"DRA" (space) message & send to 7575

چین‘ بھارت جنگ

ایک آسٹریلوی صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ 1962ء میں چین اور بھارت کے درمیان لڑی جانے والی سرحدی جنگ کا ذمہ دار چین نہیں تھا۔ بلکہ یہ سراسر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی غلط پالیسی کا نتیجہ تھی۔یہ انکشاف ایک50برس پرانی رپورٹ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر نومبر 1962ء کی اس سرحدی جنگ میں حصہ لینے کیلئے بھارتی فوج تیار نہیںتھی بلکہ پنڈت نہرو نے اپنی فارورڈ پالیسی کے تحت اور چینیوں کی طرف سے پر امن بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے پر اصرار کے باوجود،بھارتی فوج کو چینیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیا۔لیکن شکست کھائی۔یہ رپورٹ آج سے50برس پہلے خود بھارت کے فوجی ذرائع نے تیار کی تھی۔لیکن اسے جان بوجھ کر ظاہرنہیں کیا گیا تھا۔تاہم آسٹریلوی صحافی کے ہاتھ لگ جانے کے بعد اس رپورٹ کے مندرجات سامنے آئے۔جوکافی چونکا دینے والے ہیں۔ لیکن یہ پہلاموقعہ نہیں ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ایشیا کے دو سب سے بڑے ملکوں کے درمیان مسلح تصادم پر سے جس نے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا تھا، پردہ اٹھایاگیا اور حقائق کو دنیا کے سامنے لایاگیا ہو۔بہت سے مبصرین اس بات پر حیران تھے کہ چین اور بھارت جن کے درمیان جنگ سے صرف چند سال پیشتر چینی‘ہندی بھائی بھائی کا نعرہ لگتا تھا‘ آپس میں گتھم گتھا کیوں ہوئے؟اس سوال کا جواب فراہم کرنے کیلئے ہمیں اس وقت کے عالمی حالات اور خود پنڈت نہرو کے بھارتی خارجہ پالیسی کے بارے میں خیالات کو بیان کرنا پڑے گا۔
1962ء میں جب یہ سرحدی جھڑپ ہوئی تو اس وقت ویت نام جنگ کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی انتہا پر تھی۔ امریکہ نے چین کے ساتھ تو 1949ء سے ہی ناتا توڑ رکھا تھا لیکن ویت نام جنگ کی وجہ سے امریکہ چین کو آئے دن مسلح کارروائی کی دھمکی دیتا رہتا تھا۔کیونکہ اس کے مطابق جنوبی ویت نام میں امریکہ کے خلاف جاری جنگ میں چین شمالی ویت نام کی حمایت کررہا تھا۔اس کے علاوہ 1962ء میں روس کے ساتھ بھی چین کے اختلافات عروج پر تھے۔حالانکہ اس وقت روس،سوویت یونین کی صورت میں چین کا کمیونسٹ بھائی تھا۔لیکن سوویت وزیراعظم خروشچیف نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے چین کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔امریکہ اور سوویت یونین دونوں کے معاندانہ رویے کی وجہ سے چین سخت مشکلات سے دوچار تھا۔اس کی عالمی تجارت نہ ہونے کے برابر تھی۔سوویت یونین نے چین کی نہ صرف اقتصادی امداد بند کردی تھی بلکہ چین میں روس کی مدد سے جو کارخانے لگائے گئے تھے،انہیں بھی روسی حکام نے بند کر کے مشینری اور دیگر سازوسامان چین سے نکال لیا تھا۔
ان حالات میں پنڈت نہرو نے علاقے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کیلئے کوئی بڑا معرکہ سر کرنے کا بیڑہ اٹھایا چونکہ چین آبادی کے لحاظ سے ایشیا کا سب سے بڑا ملک تھا، اور 1951ء کی کوریا کی جنگ میں امریکہ کے دانت کھٹے کرنے کے بعد ویت نام میں امریکی جارحیت کو چیلنج کر رہا تھا۔اس لیے بھارت نے اس کے خلاف فوجی کاروائی کا سوچ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی،کہ ایشیا کا لیڈر چین نہیں بلکہ بھارت ہے۔ 1962ء کی چین۔بھارت جنگ کی اصل وجہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے توسیعی عزائم تھے۔جن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے،پنڈت نہرو نے جان بوجھ کر چین کے ساتھ اختلافات کو ہوا دی جو بالآخر 1962ء کی جنگ پر منتج ہوئی۔اس کی ابتداء 1959ء میں تبت سے ہوئی تھی۔ تبت ہمیشہ سے چین کا حصہ رہا ہے،لیکن اس کے اہم جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہندوستان میں برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے اسے چین اور بھارت کے درمیان ایک بفرزون بنانے کیلئے تبت کو چین سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کیلئے تبت میں چین مخالف قوتوں کی حمایت کی۔
