ایک خبر کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز 24 دسمبر کو راولپنڈی یا واہگہ بارڈر پر ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا مقصد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ایسے انتظامات کرنا ہے جن سے آئندہ جنگ بندی خطرے میں نہ پڑے اور اس سال کے اوائل اور اگست جیسے افسوسناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ اس ملاقات کا فیصلہ گزشتہ ستمبر میں وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے مابین نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بدگمانی اور شکوک و شبہات کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان معاملات طے پا جانے کے باوجود یہ ملاقات تقریباً تین ماہ بعد ہو رہی ہے۔ اس دوران لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا؛ تاہم گزشتہ ایک دو ماہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مختلف سطح پر ایسے رابطے قائم ہوئے‘ جن سے یہ امید پیدا ہوئی کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے اْفق پر جو گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں، وہ جلد چھٹ جائیں گے۔ اس سلسلے میں ڈی جی ایم اوز کے مابین متوقع ملاقات ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند اقدامات سامنے آئے ہیں جن سے یہ امید تقویت پکڑتی جا رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی کشیدگی کو ختم کر کے دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے والے ہیں۔ ان اقدامات میں سب سے نمایاں اور اہم پنجاب کے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف کا دورہ بھارت ہے۔ وہ اگرچہ مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار پرکاش سنگھ بادل کی دعوت پر مشرقی پنجاب گئے تھے؛ تاہم انہوں نے اپنے دورے کا آغاز دہلی سے کیا‘ جہاں انہوں نے بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات کی اور انہیں وزیر اعظم نواز شریف کا خیر سگالی کا پیغام دینے کے علاوہ ان کی طرف سے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔ بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد جناب شہباز شریف نے اپنے بیان میں دونوں ملکوں کے درمیان امن اور تعاون پر زور دیا اور یہ بات واضح کر دی کہ امن اور تعاون کے سوا پاکستان اور بھارت کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ شہباز شریف پانچ دن بھارت میں رہے اور اس دوران انہوں نے پاکستان کیلئے دلچسپی کے حامل بھارت کے صنعتی اور ٹیکنالوجی کے منصوبوں خصوصاً توانائی کے شعبے میں بھارت کے کامیاب منصوبوں کا دورہ بھی کیا۔ مشرقی پنجاب میں اْنہوں نے پاک بھارت کبڈی میچ کے فائنل میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی‘ لیکن ان کے دورے کا سب سے اہم پہلو وہ مشترکہ اعلامیہ ہے جو پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کے وزرائے اعلیٰ نے جاری کیا۔
اعلامیے میں دونوں وزرائے اعلیٰ نے اس امر پر اتفاق کیا کہ وہ امن، بھائی چارے اور معاشی ترقی کے مشترکہ مقاصد کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دیں گے تاکہ پاکستان اور بھارت کے یہ دونوں ہمسایہ صوبے ایک دوسرے کی کامیابیوں اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ اپنے دورہ مشرقی پنجاب میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لدھیانہ میں زرعی یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا۔ دونوں وزرائے اعلیٰ نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں مختلف شعبوں میں ماہرین کے تبادلے کی تجویز کی حمایت کی‘ جن میں تعلیم، زراعت، صنعت اور توانائی کے شعبے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ طلبا، اساتذہ، کھلاڑیوں اور فنکاروں کے ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کے حق میں زور دے کر بات کی گئی۔ اگرچہ یہ اعلامیہ پاکستان اور بھارت کے دو سرحدی صوبوں کے مابین تعاون، تجارت اور آمدورفت بڑھانے کے بارے میں تجاویز پر مشتمل ہے؛ تاہم اس بات کے واضح آثار نظر آتے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کی حکومتوں کے درمیان بھی جلد کوئی اہم پیش رفت ہونے والی ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے دورہ بھارت میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے کامرس سیکرٹری جلد ملنے والے ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا جلد اعلان ہونے والا ہے۔ بھارت کو یہ حیثیت دینے کے بارے میں سابق حکومت کے دور میں اصولی طور پر فیصلہ کر لیا گیا تھا اور اس فیصلے کو سوائے دائیں بازو کے چند انتہاپسند حلقوں کے تقریباًَ مکمل قومی تائید حاصل تھی۔ اب وزیر اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر چکے ہیں‘ لیکن لائن آف کنٹرول پر چند ناخوشگوار اور افسوسناک واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی اور بھارت کی طرف سے پاکستانی سرحدی محافظوں پر لگاتار فائرنگ کی وجہ سے اس فیصلے پر عمل درآمد کر موخر کر دیا گیا تھا۔ اگر پاکستان کی طرف سے یہ اعلان کر دیا جاتا ہے تو اس سے دونوں ملکوں میں موجودہ کشیدگی ڈرامائی طور پر کم ہو جائے گی۔ اس طرح امن مذاکرات‘ جو گزشتہ تقریباًَ ایک برس سے تعطل کا شکار
چلے آرہے ہیں‘ بحال ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکریک اور سیاچن کے تنازعات، جن کے حل پر دونوں ممالک میں پہلے سے ہی اتفاق پیدا ہو چکا ہے، پر رسمی دستخط کرنے کیلئے بھارتی وزیراعظم پاکستان کا دورہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ یہاں اس بات کا ایک دفعہ پھر ذکر کرنا نامناسب نہ ہو گا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو پاکستان کا دورہ کرنے کیلئے شہباز شریف نے جو دعوت دی تھی، وہ بھارتی وزیر اعظم نے فوراً قبول کر لی تھی؛ البتہ کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔ صرف شہباز شریف کی طرف سے یہ کہا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم پاکستان کا دورہ کرنے سے قبل پاکستان کی طرف سے کسی مثبت پیش رفت کے خواہش مند ہیں۔ دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز اور کامرس سیکرٹریوں کی متوقع ملاقات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ایم ایف این درجہ سے متعلق پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی اہم پیش رفت ہو گی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت میں آئندہ برس پارلیمانی انتخابات اور ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی نئی حکومت کے قیام سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بڑی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں کیونکہ معطل شدہ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے یا بھارتی وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کی صورت میں اپوزیشن جماعت بی جے پی‘ خاص طور پر اس کے نامزد امیدوار برائے وزارت عظمیٰ نریندرا مودی کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت اور حکمران جماعت کانگرس پر تنقید کا ایک اور موقع ہاتھ آ جائے گا۔ دونوں ملکوں کو اندرونی اور بیرونی سطح پر جو چیلنج درپیش ہیں ان کے پیشِ نظر اسلام آباد اور نئی دہلی باہمی کشیدگی کم کرنے اور اہم علاقائی مسائل مثلاً افغانستان پر باہمی مفاہمت کو زیادہ دیر تک موخر نہیں رکھ سکتے۔ اس سمت قدم بڑھانے کیلئے پاکستان اور بھارت کو ان بیرونی طاقتوں کی طرف سے دبائو کا بھی سامنا ہے جن کے دوررس مفادات کیلئے جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی انتہائی ضروری ہے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کی رعایت دی ہے‘ جسے جنوبی ایشیا کے امن اور پاکستان سے ایک مثبت اور تعمیری رویے کی توقع سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح وزیر اعظم نواز شریف اور صدر بارک اوباما کے درمیان واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی صدر نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کیلئے کردار ادا کرے گا تاکہ دونوں ممالک دوطرفہ پرامن مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات کا حل ڈھونڈ سکیں۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد کی ممکنہ طور پر غیریقینی اور تشویشناک صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کیلئے امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت پر مبنی تعاون اور اشتراک کو ناگزیر سمجھتا ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے اہم امریکی سفارت کاروں اور حکام نے‘ جن میں پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے مسٹر ڈوبنز اور وزیر دفاع چک ہیگل بھی شامل ہیں، نے افغانستان اور پاکستان کا حال ہی میں دورہ بھی کیا۔
لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کی اس ماہ ملاقات وزیر اعلیٰ پنجاب کا دورہ بھارت اور امریکہ کی طرف سے پاک بھارت کشیدگی کم کروانے کی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے آئندہ انتخابات سے قبل ہی پاک بھارت تعلقات میں کوئی اہم اور خوش آئند پیش رفت ہو گی۔