پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل‘ اسلامی جمعیت طلبا کے دو دفعہ ناظم اور خیبر پختون خوا اسمبلی کے تین دفعہ رکن منتخب ہونے والے‘ اپر دیر سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ سراج الحق جماعت اسلامی کے نئے امیر منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ اس عہدے پر پانچ سال تک برقرار رہیں گے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے برعکس جماعت اسلامی ایک ماس پارٹی (Mass Party) بلکہ کیڈر پارٹی (Cader Party) ہے‘ اس لیے اس کے سربراہ کا انتخاب ایک طویل‘ پیچیدہ اور بالواسطہ طریقے سے عمل میں آتا ہے‘ بالکل کمیونسٹ پارٹی کی طرح‘ اس لیے سراج الحق کا انتخاب بطور امیر جماعت اسلامی یقیناً خوب سوچ بچار کے بعد ہی کیا گیا ہو گا؛ تاہم پروفیسر خورشید احمد‘ محمد اسلم سلیمی‘ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ اور حافظ ادریس جیسے سینئر رہنمائوں کی موجودگی میں سراج الحق کا انتخاب کسی حد حیران کن ضرور ہے۔ اس سے قبل عام طور پر جماعت کے ان رہنمائوں میں سے کسی کو بطور امیر منتخب کیا جاتا تھا جنہیں جماعت کی مرکزی قیادت میں اعلیٰ سطح پر کام کرنے کا وسیع اور طویل تجربہ رہا ہو‘ مثلاً میاں طفیل محمد امیر منتخب ہونے سے پہلے ایک عرصہ تک جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے۔ سراج الحق تیسری بار صوبہ خیبر پختون خوا اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی حکومت میں وزیر خزانہ اور سینئر وزیر رہ چکے ہیں۔ آج کل بھی کے پی کے کابینہ کے رکن ہیں لیکن جماعت کی مرکزی قیادت میں ان کے پاس اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا عہدہ تھا۔
سراج الحق جماعت اسلامی کی قیادت ایک ایسے وقت پر سنبھال رہے ہیں‘ جب اس تنظیم کا سیاسی گراف اس کی پوری تاریخ میں غالباً سب سے زیادہ نچلی سطح کو چھو رہا ہے۔ اس کا
واضح ترین مظاہرہ گزشتہ عام انتخابات میں ہوا‘ جب جماعت اسلامی کو بدترین انتخابی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایک زمانہ تھا‘ جب دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اتحاد کے لیے جماعت اسلامی کے پیچھے بھاگتی تھیں‘ لیکن گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی کبھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور کبھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوشاں نظر آ رہی تھی‘ لیکن ان دونوں جماعتوں میں سے کسی نے بھی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد میں اتنی دلچسپی اور سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا جماعت کو امید تھی۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ہاتھوں بھی نقصان اٹھانا پڑا‘ جس نے جماعت اسلامی کے تعاون کے بغیر ہی متحدہ مجلس عمل کے احیا کا اعلان کر دیا۔ سابق امیر سید منور حسن کے دور میں جماعت اسلامی کی سیاست کے دو پہلو نمایاں رہے۔ اندرونی طور پر پیپلز پارٹی‘ نیشنل عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی سخت مخالفت اور انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کی کھلی مذمت سے احتراز‘ حتیٰ کہ گزشتہ انتخابات میں جب تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا‘ تو جماعت اسلامی نے ان حملوں کی مذمت کرنے کے بجائے‘ ان کا کسی نہ کسی طریقے سے جواز پیش کرنا شروع کر دیا۔ حکیم اللہ محسود کی
ہلاکت پر اسے ''شہید‘‘ کا درجہ دینے کے سید منور حسن کے بیان سے بھی ان لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی جو جماعت کو ایک دینی لیکن اعتدال پسند سیاسی جماعت سمجھتے تھے۔