لیکن اصل جھگڑا چین اور بھارت کے درمیان چار ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرحد کی نشان دہی کا تھا۔یہ سرحد مغرب میں لداخ سے شروع ہو کرہمالیہ کے ساتھ ساتھ شمال مشرق میں ارونا چل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔ 1914ء میں جب چین اندرونی خلفشار کا شکار تھا اور مرکز میں کوئی مضبوط حکومت نہیں تھی،برطانیہ نے شملہ میں تبت،چین اور ہندوستان کے نمائندوں پر مشتمل ایک سہ فریقی کانفرنس منعقد کر کے ایک سرحدی لکیر کھینچ دی جسے میک موہن لائن کہا جاتا ہے۔چین نے اس وقت بھی اس سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ چین کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھا کربرطانیہ نے مشرق اور مغرب میں کچھ ایسے علاقوں کو ہندوستان کا حصہ ظاہر کیا تھا جسے چین ابھی تک اپنا حصہ تصور کرتا ہے۔ ان میں بھارت کی ایک ریاست اروناچل پردیش بھی شامل ہے۔ 
1960ء کی دہائی میں جب چین نے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدوں کی نشان دہی کیلئے مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کیا،تو اس نے بھارت کو بھی مذاکرات کی دعوت دی۔یہ مذاکرات بیجنگ اور نئی دہلی میں ہوئے۔ماہرین کی سطح پر مذاکرات میں جب متنازع امور پرتصفیہ نہ ہوسکا تو اس وقت کے چینی وزیراعظم چواین لائی اور ان کے بھارتی ہم منصب پنڈت نہرو کے درمیان بھی ملاقات ہوئی۔لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی۔کیونکہ بھارت 1914ء کی سرحد کو ہی برقرار رکھنے پر مصر تھا۔اسی اثنامیں جب تبت اور چین کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں دلائی لامہ کے حامیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا،تو چین کی فوجیں ان کی سرکوبی کیلئے اگلے مورچوں میں داخل ہوگئیں۔بھارت نے شور مچایا کہ چین نے یک طرفہ طور پر متنازع علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اس پر پنڈت نہرو نے چینیوں کو بزور طاقت ان علاقوں سے باہر نکالنے کی تیاریاں شروع کر دیں‘ جنہیں بھارت اپنا سمجھتا تھا۔ حالانکہ چین کی طرف سے برابر مذاکرات کے ذریعہ اس مسئلے کے حل پر زور دیا جارہا تھا۔ لیکن بھارت اور خصوصاً پنڈت نہرو اپنی فوجی قوت کے مظاہرے پرتلے ہوئے تھے ۔اس کیلئے ابتدائی طور پر بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ایک چھوٹی سی پرتگیزی نو آبادی گوا کے خلاف فوجی اقدام کیا گیا۔ اس چھوٹی سی نو آبادی کے دفاع پر مامور قلیل تعداد میں پر تگیزی سپاہیوں کے خلاف بھارت نے جنرل چودھری کی کمان میں جیٹ طیاروں کی مدد سے زبردست یلغار کر دی۔بھارت کے اس اقدام کو پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔کیونکہ گوا میں پرتگیزیوں کی موجودگی کسی بھی لحاظ سے بھارت کی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں تھی۔ اگر گوا میں مقامی آبادی اور پرتگیزی حکام کے درمیان کوئی جھگڑا تھا،تو اسے باآسانی پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جاسکتا تھا۔لیکن اس بھارتی اقدام کا اصل مقصد چین کو بھارت کی فوجی طاقت سے مرعوب کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ گوا کے خلاف ایکشن کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے اقصائے چین سے چینی فوجوں کو نکالنے کیلئے بھارتی فوج کوکاروائی کا حکم دے دیا۔چینی فوجی لڑائی کیلئے تیار نہیں تھے۔ان پر اچانک حملہ کر کے بھارتی فوجیوں نے تقریباََ 100کے قریب چینی فوجی ہلاک کر دیے۔اس پر بھارتی حکومت نے اپنی فوج کی بہادری کا خوب پروپیگنڈہ کیا اور بڑے فخر سے دنیا بھر کے سامنے اعلان کیا کہ چین کی جس فوج نے کوریا میں امریکی افواج کی پیش قدمی روک دی تھی ،اسے بھارتی فوج نے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔لیکن بھارت کی یہ خوش فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔
اکتوبر کے آخر میں جب بھارتی افواج کے حملے کے خلاف چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے جوابی کارروائی کی تو بھارتی سینا کے سینکڑوں جوانوں نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے اور باقی ماندہ نے بھاگ کر جان بچائی۔ اس آپریشن میں بھارت کو نہ صرف زبردست جانی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ بڑی مقدار میں ہتھیار اور اسلحہ بھی چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔اس مختصر جنگ کے بعد چین نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا بلکہ ان علاقوں سے بھی پیچھے ہٹ گئے جن پر انہوں نے بھارتی فوجوں کے تعاقب میں قبضہ کیا تھا۔ صرف ان علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جنہیں وہ تاریخی اور قانونی لحاظ سے اپنا سمجھتے ہیں۔بھارت کی اس شکست کی اصل وجہ یہ تھی کہ بھارتی فوج اس لڑائی کیلئے تیار نہیں تھی۔پنڈت نہرو نے صرف اپنی انا کی خاطر بھارتی فوج کو اس جنگ میں دھکیل دیا تھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں