"DRA" (space) message & send to 7575

لائن آف کنٹرول پر تجارت کی بحالی

تین ہفتے سے زائد عرصہ تک معطل رہنے کے بعد کشمیر میں جنگ بندی لائن (لائن آف کنٹرول)کے آرپار تجارت کو بحال کر دیا گیا ہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت نے اپنے دوطرفہ تعلقات خصوصاً تجارت اور سفری سہولتوں کے شعبوں میں بہتری لانے کیلئے جو اہم اقدامات کیے ہیں‘ ان میںلائن آف کنٹرول کے دونوں جانب تجارت کی بحالی نہ صرف ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ ایک انتہائی مفید اور اطمینان بخش قدم بھی۔ اس لیے کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے عوام خصوصاً تاجر برادری اس تجارت کے حق میں ہیں اور اسے سرحد کے اس پار اور اس پار رہنے والے کشمیریوں کے درمیان رابطے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔اس تجارت کو گزشتہ ماہ کی19تاریخ کو اس وقت بند کر دیا گیا تھا،جب آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے والے ایک ٹرک سے بھارتی حکام نے ہیروئن کے114پیکٹ برآمد کیے تھے۔بھارتی حکام نے ٹرک ڈرائیور کو حراست میں لے لیا اور دونوں طرف سے ٹرکوں کی روانگی روک دی گئی۔ آزاد کشمیر کے حکام نے اسے بھارت کی جانب سے کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs)کو بتدریج ختم کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا نام دیا اور جوابی کاروائی کے طور پر نہ صرف مظفر آباد سے سری نگر جانے والی بس سروس کو معطل کردیا،بلکہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرک ڈرائیوروں کو بھی واپس جانے سے روک دیا۔اس پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک تشویش ناک صورتِ حال پیدا ہوگئی جسے اعلیٰ سطح پر رابطوں کے ذریعے دور کر دیاگیا۔پہلے مظفر آباد سری نگر بس سروس بحال کردی گئی اور اب ٹرانس ایل او سی تجارت کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ہیرئون کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار پاکستانی ڈرائیور کا مسئلہ تاہم ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔اسے حل کرنے کیلئے فریقین میں مذاکرات جاری ہیں۔
اگرچہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان مظفرآباد سری نگر بس سروس کا آغاز اپریل2005ء میں ہوگیا تھا،تاہم لائن آف کنٹرول کے آرپار تجارت اکتوبر2008ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس مقصد کیلئے آزاد کشمیر میں چکوٹھی اور مقبوضہ کشمیر میںسلام آباد کے مقامات پر تجارتی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے مراکز قائم کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ کشمیر کے دونوں حصوں میں تجارت کیلئے دو اور کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں۔ابتدا میں نہ صرف تجارت چند اشیا تک محدود تھی بلکہ تجارتی اشیا لے جانے والے ٹرکوں کو بھی ہفتے میں دو دن سرحد پار کرنے کی اجازت تھی۔لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں نہ صرف تجارت کے حجم میں اضافہ ہوا ہے،بلکہ تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کی فریکوئنسی (Frequency) میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ نومبر2003ء میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے بعد مظفر آبادسری نگر بس سروس اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت کو کشمیر سے متعلق اعتماد سازی کے اقدامات میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ان اقدامات کو کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والے عوام نے بڑے پیمانے پر خوش آمدید کہا۔ بلکہ وہ اس میں مزید وسعت کے متمنی ہیں۔ خصوصاً سفری سہولتوں میں اضافہ کشمیریوں کا ایک اہم مطالبہ ہے کیونکہ اب تک یہ سہولت دونوں طرف رہنے والے منقسم خاندانوںتک 
محدود ہے۔دونوں طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ یہ سہولت عوام کے دیگر طبقوں یعنی ملازمین، طلبا، صحافیوں اور سیاحوں کو بھی دی جائے۔اسی طرح کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والی تاجر برادری نہ صرف موجودہ تجارت کو برقرار رکھنے بلکہ اسے وسعت دینے کے حق میں ہے۔اس تجارت سے وابستہ کاروباری لوگوں اور تنظیموں میں دونوں طرف نمایاں اضافہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نومبر2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد پاک بھارت امن مذاکرات دوڈھائی سال تک معطل رہے تھے،لائن آف کنٹرول پر تجارت جاری رہی البتہ گزشتہ برس 8جنوری کو لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فوج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دوبھارتی فوجی جوانوں کی ہلاکت کے بعد حالات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے،کہ تجارت کو بند کرنا پڑا۔مگر دونوں طرف تاجر برادری کی طرف سے سخت مطالبے کے بعد یہ تجارت بحال کردی گئی۔اس دوران اگرچہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری رہی ،تاہم تجارت متاثر نہ ہوئی۔
حالیہ تعطل کے بعد تجارت کی بحالی اس بات کا ثبوت ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے لوگ باہمی روابط کے حق میںہیں۔ گزشتہ 8برسوں میں ان روابط کے ذریعے وادی کے دونوں حصوں میں رہنے والے کشمیریوں میں ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی اور مفاہمت کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔اور اب کشمیری عوام ان رابطوں کو اتنا اہم اور مفید سمجھتے ہیں کہ ان میں رخنہ ڈالنے کی کسی کوشش کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
تاہم پاکستان اور بھارت دونوں میں ایسے انتہا پسند عناصر موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ تجارت اور سفری سولتوں کے ذریعے کشمیر کے دونوں حصوں میںرہنے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔اپنے ان مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے یہ عناصر مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ان میں لائن آف کنٹرول پراشتعال انگیز فائرنگ اور دہشت گردی کی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔اس قسم کے واقعات سے دونوں طرف جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور عوام کی طرف سے دونوں ملکوں کی حکومتوں پر دبائو میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے تحت تجارت معطل کرنے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔2005ء میں جب مظفر آبادسری نگر بس سروس کا اجرا ہوا تھا،تو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے اسے روکنے کااعلان کیا گیا تھا۔اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان عناصر نے بس سروس کے افتتاح سے چند روز قبل سری نگر ٹرمینل پر بم دھماکہ بھی کیا تھا لیکن دہشت گردی کی یہ واردات بس سروس کو نہ روک سکی بلکہ گزشتہ 8برسوں میں اس میں کافی بہتری لائی جا چکی ہے۔دونوں طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ آمدورفت کیلئے مزید زمینی روٹ کھولے جائیں اور یہ سہولت صرف وادی کشمیر میں رہنے والے لوگوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے‘ اس میں جموں کے لوگوں کوبھی شامل کرنا چاہیے۔سفری سہولتوں پر عائد شدہ پابندیوںکو نرم کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔ موجودہ سسٹم کے تحت کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان آمدورفت کی اجازت صرف منقسم خاندانوں کے افراد کو حاصل ہے اور اس اجازت کو حاصل کرنے کیلئے بھی کئی مہینوں بلکہ بعض صورتوں میں سال سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔کشمیریوں کیلئے یہ پابندیاں ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہیں اور وہ اِنہیں نرم کرنے کیلئے اپنی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں۔اگر انتہا پسند اور تخریبی عناصر کی کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی فضا کشیدگی او ر الزامات سے پاک رہتی تو لائن آف کنٹرول کے آرپار سفری سہولتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہوتا۔
اسی طرح لائن آف کنٹرول پر تجارت بھی دن بدن مقبول ہوتی جارہی ہے۔اس میں دونوں طرف سٹیک ہولڈرز میں اضافہ ہوچکا ہے۔لائن آف کنٹرول پر تجارت کے حق میں دونوں طرف لابی اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ اب پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کیلئے اسے روکنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ کشمیر کے دونوں حصوں میں رہنے والی تاجر برادری اس تجارت میںکروڑوں روپے کا انوسٹیمنٹ کر چکی ہے۔سیاسی لحاظ سے بھی یہ روابط خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کا خیال ہے کہ ان روابط سے نہ صرف عوام کو فائدہ ہوگا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی بھی آئے گی اور ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں مسئلہ کشمیر کے پر امن اور دیرپا حل کیلئے راستہ نکل آئے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں