سیاست میں نہ دوستی پکی ہوتی ہے اور نہ دشمنی۔ آج کے دوست آنے والے کل میں ایک دوسرے کے دشمن ہو سکتے ہیں اور گزرے کل کے دشمن آج دوست بن سکتے ہیں۔ سیاست‘ خواہ قومی ہو یا بین الاقوامی، کی اگر کوئی مستقل بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ صرف باہمی مفادات ہیں۔ پاکستان کی اندرونی سیاست کے حوالے سے اس حقیقت کی زندہ اور حاضر مثال سندھ میں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین مفاہمت اور قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان ایک ملاقات میں ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ یہ ملاقات گورنر ہائوس میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد کے درمیان ہوئی۔
ملاقات کی جو تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں ان کے مطابق ایم کیو ایم نے کراچی میں جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کے خلاف جاری آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پولیس اور رینجرز کے اس مشترکہ آپریشن میں اس کے خلاف مبینہ زیادتیوں اور انتقامی کارروائیوں کو روکے کیونکہ ایم کیو ایم کے بقول ان کے کارکنوں کو بلا کسی جواز کے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس شکایت کا بھی اظہار کیا کہ ان کے کارکنوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کر کے ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو سب شکایتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے ہیں کیونکہ وہی کراچی میں گزشتہ ستمبر سے جاری آپریشن کی انچارج ہے لیکن صوبائی حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے کے بجائے ایم کیو ایم مرکزی حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ و ہ کراچی میں اس کے کارکنوں کے خلاف سندھ حکومت کی طرف سے مبینہ زیادتیوں کو روکے‘ حالانکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بارہا ایم کیو ایم کو نہ صرف اس کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی جا چکی ہے بلکہ حال ہی میں اسے ایک دفعہ پھر صوبائی حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی ہائی کمانڈ کی طرف سے بھی ایم کیو ایم کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے کی غرض سے ایک اہم کوشش کی گئی ہے اور اس مقصد کیلئے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ زرداری صاحب نے سندھ حکومت کو کراچی آپریشن کے بارے میں ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت کی حیثیت سے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا حصہ تھی۔ مئی 2013ء کے انتخابات سے عین پہلے ایم کیو ایم نے اس اتحاد سے الگ ہو کر دونوں جگہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انتخابات کے دوران دونوں پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور جونہی انتخابی نتائج اپنی حتمی شکل میں سامنے آئے ایم کیو ایم نے مرکز میں جیتنے والی پارٹی یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا‘ جسے آخرالذکر نے بخوشی قبول کر لیا۔ یوں دو سیاسی جماعتیں‘ جن کے درمیان پورے پانچ سال تک تلخ جملوں اور الزامات کا تبادلہ ہوتا رہا‘ ایک دفعہ پھر دوستی، تعاون اور اشتراک کے رشتوں میں بندھ گئیں۔
لیکن گزشتہ تقریباًَ سات ماہ کے عرصہ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے انٹرایکشن(Interaction) کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ باہمی تعلقات کو برقرار رکھنے کے عزم کے باوجود، دونوں جماعتوں کا کراچی اور سندھ کی صورتحال خصوصاً کراچی میں جاری آپریشن کے بارے میں نقطہ نظر مختلف ہے مثلاً ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن میں ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور ان کے سینکڑوں کارکنوں کو بلاجواز گرفتار کر کے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو یہ بھی شکایت ہے کہ کراچی میں ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بلکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں انہیں ان کے مینڈیٹ سے محروم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ متحدہ کے رہنمائوں کے مطابق رینجرز اور پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے گھروں میں چھاپے مارنے کی وارداتیں اس سازش کا حصہ ہیں‘ لیکن وفاقی حکومت اس موقف سے متفق نہیں۔ اب تک مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور وفاقی حکومت کے اعلیٰ اور ذمہ دار حلقوں کے بیانات میں اس بات کی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ کراچی آپریشن میں کسی خاص جماعت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ کے ساتھ کراچی میں ایم کیو ایم کے وفد کی ملاقات کے حوالے سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق وفاقی حکومت کراچی آپریشن سے مطمئن ہے اور اس کے خیال میں کسی جماعت کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا؛ البتہ وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کو یقین دلایا ہے کہ صرف ان ہی کے نہیں بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کے تحفظات کو دور کرکے کراچی آپریشن کو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے تعاون سے مزید موثر بنایا جائے گا۔ اس طرح وفاقی حکومت نے کراچی آپریشن پر ایم کیو ایم کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو نہ صرف قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس پر یہ بھی واضح کر دیا کہ آپریشن صوبائی حکومت کی نگرانی میں ہی جاری رہے گا۔ وفاق اور اس میں شامل اکائیوں یعنی مرکز اور صوبوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کے خواہش مند حلقے مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے اس طرز عمل کا یقیناً خیرمقدم کریں گے لیکن مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی اور تعاون کی بنیاد کیا ہے اور دونوں کے مقاصد کیا ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں ایک طرف ان کوششوں کا جائزہ لینا پڑے گا جو مسلم لیگ (ن) نے اب تک سندھ میں اپنا سیاسی وجود قائم رکھنے کیلئے کی ہیں اور دوسری طرف ایم کیو ایم خصوصاً الطاف حسین کی جانب سے مسلم لیگ (ن)کے ساتھ اتحاد پر جاری کیے گئے بیانات کا تجزیہ کرنا پڑے گا۔ مئی کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ(ن)کے قائدین میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے کراچی اور سندھ کے متعدد بار دورے کیے تھے۔ ان دوروں کا مقصد پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی عناصر مثلاً سندھی قوم پرست حلقوں اور فنکشنل لیگ سے رابطے پیداکرنا تھا۔ ان رابطوں کے نتیجے میں سندھ نیشنل فرنٹ کے لیڈر ممتاز بھٹو مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل گئے اور پیر آف پگاڑا نے بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا‘ لیکن یہ اتحاد پانی کا بلبلہ ثابت ہوا کیونکہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی نے انتخابی معرکہ جیت لیا۔ اندرونِ سندھ ناکامی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نظریں کراچی میں لگی ہوئی ہیں جو نہ صرف پاکستانی معیشت کیلئے اعصابی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ مختلف سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کے درمیان سیاسی دنگل کا اکھاڑہ بھی بن چکا ہے۔ اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) بھی زور آزمائی کرنا چاہتی ہے اور پائوں جمانے کیلئے اسے اگر ایم کیو ایم کا ہاتھ دستیاب ہو تو اس سے بڑھ کر مدد اور کیا ہو سکتی ہے؟ کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شہر کے تجارتی اور کاروباری حلقوں کا بڑھتا ہوا اضطراب بھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کیلئے سخت تشویش کا باعث تھا کیونکہ یہ حلقے تمام سیاسی پارٹیوں سے مایوس ہو کر فوج کو شہر اپنے کنٹرول میں لینے پر اصرار کر رہے تھے۔ ایم کیو ایم کا اصل مقصد پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کو نیوٹرلائز (Neutralize) کرنا ہے تاکہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کرکے سندھ کو ڈی فیکٹو (De-fecto) طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دے۔ ایم کیو ایم کو معلوم ہے کہ اس مقصد کے حصول میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسے دور کرنے کیلئے ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کی مدد حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات کے باوجود اس پر آمادہ نہیں ہو گی کیونکہ ماضی میں ایسی کوششیں ناکام رہی تھیں اور آئندہ بھی اس کی کامیابی کا بہت کم امکان ہے۔