بیرونی محاذ پر جماعت اسلامی نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے اتحاد اور تعاون اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سخت مخالفت کی ہے۔ پاکستان میں امریکہ کے خلاف اس وقت جو نفرت کی آگ پائی جاتی ہے اس کو بھڑکانے میں اس کا خاصا کردار ہے۔ جماعت کی سابق قیادت نے 'پاکستان امریکہ اتحاد‘ کو ختم کرنے کے لیے عوام کو جلسوں‘ جلوسوں کے ذریعے متعدد بار سڑکوں پر لانے کی کوشش کی‘ لیکن ناکام رہی۔ اسی طرح امریکہ کے ساتھ بھارت کو بھی پاکستان کے تمام مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار قرار دے کر‘ جماعت نے پاک بھارت تجارتی تعلقات کو وسیع کرنے کی بھی مخالفت کی۔ اس مقصد کے لیے جماعت نے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم کا انتخاب کیا‘ جس میں مذہبی جماعتیں اور گروہ شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے 2012ء میں نیٹو سپلائیز بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی‘ لیکن دونوں مسائل پر عوام نے جماعت اسلامی اور دفاع پاکستان کونسل کی اپیلوں پر کان نہیں دھرا۔ اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کا خیبر پختون خوا حکومت میں اتحاد 'شاخ نازک پہ آشیانے‘ کی مانند ہے۔ دونوں سیاسی پارٹیوں میں امریکہ کی مخالفت اور طالبان کی حمایت کے سوا اور کوئی قدر مشترک نہیں۔ خیبر پختون خوا حکومت میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کی شرکت اس کی شرائط پر نہیں بلکہ تحریک انصاف کی شرائط پر عمل میں آئی تھی۔ متعدد بار جماعت کی صوبائی قیادت نے اس بات کا شکوہ کیا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ اسے اہم فیصلوں میں نظر انداز کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب صوبائی حکومت نے نومبر سے جاری نیٹو سپلائیز کے خلاف دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا‘ تو سراج الحق‘ جو اس وقت صوبائی حکومت میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز ہیں‘ نے خود شکایت کی کہ انہیں اس فیصلے سے قبل اعتماد میں نہیں لیا گیا‘ حالانکہ تقریباً چار ماہ سے جاری اس دھرنے کو موثر بنانے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ایجی ٹیشنل پالٹیکس میں روایتی مہارت کا بہت دخل تھا۔
دیکھا جائے تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو متحد کرنے کے مقابلے میں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی وجوہ کا پلہ بھاری ہے۔ دونوں کے سیاسی نقطہ ہائے نظر میں فرق زیادہ اور یکسانیت کم ہے۔ دونوں کا اتحاد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک طالبان کی دہشت جاری ہے۔ 2014ء کے بعد جب ملکی اور علاقائی سیاست کے عوامل (dynamics) بدل جائیں گے تو دونوں کا اتحاد بھی تحلیل ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم اور فعال مذہبی سیاسی جماعت ہے‘ جس نے آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے قومی سیاست میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے اس کردار کی ادائیگی میں جماعت نے کئی مواقع پر حقیقت پسندی اور بالغ نظری کا بھی ثبوت دیا۔ اس ضمن میں 1950ء کے عشرے میں سول لبرٹیز (Civil Liberties) کے حق میں جدوجہد اور 1960ء کی دہائی میں ایوب آمریت کے خلاف تحریک میں جماعت اسلامی کے نمایاں کردار کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ان دونوں مواقع پر جماعت نے سیکولر سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے بھی انکار نہیں کیا تھا۔ 1950ء کی دہائی میں جماعت اسلامی نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور 1977ء میں پی این اے کی تحریک میں عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی تھی۔ لیکن یحییٰ خان کی غیر مشروط حمایت اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن میں اپنی مسلح تنظیموں ''البدر‘‘ اور ''الشمس‘‘ کے ساتھ شرکت کر کے جماعت اسلامی نے خود کو متنازع بنا لیا تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دے کر اور افغانستان میں مجاہدین کے کچھ گروپوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے خصوصی روابط نے بھی اس کی ہردلعزیزی کو بری طرح متاثر کیا۔ پاکستانی طالبان کے بارے میں جماعت اسلامی کے موقف نے بھی قوم کو جماعت سے بدظن کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست میں جماعت اسلامی کو جو بارگیننگ پاور (Bargaining Power) حاصل تھی‘ وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔
یہ وہ چیلنجز ہیں جو جماعت اسلامی کے نئے امیر کو درپیش ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ویژن کا سہارا لیتے ہیں یا سید منور حسن کی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی سیاست کو جاری رکھتے ہیں۔