حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات سے جہاں بہت سے مسائل پر بحث چھڑی ہے،وہاں پاکستان کے موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے پر بھی مختلف زاویوں سے اظہار خیال کیا جارہا ہے۔ان میں ایک رائے طالبان اور ان کے نمائندوں کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔اس میں جن امور پر زور دیا جارہاہے وہ یہ ہیں کہ:(1)پاکستان کا موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچہ غیر ملکی آقائوں یعنی انگریزوں کا دیا ہوا ہے۔ (2)یہ نظام اسلام سے متصادم اور شریعت کے منافی ہے۔ (3)اسے ختم کر کے قرآن اور سنت پر مبنی نظام نافذ کیا جائے۔
اس میں توکوئی شک نہیں کہ پاکستان کے سابقہ آئینوں کی طرح1973ء کا آئین بھی بنیادی طور پر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت،وفاقی نظام اور آزاد عدلیہ کے بارے میں جو دفعات پاکستان کے آئین میں موجود ہیں انہیں 1935ء ایکٹ نے ہی برصغیر پاک و ہند میں متعارف کروایا تھا۔اس نظام کو آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت نے اس لیے قبول کیا تھا کیوں کہ اسے آزادی کی طویل جنگ لڑنے والی ہندو مسلم سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔1935ء کا ایکٹ دراصل ایک آزاد ہندوستان کے لیے آئینی ڈھانچہ تیار کرنے کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔اور اس کی تیاری میں برطانیہ اور ہندوستان کے بہترین لیگل اور پولیٹیکل مائنڈز(Legal Minds)نے مل کر کام کیا تھا۔ان میں علامہ اقبال جیسے لیڈر بھی شامل تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب آزادی کا سورج طلوع ہوا اور پاکستان اور بھارت دو الگ الگ آزاد مملکتیں وجود میں آئیں تو ان دونوں نے بلاتامل اس ایکٹ کو ضروری ترامیم کے ساتھ اپنا عبوری آئین بنا لیا۔ ایسا کرنا ان دونوں ملکوں کی مجبوری بھی تھی کیونکہ ایک تو اس کاکوئی متبادل موجود نہیں تھا اور دوسرے اس کی تیاری اور تشکیل میں خود سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان اور بھارت میں آئین سازی کا عمل شروع ہوا تو اس کے لیے بطور فریم ورک1935ء کے ایکٹ کو ہی اپنایا گیا کیونکہ جہاں تک بنیادی خدوخال کا تعلق ہے ان پر سب سیاسی پارٹیوں کا اتفاق تھا۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں یہ عمل جلدی مکمل ہوگیا۔اور 1951ء میں ہی بھارت کا آئین تیار ہوگیاتھاجس کی بنیاد پر ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کا آئین بہت حد تک1935ء کے ایکٹ پر ہی مبنی ہے۔بھارتی آئین تشکیل دینے والے کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر نے جب آئینی مسودہ انڈین آئین سازاسمبلی میں پیش کیا تو اُنہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ مسودہ 90فیصد سے زائد حد تک 1935ء ایکٹ کی دفعات پر مبنی ہے۔یہی بات کافی حد تک پاکستان کے آئینی ڈھانچے کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔
1956ء کا آئین موجودہ(1973ء) کے آئین کی طرح پارلیمانی جمہوریت کے اصولوں پر استوار تھا لیکن دونوں میں دیے گئے پارلیمانی نظام میں کچھ فرق ہے۔1956ء کا آئین1935ء کے ایکٹ سے اس لیے بہتر تھا کہ 1956ء کے آئین میں سربراہِ مملکت کے وہ اختیارات نہیں تھے جو اسے 1935ء کے ایکٹ کے تحت بطور گورنر جنرل حاصل تھے۔ اسی طرح جب ہم 1973ء (خصوصاََ اٹھارویں ترمیم کے بعد)کے آئین کا 1956ء کے آئین سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ اول الذکر تین اعتبار سے موخر الذکر سے بہتر ہے۔مثلاً (1)موجودہ آئین کے تحت صدر کی بجائے وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے۔ (2)۔ 1956ء کے آئین کے تحت وزیراعظم کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس تھا لیکن 1973ء کے آئین کے تحت قومی اسمبلی وزیراعظم کو منتخب کرتی ہے۔ (3)۔ 1956ء کے مقابلے میں 1973ء کے آئین کے تحت صوبوں کو کہیں زیادہ اختیارات اور خود مختاری (Autonomy)حاصل ہے۔اس طرح موجودہ آئین نہ صرف زیادہ جمہوری طرز حکومت کا نمائندہ ہے بلکہ اس میں پاکستانی ریاست کو ایک صحیح وفاقی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ مقام بھارت ابھی تک حاصل نہیں کر سکا حالانکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم نے یہ مقام عوامی جدوجہد اور اتفاق رائے کی سیاست(Consensus Politics)کے ذریعے حاصل کیا ہے۔اس نظام کو باہر سے درآمد نہیں کیاگیا‘ نہ کسی نے بزور طاقت ہی ہم پر ٹھو نسا ہے۔ 1935ء کا ایکٹ بھی ہندوستانی عوام ،جن میں مسلم اور غیر مسلم سبھی شامل تھے،کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ کانگرس اور مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان میں ایک جمہوری اور وفاقی نظام نافذ کرنے کے لیے جو مطالبات پیش کیے گئے‘ انگریزوں کو انہیں تسلیم کرنا پڑا اور اس کا نتیجہ1935ء ایکٹ تھا۔بعد میں جب آزادی حاصل ہوئی تو اس ایکٹ کی خرابیوں کو دور کرکے اسے صحیح معنوں میں جمہوری بنادیاگیا۔اس کامیابی کا دوسرا اہم پہلوConsensus Politics تھا۔ 1973ء کے
آئین کی طرح 1956ء کا آئین بھی ایک متفقہ آئین تھا۔عوامی لیگ کے سربراہ جناب حسین شہید سہروردی‘ جن کی جماعت عوامی لیگ نے بنیادی اصولوں کی کمیٹی(Basic Principles Committee) کی پہلی رپورٹ (First Report) کے خلاف ڈھاکہ میں آل پارٹیز کنونشن بلا کر مرکز کے لیے صرف تین محکمے یعنی دفاع،خارجہ امور اور کرنسی کی بنیاد پر صوبائی خود مختاری کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا‘ 1956ء کے آئین پر مطمئن تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اس آئین میں ان کے اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کے صوبائی خود مختاری کے مطالبات کو 90فیصد حد تک پورا کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی اور امیر مولانا مودودی نے 1956ء کے آئین کو عین اسلامی قرار دیا تھا۔بعد میں جب ایوب خان نے1958ء میں آئین کو منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کیا تو گویا پاکستان کی بنیاد پر کلہاڑی چلا دی، پھر پاکستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے کمبائنڈاپوزیشن کے جھنڈے تلے جو تحریک چلائی اس کا سب سے بڑا مطالبہ 1956ء کے آئین کی بحالی تھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ 1956ء کا آئین 9برسوں کی کاوشوں کے بعد تشکیل دیا گیا تھا اور یہ ایک متفقہ آئین تھا۔1973ء کے آئین کو اس کی اصلی صورت میں بحال کرنے کے لیے جو مطالبات پیش کیے جاتے رہے‘ ان کا پس منظر بھی یہ ہے کہ اس کی تشکیل میں ایوب خان کے خلاف 1968-69ء میں چلائے جانے والی عوامی تحریک اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے کو دخل حاصل تھا۔ لیکن پاکستان میں کچھ عناصر ایسے موجود ہیں جنہوں نے اس قومی اتفاق رائے
کی ہمیشہ مخالفت کی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔اس نوعیت کی پہلی کوشش1958ء کا مارشل لاء تھی۔ 1956ء کا آئین ایک ایسی زنجیر تھا جس نے پاکستان کے دوحصوں کو آپس میں باندھ رکھا تھا۔ ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے اور مارشل لاء لگا کر اس زنجیر کو توڑ دیا اور اس کے ساتھ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کردیا۔ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم نافذ کر کے جمہوریت اور وفاقیت دونوں کو نقصان پہنچایا۔اور یہ اس کے دور کا شاخسانہ ہے کہ ایک طرف انتہا پسند مذہبی قوتیں جمہوریت کو چیلنج کرتی ہیں اور اسے اسلام کے منافی قرار دیتی ہیں اور دوسری طرف اٹھارویں ترمیم کے باوجود صوبوں کے درمیان وہ تعاون اور مفاہمت نظر نہیں آتی جو قومی یک جہتی اور اتفاق رائے کا تقاضہ ہے۔ضیاء الحق کی طرح جنرل مشرف بھی1973ء کے آئین میں شامل پارلیمانی جمہوریت اور وفاقیت کے ڈھانچے کا سخت مخالف تھا۔اسے ختم یا محدود کرنے کے لیے اس نے سترھویں آئین ترمیم آئین کا حصہ بنایا۔لیکن جونہی جمہوریت کا پہیہ حرکت میں آیا، آٹھویں ترمیم کی طرح سترھویں ترمیم کو بھی قصہ پارینہ بنادیا گیا۔
اس سے جو اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کا وہی نظام دیرپا اور کامیاب ثابت ہوتا ہے،جسے عوام کی تائید حاصل ہو۔آج سے تقریباََ ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے مشہور فلسفی ارسطو نے کہا تھا فرد خواہ وہ کتنا ہی قابل،نیک اور عقلمند کیوں نہ ہو‘ کی حکمرانی کے مقابلے میں آئین کی حکمرانی ہر لحاظ سے بہتر ہے کیونکہ آئینی حکمرانی میں لوگوں کی رضا مندی شامل ہوتی ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا گروہ کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی مفاد کے لیے ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو ایک ریاست کو اتحاد اور استحکام بخشتی ہیں۔