"DRA" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورئہ افغانستان

ہفتہ کے روز وزیراعظم محمد نواز شریف کا دورئہ افغانستان ہر لحاظ سے ایک اہم اور مفید قدم تھا۔اس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان پائی جانے والی بدگمانی دْور ہونے میں مدد ملے گی،بلکہ خطے میں بھی امن،استحکام اور تعاون کو فروغ ملے گا۔وزیراعظم نے افغانستان کا دورہ ایک ایسے موقعہ پر کیا ہے جب افغانستان اورافغانستان کے قرب وجوار میں اہم واقعات رْونما ہورہے ہیں۔گزشتہ ماہ کے آخر ی ہفتے میں ایران اور امریکہ کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس خطے کے بارے میں امریکہ اپنی پالیسی میں دْور رس اہمیت کی حامل تبدیلیاں لارہا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف خلیج فارس میں ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں بھی امریکہ ایران کے کردار کی حمایت کرے گا۔افغانستان میں ایران کا پہلے ہی کافی اثرورسوخ موجود ہے اور وہ اس ملک کی ترقی وتعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے،لیکن امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات میں جو تنائو تھا،وہ افغانستان میں اس کے بھر پور کردار کے راستے میں رکاوٹ تھا۔لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ایران افغانستان پر پہلے سے زیادہ توجہ دے گا اور اْس کی کوشش ہوگی کہ2014ء میں امریکی انخلاء کے پیشِ نظر افغانستان میں امن اور استحکام کی خاطر جو بھی انتظامات کیے جائیں ایران اْن کی تشکیل میں برابر کا شریک ہو ۔اْمید ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور افغان صدر حامد کرزئی کی کابل میں ہونے والی بات چیت میں یہ موضوع بھی زیرِبحث آیا ہوگا۔
اوائل جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف کا یہ پہلا دورہ افغانستان ہے لیکن حامد کرزئی سے وہ دوسری بار ملاقات کررہے ہیں۔اس سے پہلے وہ افغان صدر سے لندن میں ملاقات کر چکے ہیں جہاں وہ برطانوی وزیراعظم کی دعوت پر ایک سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے تھے۔لندن ملاقات میں بھی دونوں رہنمائوں کی بات چیت کا فوکس دوطرفہ تعلقات اور افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا جائزہ تھا۔لیکن لندن ملاقات اور حالیہ دورئہ افغانستان میں نمایاں فرق ہے۔لندن ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی تھی اور دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے محض رسمی بیانات پر ہی اکتفاء کیا تھا۔لیکن29نومبر کے دورئہ افغانستان کے موقعہ پر پاکستان اور افغانستان کے رہنمائوں نے دو ایسے امور پر ٹھوس فیصلوں کا اعلان کیا ہے جو نہ صرف ان کے دوطرفہ تعلقات کیلئے اہم ہیں بلکہ2014ء کے بعد افغانستان میں حالات کو پْرامن رکھنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
مثلاََ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے افغان حکومت کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ افغانستان میں امن کی کوششوں کو تیز کرنے کیلئے افغانستان کی ہائی پیس کونسل(High Peace Council)کے وفد اور پاکستان میں مقیم سابق طالبان کمانڈر مْلا برادر جنہیں پاکستان نے ستمبر میں رہا کیا تھا،کے درمیان ملاقات کرائی جائے گی۔اس مقصد کیلئے گذشتہ دنوں افغان ہائی پیس کونسل کے ایک وفد نے چیئرمین صلاح الدین ربانی کی قیادت میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔لیکن ْملا برادرسے اْن کی ملاقات نہ ہوسکی اور وفد خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا۔کہا جاتا ہے کہ افغان وفد مْلا برادر سے تنہائی میں ملاقات کرنا چاہتا تھا جبکہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں نے اس ملاقات کے دوران میں اپنی موجودگی پر اصرار کیا تھا۔اس پر ناراض ہوکر افغان وفد واپس کابل روانہ ہوگیا تھا اس واقعہ کی وجہ سے پاک افغان تعلقات جو پہلے ہی ناخوشگوار تھے اور بھی کشیدہ ہوگئے۔غالباََ وزیراعظم اس صورت حال سے خوش نہیں اور وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں نہ صرف کشیدگی کو ختم کرنا چاہتے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو اور بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خطے میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر پاک افغان تعلقات میں کشیدگی دونوں ملکوں کیلئے نقصان دہ ہے۔