قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے امور خارجہ جناب سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ حکومت بیک چینل ڈپلومیسی اور ورکنگ گروپوں کے ذریعے بھارت کے ساتھ دوطرفہ بات چیت کے سلسلے کی بحالی کیلئے راہ ہموار کر رہی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں کہ جناب سرتاج عزیزنے پاکستان کی جانب سے اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے ضمن میں حوصلہ افزا بیان دیا ہے۔اس سے قبل 27فروری کو اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بھی اْنہوں نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کیلئے بیک چینل سفارتی کوششیں جاری ہیں۔لیکن دوسری طرف یعنی بھارت سے برابر کا مثبت جواب آنے کی بجائے ملے جْلے ردِعمل کا اظہارکیا جارہا ہے۔ بلکہ بعض مواقع پر تو مایوس کْن رویے کا اظہار کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا ایک حالیہ بیان خصوصی توجہ کے لائق ہے۔ دو دن پہلے دہلی میں ایک بیان میں اْنہوں نے اعتراف کیا کہ پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بحالی کیلئے پسِ پردہ کوششیں جاری ہیں۔بھارت اس کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے کچھ مثبت اشارے بھی ملے ہیں۔ لیکن پاکستان کی غیر یقینی اندرونی صورتِ حال اور کچھ اقدامات کی وجہ سے بھارت کی موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ ڈائیلاگ بحال کرنے کیلئے حالات ابھی سازگار نہیں اور اس سلسلے میں جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرحد کے دونوںا طراف ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور تعاون اور دوستی کے رشتے مضبوط کرنے کی خواہش برابر موجود ہے۔ آج سے دس برس قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کو حل کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے امن کا جو عمل شروع کیا گیا تھا،وہ اگرچہ ایک آدھ بار تعطل کا بھی شکار رہا،تاہم یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس سے دونوں ملکوں میں امن کے خواہاں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ آنے جانے کیلئے نئے راستے کھلے ہیں۔ تاجروں، کاروباری لوگوں، صحافیوں، دانشوروں، طلباء اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا آپس میں میل جول بڑھا ہے، دوطرفہ تجارت کا حجم پہلے سے کئی گْنا زیادہ ہے۔حتیٰ کہ کشمیر میں بھی مظفر آباد سری نگر بس روٹ کے علاوہ تجارتی راستہ بھی کھولا گیا ہے۔ان اقدامات سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ دونوں ملکوں میں کوئی بھی حکومت آ جائے اس سے مْنہ نہیں موڑ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے یہ عمل چاہے معطل ہوجائے؛ تاہم اسے ختم کرنا یا پیچھے دھکیلنا ناممکن ہو چْکا ہے۔
دونوں ملکوں میں جس قدر خیر سگالی،دوستی اور تعاون کی ضرورت ہے،اْس سے وہ اب بھی کوسوں دور ہیں۔اس منزل پر پہنچنے کیلئے جس رفتار اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے،وہ دونوں طرف ناپید ہے۔مثلاً سر کریک اور سیاچن کے تنازعات کے حل پر دونوں ملکوں میں نہ صرف اتفاق ہوچکا ہے بلکہ ان تنازعات کی تمام جْزئیات کو بھی باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کرلیاگیا ہے۔اس کے باوجود بھارت ان کے حل پر باقاعدہ دستخط کیلئے تیار نہیں۔پاکستان کی طرف سے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دورہ کرنے کی دعوت کئی دفعہ دی گئی ہے۔موجودہ حکومت نے بھی یہ دعوت دی ہے جسے بھارت وزیراعظم نے قبول کر لیا تھا لیکن بھارتی وزیراعظم پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں۔اب چونکہ بھارت کے پارلیمانی انتخابات اگلے ماہ ہونے والے ہیں اس لیے بھارتی وزیراعظم کے دورئہ پاکستان کا امکان اور بھی کم ہوگیا ہے۔اگر بھارتی وزیراعظم پاکستان کی دعوت پر ملک کا دورہ کر لیتے تو دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا کہیں زیادہ بہتر ہوجاتی۔اس سے دوطرفہ تنازعات کے حل میں بھی بہت مدد حاصل ہوتی۔لیکن پاکستان کے دورہ کرنے سے احتراز اور سرکریک اور سیاچن پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار نے دونوں ملکوں میںشک اور بدگمانی میں اور بھی اضافہ کر دیاہے۔
اس طرح پاکستان کی طرف سے بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے اور دوطرفہ تجارت پر تمام پابندیاں اْٹھانے کے متعدد بار اعلانات کے باوجود ان پر عمل کرنے میں ناکامی نے بھی دونوں ملکوں میں شکوک وشبہات کی فضا کو اور زیادہ مکدر کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔بھارتی حکومت کو شکایت ہے کہ چند ماہ پیشتر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تجارت خر م دستگیر کے دورئہ بھارت کے موقع پر جو وعدے کیے گئے تھے،وہ پورے نہیں کیے گئے۔لاہور میں بھارتی مصنوعات کی نمائش کے افتتاحی اجلاس میں بھارت کے وزیر برائے کامرس جناب آنند شرما کے شرکت سے انکار کا سبب بھی یہی شکایت ہے۔اور غالباً وزیر خارجہ سلمان رشید نے بھی جن منفی واقعات کا ذکر کیا ہے،اْن میں پاکستان کی طرف سے ایم ایف این کا درجہ دینے میں پاکستان کی ناکامی بھی شامل ہے۔
بھارتی وزیرخارجہ کا بیان اس لحاظ سے بھی افسوسناک اور مایوس کْن ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے اور اقتصادی تعاون بڑھانے کی پالیسی کو بھی ترک نہیں کیا۔بلکہ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جن سے بھارت کے ساتھ پْر امن،دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کے قیام میں پاکستان کی دلچسپی اور خلوص ظاہر ہوتاہے۔ مثلاً بعض حلقوں کی طرف سے مخالفت کے باوجود حال ہی میں دفاعی کابینہ نے مشرقی پنجاب سے500میگاواٹ بجلی خریدنے کی منظوری دی ہے۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بھارتی حکومت نے ابھی تک اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔بلکہ وزیر خارجہ سلمان خورشید کے مطابق بھارت کی طرف سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا۔اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت کو واہگہ کے راستے پاکستان سے تجارت کرنے کی اجازت کے علاوہ اس تجارتی راستے کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔اس سال یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کو کشمیرکا مسئلہ کرنے کیلئے دوطرفہ بات چیت کی بھی دعوت دی تھی۔
مگر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ماضی کی روش کو ترک کرنے اور اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں۔گزشتہ66برس کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے جب بھی تعلقات کو معمول پر لانے اور متنازعہ مسائل حل کرنے کی تجویز پیش کی گئی،بھارت کی طرف سے خیر مقدم کی بجائے ہمیشہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔بلکہ اس کیلئے نِت نئی شرائط بھی پیش کی جاتی رہیں۔ کبھی دوستی اور تعاون کو دہشت گردی کے مسئلے سے نتھی کیا گیا اور کبھی کھْلی تجارت اور راہداری کی رعایت کا پیشگی مطالبہ کیا جاتارہا۔ اس رویہ کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے پاکستان کی ہرکوشش اور پہل کو ناکامی کا مْنہ دیکھنا پڑا۔
دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے ضروری ہے کہ اس سے شرائط وابستہ نہ کی جائیں کیونکہ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بھارت ہو یاپاکستان کسی بھی طرف سے امن اور تعاون کو جب بھی کسی مطالبے کی منظوری سے مشروط کیا گیا،تو اس میں ناکامی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آیا۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتری کی طرف جس رفتار اور ثابت قدمی سے آگے بڑھنا چاہیے،وہ ابھی تک آگے کیوں نہیں بڑھے؟اس کی سب سے بڑی وجہ لمبے عرصے میں پیدا ہونے والی بدگمانی اور بد اعتمادی ہے جسے یقینا دِنوں میں ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اسے ختم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات اور میل ملاپ کا سفر جاری رہنا چاہیے۔