کی اور دوسری طرف قومی سطح پرسیاسی پارٹیوں پر نہ صرف پابندیاں عائد کیں بلکہ عام انتخابات سے بھی جہاں تک ممکن ہو سکا اجتناب کیا۔ ان اقدامات کے باوجود مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر فوجی حکمرانوں نے انہیں اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا ہے تو جمہوری دور میں ان کی افادیت ختم نہیں ہوئی بلکہ سیاسی اور جمہوری دور میں عوامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے‘ گورننس کو بہتر بنانے اور جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے کیلئے ان اداروں کا قیام اور انہیں فعال بنانا بہت ضروری ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مقامی حکومتی اداروں کے انتخابات باقاعدہ ہوں تاکہ یہ ادارے صحیح معنوں میں جمہوریت کیلئے نرسری کا کردار ادا کر سکیں۔