پاکستان اور افغانستان میں متعدد امور پر اختلافات موجود ہیں اور رہیں گے لیکن ان اختلافات کے باوجود دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت قریبی تعلقات،خصوصاََ تجارت اور اقتصادی تعاون کے شعبوں میں روابط کو اور بھی مضبوط بنانے کی خواہاں ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ سکیورٹی خدشات کے باوجود2010ء میںپاکستان نے افغانستان کو ٹرکوں کے ذریعے اپنا مال واہگہ کے راستے بھارت کو برآمد کرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم تقریباََ ڈھائی بلین ڈالر ہے جسے دونوں ممالک آئندہ چند برسوں میں پانچ بلین ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں ۔پاکستان کی بیرونی تجارت میں افغانستان تیسرا بڑا ملک ہے اور اگر افغانستان میں مکمل قیام امن ہوجائے تو پاک افغان تجارت میں کئی گْنا اضافہ ہو سکتا ہے۔افغانستان کے راستے پاکستان کو وسطی ایشیائی منڈیوں تک جو رسائی حاصل ہوگی اور وہاں سے توانائی حاصل کرنے کے جو مواقع پیدا ہوں گے،وہ افغانستان میں امن اور دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کا ایک بہترین ثمر ہوں گے۔
افغانستان میں قیام امن کیلئے ٹھوس اقدامات کی یقین دہانی کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف اور صدر حامد کرزئی کے درمیان ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان زمینی رابطے کو فروغ دینے کیلئے جن منصوبوں کا اعلان کیاگیا،اْن کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔یاد رہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کی علاقائی تنظیم سارک (SAARC)جس میں افغانستان بھی بطور ایک رْکن شامل ہے، ایک عرصے سے ممبر ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ خطے میں اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے کیلئے باہمی روابط پر خصوصی توجہ دیں اس پالیسی فریم ورک کے تحت جنوبی ایشیا کے مشرقی حصے میں واقع ممالک یعنی بنگلہ دیش، بھوٹان،نیپال اور بھارت نے ایک دوسرے کے ساتھ ریلوے اور سڑک کے ذریعے زمینی رابطے بڑھانے کیلئے متعدد منصوبے شروع کررکھے ہیں۔اس سے ان ممالک کے درمیان تجارت،اقتصادی تعاون،سیاحت اور عوامی رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا کے مغربی حصے 
یعنی پاکستان،افغانستان اور بھارت کے درمیان زمینی روابط بڑھانے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔کمپوزٹ ڈائیلاگ پراسیس کے تحت پاکستان اور بھارت میں آمدورفت کیلئے نئے رابطے قائم ہوئے ہیں لیکن دونوں ممالک میں سرحدی کشیدگی کے پیشِ نظر ان سے پورا فائدہ نہیں اْٹھایا جاسکا۔وزیراعظم نوازشریف کے دورئہ افغانستان کے موقعہ پر یہ اعلان کہ پشاوراور کابل کے درمیان نہ صرف موٹروے تعمیر کی جائے گی بلکہ ریلوے لائن بھی بچھائی جائے گی،دونوں ملکوں کے درمیان زمینی رابطے بڑھانے میں ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔اس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور کاروبار میں اضافہ ہوگا،بلکہ افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں اور بحر ہند کے درمیان ایک ٹریڈ کا ریڈور بننے کا پاکستانی خواب بھی پورا ہونے میں مدد ملے گی۔
صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان بات چیت میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ افغانستان میں امن اور مصالحت کے قیام میں افغان حکومت، پاکستان اور امریکہ کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔یہ اعلان نہ صرف افغانستان میں قیامِ امن کیلئے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس میں پہلی مرتبہ تینوں ممالک کے مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے اْن کے تحفظ کی بات بھی کی گئی ہے۔وزیراعظم نوازشریف متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں اْن کی اولین ترجیح ہمسایہ ممالک خصوصاََ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔افغانستان کے محاذ پر تو اْنہوں نے ایک اہم قدم اْٹھالیا ہے ،دیکھتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ بریک تھروکے لیے وہ کب فیصلہ کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں