بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کراچی میں ایک کانفرنس سے خطاب میں مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ صوبوں کے حقوق اور اختیارات کے بارے میں پرانی سوچ اپنا کر اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر مالک پہلے یا واحد سیاسی رہنما نہیں جنہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی اس قسم کا بیان دے چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتی ہے۔ سید خورشید شاہ سے بھی پہلے گزشتہ اگست میں سینیٹر رضا ربانی ‘جن کی قیادت میں 26 رُکنی پارلیمانی کمیٹی نے پورے ایک سال کی ان تھک محنت کے بعد اٹھارہویں ترمیم کا متفقہ مسودہ تیار کیا تھا‘ بھی مرکزی حکومت پر اس قسم کے الزامات عاید کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ ن لیگ کی حکومت بیوروکریسی کی مدد سے آئینی ترمیم کو رول بیک کر کے ایک دفعہ پھر وَن یونٹ کا نظام بحال کرنا چاہتی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے یہ بیان وفاقی وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے ایک بیان کے جواب میں دیا تھا‘ جس میں (شاہد خاقان عباسی) نے کہا تھا کہ اُن کی حکومت اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں میں پائے جانے والے گیس اور تیل کے ذخائر کی ملکیت اور ان کے استعمال کے بارے میں دیے گئے فارمولے کو قومی مفاد کے منافی سمجھتی ہے‘ اس لیے ترمیم کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے گا۔ صوبائی خود مختاری کی حامی سیاسی پارٹیوں نے اس بیان کو اٹھارہویں آئینی ترمیم پر حملہ تصور کرتے ہوئے صوبوں کو دیے گئے حقوق اور رعایات کو واپس لینے کی کوشش قرار دیا تھا۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جسے پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں نے اپریل 2010ء میں متفقّہ طور پر منظور کر کے آئین کا حصہ بنایا تھا‘ دراصل پاکستانی وفاق میں شامل صوبوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اِس سے قبل 1956ء‘ 1962ء اور 1973ء کے دساتیر میں بھی صوبوں کو اندرونی خُود مختاری حاصل تھی‘ لیکن اس کا دائرہ محدود تھا‘ خصوصاً بعض شعبے‘ جہاں سے آمدنی زیادہ حاصل ہوتی تھی‘ مکمل طور پر مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ ایک عرصے سے صوبے اس کوشش میں تھے کہ صوبائی خود مختاری کے دائرہ کو بڑھا کر ان محکموں کو بھی صوبوں کے کنٹرول میں لایا جائے جو آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ ان میں تیل اور گیس کی دریافت‘ پیداوار اور مارکیٹنگ کے شعبے سرِفہرست ہیں۔
ملک کی آئین سازی کی تاریخ میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے تحت کنکرنٹ (Concurrent) لسٹ ختم کر کے اس کے 40 میں سے 37 شعبوں کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تقریباً 20 وزارتوں اور ڈویژنوں کے علاوہ سو کے قریب خُود مختار ادارے صوبوں کے کنٹرول میں دیے گئے۔ اختیارات کی مرکز سے صوبوں کو منتقلی کے اس عمل سے تقریباً ڈھائی لاکھ ایسے ملازمین متاثر ہوئے ہیں‘ جنہیں وفاقی حکومت تنخواہ دیتی تھی‘ لیکن اب وہ نہ وفاقی حکومت اور نہ کسی صوبائی حکومت کے ملازمین شمار ہوتے ہیں بلکہ انہیں ایک پول میں رکھا گیا ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے انہیں زائد (Surplus) قرار دے دیا ہے اور صوبائی حکومتوں کے پاس ان کو تنخواہیں اور مراعات دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ جِن سترہ وزارتوں کو مرکز نے صوبوں کی تحویل میں دیا‘ اُن میں تعلیم‘ صحت‘ بہبود آبادی‘ ماحولیات کے علاوہ بجلی اور پٹرولیم و قدرتی وسائل کی وزارتیں بھی شامل ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم ایک جرأت مندانہ اور انقلابی اقدام ہے۔ اس سے قبل کسی آئینی ترمیم میں اتنی وسیع اور بنیادی آئینی اصلاحات اور تبدیلیاں نہیں کی گئی تھیں۔ اسی لیے اسے ری رائٹنگ آف دی کانسٹی ٹیوشن (Rewriting of the Constitution) کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن اس کی مختلف شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کئی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اختیارات اور فرائض کی منتقلی سے پہلے وفاقی حکومت نے یہ جائزہ نہیں لیا تھا کہ اس کے لیے صوبوں کے پاس مطلوبہ وسائل اور صلاحیت (Capacity) موجود ہے یا نہیں۔ گزشتہ تقریباً 6 دہائیوں سے پاکستان میں ایک ایسا سیاسی نظام چلا آ رہا ہے جِس میں تمام اختیارات مرکز کے ہاتھ میں تھے اور صوبوں کو نہ صرف اپنے ترقیاتی منصوبوں بلکہ روزمرہ اخراجات کے لیے بھی مرکز کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا تھا۔ اس صورتِ حال میں نہ اُن کے وسائل میں اضافہ ہوا اور نہ ان کی صلاحیت بڑھی۔ وزارتوں اور ان سے منسلک ادارے صوبوں کو منتقل کرتے وقت مرکز نے ان پر اُٹھنے والے اخراجات کا بوجھ بھی انہی پر ڈال دیا‘ جسے اُٹھانے کی صوبوں میں فی الحال سکت نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مرکز اور صوبے‘ دونوں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی مختلف شقوں کی اپنے اپنے نقطہ نظر سے تشریح کر رہے ہیں جو بیشتر صورتوں میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ مثلاً ترمیم کے تحت جن صوبوں میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے انہیں ان کی 50 فیصد ملکیت کا حق دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر منافع میں سے بھی صوبوں کو حصہ دیا جاتا ہے۔ گیس کے معاملے میں اٹھارہویں ترمیم کی ایک اہم سفارش یہ ہے کہ جِن صوبوں سے گیس کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے‘ سب سے پہلے اسی صوبے کی ضروریات پوری کی جائیں گی اور اس کے بعد گیس دوسرے صوبوں کو سپلائی کی جائے گی۔ اس وقت گیس کی پیداوار میں سندھ (70فیصد) سرِفہرست ہے۔ اس کے بعد بلوچستان کا نمبر آتا ہے‘ لیکن گیس کی کھپت سب سے زِیادہ پنجاب میں ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ پنجاب کی آبادی باقی تمام صوبوں کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے‘ بلکہ گیس سے چلنے والی صنعتیں اور قدرتی گیس کو بطور خام مال (Raw Material) استعمال کرنے والی فیکٹریاں اور مصنوعی کھاد تیار کرنے والے بڑے بڑے کارخانے بھی زیادہ تر پنجاب میں ہیں۔ اِس فارمولے کے تحت اِن سب کو مطلوبہ مقدار میں قدرتی گیس مہیا کرنا مشکل ثابت ہو رہا ہے، اِس لیے مرکزی حکومت اِس فارمولے میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن چونکہ مرکز میں برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سپورٹ بیس (Support Base) پنجاب میں ہے اور پنجاب روایتی طور پر مرکز کے ہاتھ میں ارتکازِ اختیارات کا حامی رہا ہے‘ اِس لیے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کسی بھی تبدیلی کے حق میں مرکز کی طرف سے آنے والی آواز کو اسی
پرانی روش کی صدائے بازگشت سمجھا جا رہا ہے‘ جس کے تحت صوبوں کو ایک عرصے تک ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا۔
حقائق کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن سیاست میں حقائق (Realities) کے مقابلے میں پَرسیپشنز (Perceptions) کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ صوبائی خود مختاری ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے۔ اس لیے جب اٹھارہویں ترمیم‘ جس کے تحت متفقہ طور پر صوبوں کو ان کے دیرینہ مطالبات کے عوض ایک وسیع تر خود مختاری دی گئی ہے‘ کی بات ہو تو مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو احتیاط سے بیان جاری کرنا چاہیے تاکہ صوبوں میں مرکز کے بارے میں بدگمانی پیدا نہ ہو۔ اس قسم کی بدگمانی اور شکوک و شبہات کا احتمال اس لیے رہتا ہے کہ ماضی میں متعدد مواقع پر مرکز نے صوبوں سے وعدے کر کے پورے نہیں کیے۔ اب بھی پاکستانی وفاق کو درپیش سب سے بڑا چیلنج مرکز اور صوبوں کے درمیان پائے جانے والے شکوک و شبہات اور بے اعتباری (Trust Deficit) ہے‘ جس کو کم کرنا چاہیے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد میں کئی اُلجھنیں اور مشکلات حائل ہیں۔ اِس کا اعتراف حکومت کو بھی ہے اور اپوزیشن کو بھی۔ ان رکاوٹوں اور پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے گزشتہ اگست میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نئی پارلیمانی کمیٹی کے قیام پر اتفاق بھی ہوا تھا اور اس مقصد کے لیے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ملاقات بھی ہوئی تھی‘ لیکن مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم ایک ضروری اور بروقت اقدام ہے۔ اِسے اختلافی بیانات کے ذریعے متنازع بنانے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کو مجوزہ پارلیمانی کمیٹی جلد از جلد تشکیل دینی چاہیے تاکہ اِس اہم آئینی دستاویز پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو سکے۔