وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے اسلام آبادمیں گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوام اور خصوصاً اسلام آباد کے شہریوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ اْن کی حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں ملک کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی واقع ہوئی ہے۔اس سلسلے میں اْنہوں نے کراچی اورکوئٹہ میں دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کا ذکر کرنے کے علاوہ اسلام آباد اور اْس کے گردونواح میں غیر رجسٹرڈ افراد کے خلاف اقدامات کا بھی حوالہ دیا ۔ چودھری نثار نے یہ بھی بتایا کہ جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے ملک کے اندرونی تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والی فورسز کی صلاحیت بڑھانے کی خاطر انہیں جدید ترین ساز و سامان اور ہتھیار بھی مہیا کیے ہیں۔ اپنی پریس کانفرنس میں وزیرداخلہ نے طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کے آغاز اور اْن کے تعطل کی وجوہ پر بھی روشنی ڈالی اور تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں ایف سی کے 23 جوانوں کی شہادت کے بعد حکومتی ردِعمل کی بھی وضاحت کی۔ لیکن اْن کی پریس کانفرنس کا فوکس داخلی سلامتی سے متعلقہ امور پر تھا۔ اْن کا اصل مقصد اْس تاثر کو دور کرنا تھا جو نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل (National Crisis Management Cell) کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے داخلی سلامتی کی صورتِ حال پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امْورکے سامنے ایک رپورٹ پیش کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پورے
ملک پر دہشت گردی کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور پاکستان کا کوئی بھی حصہ حتیٰ کہ اسلام آباد بھی ان خطرات سے محفوظ نہیں ۔ رپورٹ میں اْن دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے امن و امان کو شدید خطرہ ہے۔ ان میں القاعدہ ، لشکرِ جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ دیگر انتہا پسند گروپ شامل ہیں ۔ بریفنگ میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا انکشاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بارے میں ہے جس کے تحت خبردار کیا گیا ہے کہ مذکورہ دہشت گرد تنظیموں نے اسلام آباد میں اپنے ٹھکانے قائم کررکھے ہیں جن کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت جہاں سفارت خانوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے منسلک غیر ملکی باشندوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، ''انتہائی غیر محفوظ‘‘ ہوچکا ہے۔ میڈیا میں اس بریفنگ کی تفصیلات آنے کے بعد نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اوراس کا اعتراف خود وزیرداخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا ۔ غالباً اسی وجہ سے اْنہوں نے اْن تمام اقدامات کا ذکر کیا جن کے بعد وہ سمجھتے ہیںکہ اسلام آباد ایک''انتہائی غیر محفوظ‘‘شہر نہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ جگہ ہے ، یہاں کے باسیوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
وزیرداخلہ کی یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ موجودہ حکومت نے دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے۔ خود وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے بارہا کہا ہے کہ دہشت گردی اور خراب اقتصادی صورتِ حال اْن کی حکومت کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔ اْن کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ جب تک ملک میں دہشت گردی ہے، معاشی ترقی کا عمل شروع نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لیے کراچی میں بھی دہشت گردوں ، بھتہ خورں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ وزیرداخلہ یہ کہنے میں بھی کافی حد تک حق بجانب ہیں کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران میںانٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کے درمیان کوآرڈینیشن میں بھی بہتری آئی ہے ، لیکن اس کے باوجود ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی نہیں آئی ۔ حکومت نے تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کی جو کوشش کی تھی، وہ ناکامی سے دوچار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں اْن اعداد وشمار کی صورت میں ملتا ہے جو دفاعی حلقوں کی طرف سے حال ہی میں جاری کیے گئے ہیں ۔ ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 10ستمبر سے اب تک460افراد طالبان کے حملوں میں شہید اور1264زخمی ہوئے ہیں ، ان میں بھاری اکثریت سول شہریوں کی ہے۔ یاد رہے کہ 9 ستمبر2013ء کو پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے متفقہ طور پر حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا اور چونکہ طالبان کی طرف سے بھی مذاکرات کی پیش کش کی گئی تھی اس لیے حکومت کو توقع تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلان کے بعد تحریک طالبان مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی خاطر دہشت گردی کی کارروائیاں روک دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ دہشت گردی کی کارروائیاں اور بھی تیز ہوگئیں ، حتیٰ کہ 29 جنوری کے وزیراعظم کے بیان کے بعد اور مذاکرات کے آغاز سے بھی دہشت گردی میں کوئی فرق نہ پڑا۔ بڑی کارروائیوں میں کراچی میں پولیس کے15جوانوں اور طالبان کی قید میں ایف سی کے23 جوانوں کی شہادت شامل ہے۔ ان دونوں واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ اس دوران اور بھی واقعات ہوئے ہیں جن کی اگرچہ تحریک طالبان نے براہ راست ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم ان وارداتوں میں مستعمل طریقے اور مہارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں بھی تربیت یافتہ اور منظم عناصر کا ہاتھ ہے۔
داخلی محاذ پرصورتِ حال کے بارے میں وزیرداخلہ کی یقین دہانیوں کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ تیرہ برسوں میں حکومت کی غفلت یا بے اعتنائی کی وجہ سے دہشت گرد تنظیمیںاتنی منظم اور طاقتور ہوچکی ہیں کہ وہ جہاں چاہیں اور جس وقت چاہیں اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتی ہیں ۔
داخلی سلامتی کا مسئلہ اتنا گمبھیرہے کہ نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کے سربراہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بریفنگ کے دوران جو انکشافات کیے ہیں اْنہیں صرف ٹِپ آف دی آئس برگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بریفنگ میں داخلی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کے عوامل کا ذکر کرتے ہوئے صرف بیرونی عوامل مثلاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے خراب تعلقات ، افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی اور پاکستان میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی دہشت گردوں کے قیام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے رْوپ میں پاکستان کو داخلی محاذ پر درپیش سب سے بڑے چیلنج کا منبع دراصل مذہبی انتہا پسندی ہے جسے پاکستان کی سابق فوجی حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پروان چڑھایا اور جس کے آگے بند باندھنے کے لیے موجودہ حکومت نظریاتی اور عملی طور پر تیار نہیں ۔ جب تک دہشت گردوں اور اْن کے حمایتی عناصر کو اْن کے اصل رْوپ میں ظاہر کرکے عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا،دہشت گرد مذہب کے مقدس نام کو استعمال کر کے اپنی مذموم حرکتیں جاری رکھیں گے۔