کیا پاکستان اور بھارت کے منجمد تعلقات کی برف پگھلنے والی ہے؟اس سوال کا قدرے مثبت حد تک جواب دیتے ہوئے سبکدوش ہونے والے پاکستانی ہائی کمشنر سلمان بشیر نے دہلی میں اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں کہا کہ گزشتہ تقریباََ ایک سال سے تعطل کا شکار ہونے والے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں‘ جنہیں امید کی کرن کہا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد فائر بندی اور امن کے قیام کا حوالہ دیا ہے۔ جناب سلمان بشیر کی دلیل میں کافی وزن ہے۔اس کی وجہ یہ ہے پاکستان کی طرف سے مسلسل اصرار کے باوجود بھارت بات چیت کے معطل سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے پر اس لیے آمادہ نہیں ہورہا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں۔اور بھارت کے نزدیک ان کا ذمہ دار پاکستان تھا۔اگرچہ پاکستان کی طرف سے اس کی برابر نفی کی جارہی تھی تاہم لائن آف کنٹرول پر مکمل امن اور آئندہ کیلئے اس کی خلاف ورزی کی روک تھام دوطرفہ بات چیت کے آغاز کیلئے بھارت کی پیشگی شرط تھی۔اب جبکہ کافی عرصہ سے لائن آف کنٹرول پر خاموشی طاری ہے اور دونوں ملکوں کی سرحدی افواج ایک دوسرے کو گولیوں اور گولوں کا نشانہ بنانے سے اجتناب کر رہی ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت دوطرفہ با ت چیت کا سلسلہ وہیں سے شروع کردیں گے جہاں سے اس سال کے اوائل میں لائن آف کنٹرول پر چند ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔امید کی اس کرن کی شہادت چند اور اطراف اور حلقوں کی طرف سے بھی مل رہی ہے۔گزشتہ ماہ کولمبو میں دولت مشترکہ کے رکن ممالک کی سربراہی کانفرنس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے وزیراعظم نوازشریف کے ایک بیان کاحوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ان کے ملک کو پاکستان سے متعدد شکایات ہیں‘ پھر بھی بھارت پاکستان کو شک کا فائدہ دے کر امن کیلئے اس کی خواہش کو خلوص پر مبنی قرار دینے کیلئے تیار ہے۔بھارتی وزیرخارجہ کے بیان کا مطلب یوں بھی لیا جاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہے۔یادرہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 23نومبر کو لاہور میں ادبی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہے اور اس مقصد کیلئے اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو پاکستان دوقدم آگے بڑھنے پر تیار ہے۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کیلئے ویزا کی بھی ضرورت باقی نہ رہے۔اس سے ایک روز قبل سلمان بشیر نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سے اپنی الوداعی ملاقات کے موقع پر بھی پاک بھارت ڈائیلاگ اور مسلسل رابطوں پر زور دیا تھا۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری ختم کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز دراصل ستمبر میں ہواتھا۔جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کے درمیان نیو یارک میں ملاقات ہوئی تھی۔ نتیجے میں اگرچہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی تھی؛ تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور بہتر تعلقات کے امکانات کو روشن کرنے کیلئے اس ملاقات کو ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور انتہا پسند ہندو گروپوں کی جانب سے سخت مخالفت کے باوجود بھارتی وزیراعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ہاتھ ملانے اور باہمی تعلقات پر بات چیت کرنے سے انکار نہیں کیا تھا۔پاکستانی خواہش اور مطالبے کے باوجود اگرچہ بات چیت کا سلسلہ شروع نہ ہو سکا،تاہم اس امر کے برابر اشارے مل رہے تھے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو غیر معینہ مدت کیلئے سرد خانے میں نہیں رکھنا چاہتی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے چوٹی کے رہنما جن میں وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی شامل ہیں،پاکستان کے ساتھ پر امن اور دوستانہ تعلقات کی خواہش کرتے ہوئے، مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے رہے۔اپوزیشن پارٹیوں کے سخت دبائو کے باوجود، موجودہ بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف لائن آف کنٹرول پر واقعات پر سخت موقف اختیار کرنے سے انکار کیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن اور مختلف شعبوں خصوصاََ تجارت اور معاشی تعاون میں اضافہ کیلئے زمین ہموار کرنے میں دونوں ملکو ں کی سیاسی قیادت کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتِ حال کے باوجود،ضبط اور اشتعال انگیز بیانات سے احتراز نے بڑا اہم کردار اداکیا ہے۔اس کیلئے پاکستان اور بھارت کی دونوں حکومتیں تحسین کی مستحق ہیں۔
دراصل دونوں طرف یہ احسا س تقویت پکڑتا جارہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطوں کے فقدان اور بات چیت کے عدم وجود سے صرف ان عناصر کو فائدہ پہنچے گا جو امن کے دشمن ہیں اور خطے میں تصادم چاہتے ہیں۔ان عناصر کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان اور بھارت کو بالغ نظری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکراتی عمل کے تعطل کے خاتمے کے آثار ان اطلاعات سے بھی ظاہر ہورہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے اور اسے انتہائی پسندیدہ قوم کا سٹیٹس دینے پر غور کررہی ہے۔اس کی طرف خود وزیراعظم نوازشریف نے حال ہی میں معاشی اقدامات پر مبنی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا۔
پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے گزشتہ برس بھارت کو (خصوصی مرتبہ)سٹیٹس دینے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن لائن آ ف کنٹرول پر ایک دوسرے کے ہاتھوں دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں کی افسوسناک ہلاکت کے باعث اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔موجودہ حکومت نے اس پر غور موخر کردیا تھا لیکن28نومبر کو اسلام آباد میں اکنامک پیکج کے اعلان کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے بتایا کہ حکومت بھارت کو ایم ایف این سٹیٹس دینے پر غور کررہی ہے۔تاہم حتمی فیصلہ تاجر برادری اور کاروباری لوگوں کے ساتھ مشورے کے بعد کیاجائے گا۔
اس ہلچل کے باوجود،حکومتی سطح پر ابھی کسی اہم اعلان اور بریک تھرو کی توقع نہیں کی جاسکتی۔تاہم دونوں ملکوں کے درمیان محبت کے جذبات پر مبنی خوشگوار فضا کے قیام کیلئے سول سوسائٹی اور انسانیت دوست پروفیشنل گروپ،فنکار اور کھلاڑی سرگرم عمل ہیں۔ اگرچہ پاک بھارت کرکٹ سیریز کے احیا کا ابھی فوری امکان نہیں،تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنے ایک بیان میں آئندہ برس مارچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورئہ بھارت کے امکان کو ظاہر کیا تھا۔البتہ مرد اور خواتین کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان کی کبڈی ٹیمیں بھارت کا دورہ کررہی ہیں۔کھیل کے میدان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بھر پور تعاون کے قیام کیلئے یہ اہم اور مستحسن اقدامات ہیں۔
اس سلسلے میں لاہور کے شیخ زید بن سلطان النہیان ہسپتال میں بھارتی ڈاکٹروں کی ٹیم نے جگر کے چار کامیاب ٹرانسپلانٹ آپریشن کرکے پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی سطح پر خیر سگالی اور محبت کے جذبات کو ابھارنے میں ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔اس سے قبل بھارتی ڈاکٹر دل کے پاکستانی مریضوں کا کامیاب آپریشن کرکے ستائش اور تعریف حاصل کرچکے ہیں۔
طب اور سرجری کے شعبے میں تعاون سے پاکستان اور بھارت کے درمیان خیر سگالی اور مفاہمت میں اضافہ ہوگا۔ سرکاری سطح پر ان اقدامات کی مدد اور حوصلہ افزائی ظاہر کرتی ہے کہ حل طلب مسائل کی موجودگی اور ماضی سے ورثہ میں ملنے والی بدگمانی کی دبیز گہرائیوں اور اندھیروں کے باوجود پاک بھارت تعلقات کے اُفق پر روشنی کی کرن نمایاں ہورہی ہے۔